خود احتسابی کے بغیر اصلاح ممکن نہیں آخری حصہ
تمام ووٹروں کے ذہن میں خصوصاً پنجاب میں، بجلی اور گیس کی طویل تکلیف دہ لوڈ شیڈنگ حاوی تھی۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پی پی پی کی سب سے بڑی خامی یہ رہی کہ انتخابی مہم کی قیادت کرنے کے لیے کوئی رہنما موجود نہیں تھا۔ زرداری نے پی پی پی کے کسی معتبر رہنما کو ابھرنے کا موقع نہ دیا اور وہ اپنی ہمشیرہ فریال ٹالپر اور ان بدعنوان وزرائے اعظم پر حد سے زیادہ انحصار کرتے رہے جن کے سر پر انھوں نے خود تاج رکھا تھا۔ بے نظیر کا کرشمہ اب باقی نہیں رہا تھا اور ہمدردی کا ووٹ جو ان کے قتل کے بعد پارٹی کو ملا تھا، ادِھر ادُھر ہو چکا تھا۔ پارٹی کے پرانے کارکن کہتے ہیں کہ ''اب یہ بھٹو کی پارٹی نہیں رہی، یہ زرداری کی پارٹی ہے۔''
پی پی حکومت کی زیادہ تر توانائی پارلیمنٹ پر بالا دستی حاصل کرنے کے لیے مختلف اداروں کے درمیان کشمکش سے نمٹنے میں ضایع ہو گئی۔ تاہم اگر پارٹی خود کو کرپشن اور اقربا پروری سے دور رکھتی تو وہ زیادہ گنجائش حاصل کر سکتی تھی۔ پیپلز پارٹی آخری وقت تک ایک کمزور اخلاقی بنیاد پر کھڑی رہی۔ یہ سچ ہے کہ دوسرے اداروں کا ریکارڈ بھی جو اس کی حکومت کو کمزور کرتے رہے، تابناک نہیں تھا، مگر ان کا امیج اتنا داغ دار نہیں تھا جتنا کہ پی پی پی کا تھا۔ ریاست کے معمول کے اداروں مثلاً انتظامیہ، عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان زیادہ اختیارات کے لیے اس کھینچا تانی نے اُس نظام کو مستحکم نہیں ہونے دیا جو ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھا۔
پی پی پی کی حکومت کو پاکستان کے فوجی حکمرانوں کی طرف سے طے کردہ جغرافیائی و قومی سلامتی کی ایک خطرناک پالیسی ورثے میں ملی تھی۔ اس پالیسی نے ملک کو تباہ کن سماجی، اقتصادی اور سیاسی نتائج کے حامل علاقائی تنازعات میں دھکیل دیا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے اتحادی حکومت کی کوشش کو ایجنسیوں اور ان کی جہادی تنظیموں نے سبوتاژ کر دیا۔ نواز شریف کی کوششوں کو کارگل آپریشن شروع کر کے فنا کر دیا گیا۔ زرداری نے جو کوششیں کیں ان پر جہادیوں نے ممبئی کے قتل عام سے پانی پھیر دیا۔
جہادی گروپوں کی دہشت گرد سرگرمیوں اور ایجنسیوں کی جانب سے بلوچستان کی قوم پرست تحریک کے ساتھ بے رحمی سے نمٹنے کے باعث ملک مسلسل نقصان اٹھا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ نہ صرف ہزاروں افراد کی ہلاکت کی صورت میں نکلا بلکہ اس سے پاکستان کی معاشی ترقی کو بھی سخت نقصان پہنچا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت قومی سلامتی کی اور بلوچستان پالیسی کو جی ایچ کیو سے واپس لینے میں ناکام رہی۔ مگر اس ناکامی کا ذمے دار اسے ٹھہرایا گیا۔
تاہم پی پی کی حکومت نے سیاسی اعتبار سے بعض بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ اس نے کسی خون خرابے کے بغیر سیاست دانوں کی طرف سے ایک فوجی جنرل کو نکال باہر کرنے میں مدد دی۔ اس نے18 ویں ترمیم اور نیشنل فائنانس کمیشن (NFC) ایوارڈ کے ذریعے مرکز سے صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منتقلی کی جانب ایک بڑی پیش رفت کی، یہ کام ہم پچھلے64 سالوں میں نہیں کر سکے تھے۔ منتخب حکومت کو چلتا کرنے اور اسمبلیاں توڑنے کے یک طرفہ صدارتی اختیارات ختم کر دیے گئے۔
