کئی اچھے فن کار آج سبزی بیچنے پر مجبور ہیں

خطرہ ہے، پاکستان میں بانسری کا سفر مجھ پر آکر نہ ختم ہوجائے،ممتاز بانسری نواز، استاد سلامت حسین کی کتھا


جب تک دل سے نہ بجائی جائے، بانسری سے آواز نہیں آتی ۔ فوٹو : فائل

اُنھوں نے سانس پھونکا۔ اور بانسری جی اٹھی۔ جادوئی سُروں کا جنم ہوا۔ فضا میں نغمگی تیرنے لگی!

بلاشبہہ وہ ایک خوش گوار صبح تھی۔ دبیز بادلوں نے آسمان ڈھانپ رکھا تھا، مگر صبح نے اپنا حقیقی حسن تب عیاں کیا، جب استاد سلامت حسین نے بانسری میں خواب بیدہ سُر تک رسائی حاصل کی۔

اپنی کلا کے مسحور کن مظاہرے کے بعد بانسری ایک طرف رکھ کر وہ ہماری جانب متوجہ ہوئے۔ مکالمے کا آغاز ہوا۔ زمانۂ قدیم میں جانور کی نلی سے بنائی جانے والی بانسری کی ساخت بیان ہوئی۔ پھر حضرت داؤدؑ کا ذکر آیا، جنھوں نے پہلی بار بانس کو ساز کی شکل دی۔ ایسا ساز، جو دھیرے دھیرے پوری دنیا میں پھیل گیا۔ ہر خطے میں اِسے نیا نام دیا گیا۔ ہندوستان نے اِسے کرشنا کی بنسی کے طور پر جانا۔ کہتے ہیں،''مولانا روم کی مثنوی کا پہلا شعر ہی بانسری سے متعلق ہے۔ جب کبھی میرا ترکی جانا ہوتا ہے، مولانا روم کے دربار پر ضرور حاضری دیتا ہوں۔'' یہ ساز اُن کے بہ قول، ہر کوئی بجا لیتا ہے، مگر جب تک دل سے نہ بجائی جائے، بانسری سے آواز نہیں آتی۔

اِس صدارتی ایوارڈ یافتہ کلا کار کی کہانی کام یابیوں کی داستان ہے۔ کئی ملی نغموں کی مقبولیت میں استاد سلامت حسین کی بانسری کا کلیدی کردار رہا۔ ''یہ وطن تمھارا ہے'' اور ''اپنی جاں نذر کروں'' میں مہدی حسن کی سنگت کی۔ ''اے وطن پاک وطن'' اور ''چاند میری زمیں'' کے لیے امانت علی خان کی آواز کے ساتھ اپنا ساز رچا۔ جب شہناز بیگم نے ''سوہنی دھرتی اﷲ رکھے'' اور ''جیوے جیوے پاکستان'' گائے، اُنھوں نے بانسری تھام رکھی تھی۔ میڈم کی آواز میں ریکارڈ ہونے والے ''اے وطن کے سجیلے جوانوں'' میں بھی اُن کا جذبہ شامل تھا۔ کئی مقبول فلمی گیتوں میں اُن کی جادوئی بنسی سنائی دی۔ اس فہرست میں ''ہار گئی ہار گئی تَو سے دل لگا کے''، ''نینا روئے چھم چھم''، ''تو جو نہیں، تو کچھ بھی نہیں''، ''بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے''، ''چاند جب بھی مسکراتا ہے'' اور ''محبتوں کے قدر دان نہ شہر میں نہ گاؤں میں'' نمایاں ترین ہیں۔



