مشکل ترین حالات اور بجٹ 2013ء…
نئی جمہوری حکومت کے قیام اور وفاقی کابینہ کی تشکیل کے صرف پانچ روز بعد وفاقی بجٹ پیش کیا گیا ہے..
نئی جمہوری حکومت کے قیام اور وفاقی کابینہ کی تشکیل کے صرف پانچ روز بعد وفاقی بجٹ پیش کیا گیا ہے جو کہ توقع کے عین مطابق ایک سخت بجٹ ہے کیونکہ پوری قوم اس حقیقت کو اچھی طرح جان چکی تھی کہ ملکی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ اس وقت ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 750 کھرب روپے اور کُل قرضوں کا مجموعی حجم 1600 کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ افراطِ زر کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے اور ملکی کرنسی کی قدر میں بے پناہ کمی آئی ہے۔
اس کے علاوہ گزشتہ سال کے بجٹ کا خسارہ گیارہ سو ارب روپے تھا جب کہ گزشتہ سال کی آمدنی کی مد میں مقرر کیے گئے ریونیو کلیکشن کے ہدف میں 790 ارب روپے کی عدم وصولی، 500 ارب روپے کے گردشی قرضے، قومی ملکیتی صنعتوں اور تجارتی اداروں کا 500 ارب سے تجاوز کرتا خسارہ اور توانائی کا بدترین بحران جس میں کمی کے لیے فوری طور پر کم از کم پانچ کھرب روپے درکار ہیں۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں کہ جس سے پوری قوم پوری آگاہ ہے۔ ایسے بدترین معاشی حالات میں موجودہ بجٹ کی تجاویز کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ حکومت اپنے وعدوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے اپنے اخراجات میں 30 فیصد کمی کا اعلان کر دیا ہے۔ جس میں وزیر اعظم ہائوس اور تمام وزراء کے اخراجات میں فوری کمی کر دی گئی ہے۔ وزیر اعظم ہائوس سے غیر ضروری اسٹاف کو ہٹا دیا گیا ہے۔ وزرا کے صوابدیدی اور سیکریٹ فنڈز ختم کر دیے گئے ہیں۔ صرف اس ایک اقدام سے کم و بیش 100 ارب روپے بچائے جا سکیں گے۔
ماضی میں حکومت اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 3 ارب روپے کے نوٹ چھپوایا کرتی تھی۔ جس سے اخراجات تو ضرور پورے ہوتے رہے لیکن ساتھ ہی مہنگائی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ اس کو قابو میں لانے کے لیے اب کافی وقت درکار ہو گا۔ اسی طرح گزشتہ دور حکومت میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ملک میں 12600 ارب روپے کی بدترین کرپشن ہوئی جو کہ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کرپشن تھی۔ اس کرپشن نے ملکی معیشت کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ جی ڈی پی میں اضافے کی شرح ترقی پذیر ممالک میں کئی افریقی ممالک سے بھی کم ہو چکی تھی۔ امن و امان اور توانائی بحران سمیت دیگر کئی اسباب کی وجہ سے صنعتی اور زرعی سرگرمیاں بھی تشویشناک حد تک متاثر ہوئیں۔ جس کی وجہ سے ملکی درآمدات اور برآمدات میں موجود عدم توازن مزید بگڑ گیا۔
نئی جمہوری حکومت نے قومی اقتصادی کونسل کے چیئرمین میاں محمد نواز شریف کی سربراہی میں اپنے پہلے اجلاس میں 1155 ارب روپے کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی ہے جس میں سب سے زیادہ توجہ توانائی کے شعبے پر مرکوز کی گئی ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 10 کھرب سے زیادہ رقم ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کی گئی ہے۔ اس کے تحت توانائی کے شعبے کے لیے 107 ارب مختص کیے گئے ہیں۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے، واپڈا اور پیپکو توانائی منصوبے پر 118 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ تربیلا توسیع کے منصوبے کے لیے 14 ارب، کراچی میں ایٹمی توانائی کے حصول کے لیے 10 ارب روپے، نیلم، جہلم پن بجلی منصوبے کے لیے 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ اور کمیونی کیشن کی لیے 105 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
ان اقدامات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نئی جمہوری حکومت کے نزدیک توانائی بحران کا خاتمہ ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے توانائی بحران میں فوری کمی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تا کہ غربت، بیروزگاری اور مہنگائی جیسے سنگین مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ قومی اقتصادی کونسل کی جانب سے مقرر کیے گئے ترقیاتی منصوبوں کے نتیجے میں آیندہ سال ملکی اقتصادی ترقی کی شرح کا ہدف 4.4 اور اسی طرح زرعی شعبے کی ترقی کے لیے ہدف 3.8 مقرر کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق اس وقت فی کس آمدنی 1356 ڈالر ہے اور ایک سال میں فی کس آمدنی میں 100 ڈالر کے اضافے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کا حصول ناممکن ہر گز نہیں ہے کیونکہ حکومت نے اگر اپنی معاشی ترقی کے سفر کا راستہ درست سمت میں رکھا تو اتنا اضافہ ضرور حاصل کیا جا سکے گا۔
حکومت نے جس طرح اپنے اہداف مقرر کر کے معاشی بحالی کے سفر کا آغاز کیا ہے اس کے پس منظر میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت اپنی میعاد کی تکمیل تک اپنے زیادہ تر وعدوں کو پورا کر کے عوام کے سامنے سرخرو ہو سکے گی۔ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے اخراجات میں فوری کمی اور مختصر کابینہ کے ساتھ فوری خدمت کا آغاز کیا گیا ہے۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس ماضی سے کہیں زیادہ مالی وسائل ہوں گے اور صحت و تعلیم سمیت انتہائی اہم شعبے بھی ان کے پاس ہوں گے۔ صوبوں کے برعکس وفاقی حکومت کو گردشی قرضہ، سرکاری اداروں کے نقصانات، قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات پر 20 کھرب سے بھی زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبے زیادہ مالی اور انتظامی وسائل کے ساتھ کتنی بہتر بجٹ سازی کرتے ہیں۔ بجٹ کے حوالے سے اب دبائو وفاق سے زیادہ صوبوں پر منتقل ہو گیا ہے۔