آزادی صحافت، جسے بعض لوگ جمہوریت سے اپنی مایوسی ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اسی جمہوریت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ پارلیمان نے جس کا بنیادی کام قانون سازی ہے، 134 قوانین کی منظوری دی اور ان میں سے زیادہ تر اپوزیشن کے اتفاق رائے سے منظور کیے گئے۔ پی پی پی کے دور حکومت میں خواتین کے حقوق سے متعلق جتنے بل منظور ہوئے ان کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے مگر ووٹر اس سے متاثر نہیں ہوئے اور پیپلز پارٹی کی قیادت عوام کو ان اقدامات کے فوائد کی وضاحت سے قاصر رہی۔
طرز حکمرانی کے حوالے سے حکومت نے خود کو نا اہل ثابت کیا۔ پی پی پی کی زیر قیادت اتحادی حکومت پر جن بڑی ناکامیوں کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے وہ یہ ہیں:۔ کرپشن، توانائی کا بحران، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، بہت زیادہ افراط زر، ٹیکس محاصل کی کم وصولی، معیشت پر سرکاری شعبے کے مفلوج کر دینے والے اثرات، پانچ سال کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 58 فیصد کمی، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں گراوٹ اور مجموعی قومی پیداوار کی کم افزائش۔
تمام ووٹروں کے ذہن میں خصوصاً پنجاب میں، بجلی اور گیس کی طویل تکلیف دہ لوڈ شیڈنگ حاوی تھی۔ پی پی پی کے وزراء اس مسئلے کو حل کرنے میں بری طرح ناکام رہے اور ووٹروں نے اس کی بجا طور پر سزا دی۔
ایک غیر مستحکم اور غیر محفوظ ماحول کی وجہ سے کم سرمایہ کاری کا نتیجہ، بے روزگاری کی زیادہ شرح اور ڈبل ڈیجٹ (دو ہندسوں میں) افراط زر کی صورت میں نکلا جس نے پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کو متاثر کیا، کیونکہ وہ ہمیشہ یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ غریبوں کی پارٹی ہے۔ اس کی قیادت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر انحصار کر رہی تھی جس سے بقول ان کے7 ملین غریب خاندانوں کی مدد ہو رہی ہے۔ انھیں امید تھی کہ اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والے پارٹی کو ووٹ دیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔
پی پی پی کے رہنما یہ بھول گئے کہ ان کے ووٹرز پارٹی کا انتظام چلانے کے زرداری انداز سے نالاں ہیں اس لیے وہ ووٹ ڈالنے گھروں سے باہر نہیں نکلے۔ اور پارٹی میں کوئی ایسا لیڈر نہیں تھا جو ووٹروں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے عوام میں کشش رکھتا ہو۔ ان کی انتخابی حکمت عملی میں ووٹروں کی تعداد بڑھانے اور عمر کے لحاظ سے ان کی تقسیم جیسا کوئی محرک شامل نہیں تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ 1970ء میں بھٹو کی زیر قیادت پی پی پی نے پنجاب میں متوسط اور نچلے متوسط طبقات اور دیہات کے غریبوں پر انحصار کیا تھا۔ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) کو پنجاب کے چھوٹے، درمیانے اور بڑے کاروباری لوگوں کی حمایت حاصل ہے جو قومی اوسط سے کہیں زیادہ تیز رفتار سے مسلسل ترقی کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک غیر منظم اور بے قائد پیپلز پارٹی کے لیے انتخابی ترتیب کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