کتابِ زندگی کی ورق گردانی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِس باصلاحیت فن کار نے 10اکتوبر 1937 کو ریاست رام پور، اتر پردیش میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، محمد جان نواب آف رام پور کے فوجی بینڈ سے منسلک تھے، جنھیں مبارک باد دینے سیکڑوں گھڑ سوار، سلامت حسین کی پیدایش والے روز، بگل بجاتے ہوئے امنڈ آئے۔ دو بہنوں، چار بھائیوں میں اُن کا نمبر دوسرا ہے۔ شمار ذہن بچوں میں ہوا کرتا۔ ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں، والد کے مزاج میں شفقت نمایاں تھی، کراچی کو مسکن بنانے کے بعد وہ ہر جمعرات عبداﷲ شاہ غازیؒ کے مزار پر حاضری دیا کرتے تھے۔ کم سن سلامت حسین قابل طالب علم تھے۔ اسکول کے اساتذہ اُنھیں بہ طور مثال پیش کرتے۔ باقاعدہ وظیفہ ملا کرتا تھا، تاہم ہجرت کی گھاٹی عبور کرنے کے بعد تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رہ سکا۔ زیادہ کھیل نہیں کھیلے۔ بانسری کی سمت آنے کے بعد تو سب ہی کچھ چُھوٹ گیا۔

گائیکی کے گھرانے سے دُور کا بھی رشتہ نہیں۔ اس سمت آنے کا سبب تو خالو، ماسٹر گچھن بنے۔ وہ استاد مشتاق حسین سے، جو استاد لطافت حسین کے بھائی تھے، کلاسیکی موسیقی کا سبق لیا کرتے تھے۔ کم عمر سلامت بھی پہلو میں بیٹھ جاتے۔ یوں دھیرے دھیرے سروں کی سمجھ پیدا ہوئی۔ بعد کے برسوں میں خالو نے، جو اُن کے پہلے استاد بھی ٹھہرے، کلارنٹ نوازی میں اپنا نام بنایا۔رام پور چھوڑنے کا سبب ہیضے کی وبا بنی، جس نے بڑے بھائی کی جان لے لی۔ اس آسیب سے محفوظ رہنے کے لیے اہل خانہ نے بہار کا رخ کیا۔ وہاں والد نے کاروبار شروع کیا۔ خالو نے میوزیکل بینڈ بنا لیا، اور سرکس میں پرفارم کرنے لگے۔ سلامت حسین بھی اکثر ساتھ چلے جاتے۔ بانسری سے ان ہی دنوں دوستی ہوئی۔ پھر تقسیم کا واقعہ پیش آیا۔ بہار میں جنم لینے والی کشیدگی آج بھی ذہن میں محفوظ ہے۔ بتاتے ہیں، جب وہ صبح ریڈیو پاکستان سے تلاوت سنا کرتے، تو مغرب میں واقع مسلمانوں کی ریاست دیکھنے کی خواہش مچلنے لگتی۔ دعائیں 50ء میں قبول ہوئیں۔ خاندان نے نئی زمینوں کی سمت رختِ سفر باندھا۔ ابتداً جیکب لائن میں ڈیرا ڈالا۔ پھر لالو کھیت کا رخ کیا۔

بھرا پُرا کنبہ، وسائل نہ ہونے کے برابر۔ بہت مشکل وقت تھا وہ۔ گھر کا ہر مرد یافت کے ذرایع کھوجنے نکل پڑا۔ سلامت حسین بھی ان میں شامل تھے۔ جہاں چھوٹے موٹے کام کیے، وہیں ردّی بھی بیچی۔ محنت مشقت سے آنکھوں میں آشوب کی شکایت ہوگئی۔ والدہ نے یہ صورت حال دیکھی، تو یہ کام کرنے سے منع کردیا۔ جدوجہد کے تپتے ہوئے تلخ دن بانسری سے دور نہیں کرسکے کہ روح کا سُروں سے سمبندھ تھا۔ سڑک پر چلتے ہوئے اگر بانسری کی آواز سنتے، تو ٹھہر جاتے۔ پھر ایک روز صدر سے دو آنے کی بانسری خرید لی۔ کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد رات بانسری کی مشق کیا کرتے۔ بہ قول اُن کے،''وہ دن ہے اور آج کا دن، بانسری کو خود سے جدا نہیں ہونے دیا۔''



یہ سن 52 کی بات ہے۔ فن کے اظہار کی للک ریڈیو پاکستان لے گئی۔ اس کے گنبد کو تکنے کی مشق شروع کر دی۔ پھر ایک وسیلہ ہاتھ آیا۔ معروف سارنگی نواز، استاد حامد حسین خان ریڈیو سے منسلک تھے۔ وہ اُن کے شاگرد ہوگئے۔ سلامت حسین روزانہ پانی کی بالٹیاں بھر کے چوتھے مالے پر واقع استاد کے فلیٹ میں پہنچاتے، اور پھر اُن کا کھانا لیے ریڈیو پاکستان پہنچ جاتے۔ فن پر گرفت تھی۔ جس پروڈیوسر نے اُنھیں

سنا، کاندھا تھپتھپایا۔ زیڈ اے بخاری نے آڈیشن لیا، جس سے گزر کر وہ آرٹسٹوں میں شامل ہوگئے۔ ریڈیو سے ماہانہ ڈیڑھ سو روپے ملا کرتے تھے۔ جب رات گئے سرگرمیاں سمیٹ دی جاتیں، سلامت حسین وہیں ٹھہر جاتے۔ ایک گھنٹے ریاض کرتے۔ اس زمانے میں فلم اسٹوڈیوز کے بھی چکر لگائے، جہاں اُنھیں رد کردیا گیا، مگر ہمت نہیں ہاری۔ پھر استاد امراؤ بندو خان کے مشورے پر حیدرآباد کا رخ کیا، جہاں ریڈیو پاکستان کا اسٹیشن تازہ تازہ قائم ہوا تھا۔ لطیف آباد کے، کھڑکی اور دروازے سے محروم ایک کوارٹر میں ڈیرا ڈال لیا۔ ڈیڑھ برس وہاں بیتے۔ جم کر پرفارم کرنے کا موقع ملا۔ کراچی لوٹنے کے بعد اُنھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اب اُن کی بانسری باقاعدگی سے سامعین کی سماعتوں میں رس گھولنے لگی۔

فلمی سفر کا آغاز 57-58 میں ہوا۔ سندھی فلموں میں اُن کی کلا دمکی، تو اردو فلموں کے موسیقار اُن کی جانب متوجہ ہوئے۔ کئی مقبول نغموں میں اُن کا ساز بجا۔ رفیق غزنوی کے ساتھ کام کیا۔ لال محمد اقبال کی لگ بھگ تمام فلموں میں استاد سلامت حسین ہی نے بانسری بجائی۔ 60 کی دہائی میں موسیقار، خلیل احمد کے ساتھ لاہور انڈسٹری کا رخ کیا۔ پہلی ہی فلم ''خاموش رہو'' کے گیت ''میں نے تَو سے پیت نبھائی'' نے انھیں توجہ کا مرکز بنا دیا۔ آنے والے برسوں میں خواجہ خورشید انور، رشید عطرے، ماسٹر عنایت حسین، اے حمید، سہیل رعنا اور ناشاد صاحب سمت تمام بڑے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ اِس عرصے میں مشرقی پاکستان کا بھی رخ کیا، جہاں اُن کے فن نے سننے والوں کا دل موہ لیا۔ کئی فلمیں کیں وہاں۔ 80ء تک فلمی دنیا سے جڑے رہے۔ پھر بگڑتے حالات کے پیش نظر اُس سے دور ہوگئے۔

پی ٹی وی سے وابستگی تو پرانی ہے۔ اُن اولین فن کاروں میں شمار ہوتا ہے، جنھوں نے ٹی وی پر پرفارم کیا۔ یہ رشتہ برسوں قائم رہا۔ کئی یاد گار گیتوں اور ملی نغموں میں اُن کی مسحور کن بانسری سنائی دی۔ سولو پرفارمینس کے میدان میں بھی اپنا سکہ جمایا۔ اِس ادارے کی جانب سے متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ انسٹرومینٹل البمز بھی ان کی شناخت کا مضبوط حوالہ ہیں۔ 25 کیسٹس اور 8 سی ڈیز میں اُن کے فن کو سمویا جاچکا ہے۔

1966 میں وہ پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کا حصہ بن گئے۔ وہ تجربہ شان دار رہا۔ یہ وابستگی 74ء تک قائم رہی۔ کچھ عرصے یہ ادارہ بند رہا۔ نام اور حیثیت تبدیل ہوتی رہی۔ بعد میں اِسے وفاقی حکومت نے تحویل میں لے کر پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کا نام دے دیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، اس ادارے میں اُن کی بانسری بج رہی ہے۔ ''ناپا'' بھی آنا جانا رہتا ہے۔ تقریبات میں پرفارم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی والے بھی اچھے دنوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے اُنھیں مدعو کر لیتے ہیں۔

اِس کلا نے اُنھیں پوری دنیا کی سیر کروائی۔ پہلا غیرملکی دورہ نیروبی کا تھا، جہاں پرنس آغا خان کی تاج پوشی کی تقریب میں فن کا مظاہرہ کیا۔ کئی سربراہان مملکت کے ساتھ غیرملکی دورے کیے۔ ایوب خان کے ساتھ لندن، ماسکو اور تاشقند دیکھے۔ بھٹو صاحب کے ساتھ جانے والے وفود میں بھی شامل رہے۔ ضیا الحق کے ساتھ ترکمانستان گئے۔ یورپ اور امریکا کا بھی متعدد بار رخ کیا۔ یوں تو ہر مقام پر سراہا گیا، مگر جو محبت چین اور ترکی میں ملی، وہ بے مثال ہے۔

فن بانسری نوازی کی موجودہ صورت حال، استاد سلامت حسین کے نزدیک، قطعی اطمینان بخش نہیں۔ ''خطرہ ہے، پاکستان میں بانسری کا سفر مجھ پر آکر ختم نہ ہوجائے۔ مجھے تو بلا لیا جاتا ہے، مگر میرے شاگردوں اور دیگر بانسری نوازوں کا یہ معاملہ نہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی میں اب پہلے جیسا کام نہیں ہو رہا۔ فلمیں بھی نہیں بن رہیں۔ پاکستان کے برعکس ہندوستان میں بانسری کا مستقبل ہے کہ وہاں اِس کی قدر ہے۔'' بتاتے ہیں، معروف بانسری نواز، ہری پرساد چورسیا نے اُنھیں ہندوستان آنے کی پیش کش کی تھی، مگر اُنھوں نے اِسے یوں قبول نہیں کیا کہ وہ اپنی صورت حال سے مطمئن ہیں۔

90ء میں پرائیڈ آف پرفارمینس اُن کے حصے میں آیا۔ مختلف کیٹیگریز میں اُنھیں پانچ پی ٹی وی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ریڈیو کے علاوہ دیگر اداروں نے بھی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے نشان سپاس پیش کیے۔ وہ اِس محبت کے لیے شکرگزار ہیں، مگر شکایت ہے کہ ماضی کے برعکس اب حکومت سینئر فن کاروں پر توجہ نہیں دیتی۔ ''وفود بیرون ملک جاتے ہیں، مگر ہمیں شامل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ کہہ دیتے ہیں کہ بجٹ نہیں ہے۔ خیر، مجھے نہ بلائیں، مجھے غم نہیں، میرا تو یہ معاملہ ہے کہ رات کو ریاض نہ کروں، تو نیند نہیں آتی، لیکن حکومت کو فن کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ میں ایسے کتنے ہی اچھے فن کاروں کو جانتا ہوں، جو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے آج سبزی بیچنے پر مجبور ہیں۔ میرے ایک شاگرد، ارشد نیازی نے مایوس ہو کر بانسری چھوڑ دی، اب وہ 'کی بورڈ' بجارہا ہے۔ ایسی اور بھی مثالیں ہیں۔''

اُن کے مطابق یہ فن خدا کی دَین ہے، ایک تحفہ ہے۔ ''یہ کسی کسی کا نصیب بنتا ہے۔ اگر یہ مشق سے سیکھا جاسکتا، تو دوسرا مہدی حسن پیدا ہوجاتا۔ ہاں، اگر کسی میں صلاحیت ہے، تو اسے پالش کیا جاسکتا ہے۔ اور یہی کام ادارے کررہے ہیں۔'' وہ بانسری کی سمت آنے والے نوجوانوں کو محنت کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

جن گویوں کے ساتھ کام کرکے خوشی ہوئی، اُن میں مہدی حسن نمایاں ہیں۔ اگر کبھی ایسے فن کار کے ساتھ پرفارم کرنا پڑا، جس کی آواز اُن کی کلا کا ساتھ دینے سے قاصر تھی، تو خود ایک ''اسکیل'' نیچے آگئے۔ ''فیوژن'' کا بھی تجربہ کیا، جدید سازوں کے ساتھ بانسری کے سُر ملائے۔ اِس عمل سے لطف اندوز ضرور ہوئے، مگر وہ ''فیوژن'' کے مستقبل سے زیادہ پُرامید نہیں۔ کہنا ہے، بانسری کلاسیکی سازوں ہی کے ساتھ جچتی ہے۔عام طور سے وہ کُرتا شلوار میں نظر آتے ہیں۔ سوٹ بھی پہنتے ہیں۔

معتدل موسم بھاتا ہے۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ شاعری میں اقبال، فیض اور حمایت علی شاعر کو سراہتے ہیں۔ کلاسیکی سازوں میں سارنگی پسند ہے۔ اِس میدان میں محمد احمد خان کے کام نے متاثر کیا۔ بانسری کی دنیا میں دیبو بھٹا چاریہ، پنا لال اور ہری پرساد چورسیا کو وہ سراہتے ہیں۔ گلوکاروں کی بابت کہتے ہیں،''یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جس گلوکار نے اپنا پہلا گیت میرے ساتھ گایا، وہ ہٹ ہوگیا۔ کئی نام ہیں۔ عابدہ پروین اس کی مثال ہیں۔ شازیہ خشک، آصف علی اور امجد حسین بھی اِس فہرست میں شامل ہیں۔''

57ء میں شادی ہوئی، جس سے ایک دل چسپ واقعہ نتھی ہے۔ ''حسین شہید سہروردی اکثر بانسری سننے کے لیے مجھے بلا لیا کرتے۔ میری شادی کے روز اُن کی بیٹی، بیگم اختر سلیمان کا اچانک بلاوا آگیا، اور میں حجلۂ عروسی میں جانے کے بہ جائے گورنر ہاؤس چلا گیا۔'' خدا نے اُنھیں سات بیٹوں، دو بیٹیوں سے نوازا۔ تمام بچوں کی شادی ہو چکی ہے۔ پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کے ساتھ گپ شپ مسرت سے بھر دیتی ہے۔ دُکھ تو زندگی میں کئی آئے، مگر بیٹے کا قتل زندگی کا کرب ناک ترین لمحہ تھا، جس کا ذکر کرتے ہوئے اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔

اور آسمان برس پڑا!
سچے سُروں اور ساون میں کوئی پُراسرار رشتہ ہے۔ جُوں ہی کلاکار اپنے اوج کو چھوتا ہے، بادل امنڈ آتے۔ بغداد میں وہ ایسے ہی تجربے سے گزرے۔ ''تقریب میں مَیں نے بغدادی دھن چھیڑی۔ تھوڑی ہی دیر میں بارش شروع ہوگئی۔ جب پرفارمینس ختم کی، بارش تھم چکی تھی۔ میرے بعد جس گروپ نے پرفارم کرنا تھا، وہ ابھی تیار نہیں تھا۔

مجھ سے کہا گیا کہ آپ پرفارمینس جاری رکھیں۔ مجمعے سے 'بغدادی، بغدادی' کا شور اٹھنے لگا۔ میں نے دوبارہ اِسی دھن میں بانسری بجانا شروع کردی۔ اﷲ کا کرم دیکھیے، جوں ہی سُر بکھرے، بارش پھر شروع ہوگئی۔'' اِسی سے زیارت کا واقعہ نتھی ہے، جہاں اُنھوں نے پہاڑوں میں، سرسبز درختوں اور فطری سکوت میں کھڑے ہو کر ''چھوٹی'' بانسری میں سانس پھونکا، تو آسمان برس پڑا۔

جب چواین لائی سامعین میں موجود تھے۔۔۔
استاد سلامت حسین کی زندگی میں بھی کیسے کیسے یادگار لمحے آئے۔1954 کی وہ شام یاد ہے، جب اُنھیں چین کے وزیراعظم اور معروف سیاسی راہ نما، چواین لائی کے سامنے پرفارم کرنے کا موقع ملا، جسے وہ اپنے لیے اعزاز گردانتے ہیں۔ اُس پرفارمینس کے بعد چین اور وہ، محبت کے اٹوٹ بندھن میں بندھ گئے۔

جب چین کا کوئی وزیر اعظم یہاں آتا، وہ ضرور پرفارم کرتے۔ متعدد بار چین بھی جانا ہوا۔ کہتے ہیں،''جب کبھی چین جاتا، تو وہاں پرفارمینس سے پہلے اعلان ہوتا تھا: 'اب استاد سلامت حسین پرفارم کریں گے، جو چواین لائی کے سامنے بھی پرفارم کر چکے ہیں!' یہ سنتے ہیں ہزاروں لوگ کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگتے۔''

گھر: بانسریوں کا میوزیم
گھر کیا ہے، بانسریوں کا پورا میوزیم ہے۔ کئی بانسریاں لوگوں کو تحفتاً دے چکے ہیں، مگر اب بھی پورا ایک صندوق بھرا ہوا ہے۔ تعداد لگ بھگ چار سو کے قریب ہے۔ اِس ذخیرے میں قدیم ترین دانہ تلاش کیا جائے، تو 52-53 میں خریدی ہوئی چند بانسریاں ہاتھ آتی ہیں۔

زندگی سمجھوتا کرنے کا نام ہے، مگر فن کے معاملے میں وہ کوئی سمجھوتا نہیں کرتے۔ بہ قول اُن کے، پاکستان میں اچھی بانسریاں نہیں بنتیں، ذاتی استعمال کے لیے اپنی نگرانی میں تیار کرواتے ہیں۔ بعد میں بھی ضرورت کے پیش نظر چھوٹی موٹی ترامیم کرتے رہتے ہیں۔

ننھا کرشنا اور میّا یشودھا!
یہ اُن دنوں کا ذکر ہے، جب کنبے نے جیکب لائن میں ڈیرا ڈال رکھا تھا۔ کرشنا کی طرح سلامت حسین پیڑ کے نیچے بیٹھ کر بانسری بجایا کرتے۔ سامنے فلیٹس تھے۔ جب بانسری کے سُر وہاں پہنچے، تو گوپیوں کی جانب سے فرمایشی رقعے آنے لگے۔ فرمایش کرنے والیوں کی اماؤں کو یہ گوارا نہیں تھا۔ شکایت لیے وہ میّا یشودھا، یعنی اُن کی والدہ کے پاس پہنچیں۔

اُن کے سپوت پر علاقے کا ماحول خراب کرنے کا الزام عاید کیا گیا۔ والدہ نے فقط ڈانٹنے پر اکتفا نہیں دیا، ٹھیک ٹھاک پٹائی کردی۔ یوں پیڑ کے نیچے آسن جمانے پر پابندی عاید ہوگئی۔ من تو وہیں اٹکا تھا۔ اب وہ خود پر فرد (لحاف) ڈال کر کہ بانسری کی آواز باہر نہ جائے، مشق کرنے لگے۔ گھنٹوں یونہی گزر جاتے۔ بے حال، پسینے سے تربتر وہ بانسری میں زندگی پھونکتے رہتے۔ گھڑی کے سامنے سانس پختہ کرنے کی مشق بھی کیا کرتے۔ یوں وقت کے ساتھ فن نکھرتا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں