اسد بھوپالی کے امر گیت

اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے کئی گیتوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔


یونس ہمدم October 27, 2018
[email protected]

دنیا کی بے ثباتی اور فانی دنیا کی چند روزہ زندگی پر کئی فلمی گیت ایسے بھی لکھے گئے ہیں جو فلم سے زیادہ ادب کا حصہ نظر آتے ہیں ان میں سے ایک فلم ''موتی محل'' کا یہ گیت جسے گلوکار محمد رفیع اور مدھو بالا جویری نے گایا تھا اور جس کے شاعر تھے اسد بھوپالی اور گیت کے بول تھے:

جائے گا جب یہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہوگا

دو گز کفن کا ٹکڑا تیرا لباس ہو گا

اسی گیت کے شاعر اسد بھوپالی میرے کالم کی شخصیت ہیں، ان کے ایک اورگیت کے بارے میں بتا دوں جس گیت نے رنج و غم کی ایسی تصویرکشی کی ہے ،گیت کے بول تھے:

اے میرے دلِ ِناداں تو غم سے نہ گھبرانا

بنتی ہے تو بن جائے یہ زندگی افسانہ

موسیقی اور شاعری شکستہ دلوں کی آواز بھی تھی اور ان کے لیے ایک سہارا بھی تھی۔

یہ گیت اسد بھوپالی نے فلم ''ٹاور ہاؤس'' کے لیے لکھا تھا اور ان کے فلمی گیتوں نے ادب کے دامن کو منور کر دیا تھا۔ اس گیت کے موسیقار روی تھے اور سروں کی کہکشاں سے اسے لتا منگیشکر نے سجایا تھا۔

یہ 1950ء کی بات ہے ممبئی میں بڑے پیمانے پر ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اسد بھوپالی کو بھی اس مشاعرے میں بلایا گیا تھا۔ اس زمانے میں مشاعروں میں فلمی دنیا کی مشہور شخصیتیں بھی اکثر و بیشتر شرکت کیا کرتی تھیں۔ حسب روایت کئی مشہور فلمی ہستیاں مشاعرے میں موجود تھیں۔ اسد بھوپالی نے اپنا کلام سنایا۔ ایک غزل کے بعد دوسری، تیسری اور پھر تالیوں کی گونج نے محفل کا رنگ ہی بدل دیا تھا۔

اس محفل میں بیٹھے ہوئے مشہور فلمساز و ہدایت کار بی آر چوپڑا کو اسد بھوپالی کی شاعری نے دیوانہ کر دیا تھا اور انھوں نے اسد بھوپالی کو اپنی نئی فلم ''افسانہ'' کے گیت لکھنے کی آفر کر دی۔ پھر اسد بھوپالی بڑی شان کے ساتھ ممبئی کے اسٹوڈیو میں داخل ہوئے ۔، ''افسانہ'' 1951ء کی فلم تھی۔ اسد بھوپالی کے لکھے ہوئے کئی گیتوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ فلم موسیقار جوڑی حسن لال بھگت رام کی تھی جن کی دلکش دھنوں نے اسد بھوپالی کے گیتوں کو چار چاند لگا دیے تھے اور لتا منگیشکر کی آوازکا جادو بھی شامل ہو گیا تھا تو گیتوں کا نشہ دو آتشہ ہوگیا تھا اور ان گیتوں کے مکھڑے تھے:

٭۔ قسمت بگڑی دنیا بدلی پھرکون کسی کا ہوتا ہے۔

٭۔ کہاں ہے تو میرے سپنوں کے راجا جوانی آگئی ہے اب تو آجا۔

٭۔ وہ آئے بہاریں لائے بجی شہنائی

ان گیتوں کی مقبولیت نے اسد بھوپالی کے دن پھیر دیے تھے پھر 1963ء کی ایک ''فلم استادوں کے استاد'' کے گیتوں نے تو سارے ہندوستان میں دھوم مچا دی تھی اس فلم کے موسیقار روی تھے ان گیتوں کے بول تھے۔

٭۔ سو بار جنم لیںگے سو بار جدا ہوںگے۔

٭۔ رات چپ ہے چاندنی مدہوش ہے

٭۔ ملتے ہی نظر تم سے ہم ہوگئے دیوانے

ان گیتوں کو محمد رفیع اور آشا بھوسلے نے گایا تھا۔

فلم ''استادوں کے استاد'' کی شاندار کامیابی کے بعد اسد بھوپالی بھی فلمی دنیا کے استاد شاعروں میں شامل ہو گئے تھے اور کامیابی کا ایک نہ رکنے والا سفر شروع ہوگیا تھا۔ پھر تو موسیقار ہنس راج بیل، موسیقار چندرگپت، موسیقار روی سے لے کر موسیقار لکشمی کانت پیارے لال تک ہر موسیقار کو اسد بھوپالی پر پیار آنے لگا تھا۔ سپر ہٹ گیتوں کی ایک آبشار تھی جو یکے بعد دیگرے فلموںکوکامیابی کی طرف لے جارہی تھی۔ اس دوران اسد بھوپالی کے بے شمار گیت گلی گلی ہزاروں لوگوں کے ہونٹوں پر ہوتے تھے اور ریڈیو سے صبح شام بار بار نشر ہوتے رہتے تھے۔ ان گیتوں میں سے چند گیت مندرجہ ذیل ہیں۔

٭۔ تیری دنیا سے دور چلے ہوکے مجبور فلم (زبک)

٭۔ ہنستا ہوا نورانی چہرہ، کالی زلفیں رنگ سنہرا (فلم پارس منی)

٭۔ وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے (فلم پارس منی)

٭۔ بار بار دیکھو ہزار بار دیکھو۔ ہے دیکھنے کی چیز یہ ہمارا دلربا (فلم چائنا ٹاؤن)

٭۔ میں خوش نصیب ہوں مجھ کوکسی کا پیار ملا (فلم ٹاور ہاؤس)

٭۔ ہم کشمکش غم سے گزرکیوں نہیں جاتے (فلم فری لو)

٭۔ محبت زندہ رہتی ہے محبت مر نہیں سکتی (فلم چنگیز خان)

٭۔ گادیوانے جھوم کے رات کی زلفیں چوم کے (فلم فلیٹ نمبر 9)

موسیقار نوشادعلی کی گڈ بک میں ہمیشہ شکیل بدایونی اور مجروح سلطان پوری جیسے نامی گرامی گیت نگار رہے تھے۔ اسد بھوپالی کی شاعری نے نوشادکی قربت بھی حاصل کر لی تھی یہ وہ زمانہ تھا جب مشہور فلمساز و ہدایت کارکے آصف اپنی شہرۂ آفاق فلم مغل اعظم کی ریلیز اور شاندار کامیابی کے بعد کافی عرصے تک مغل اعظم کی شہرت کے نشے میں چور رہے پھر انھوں نے ایک فلم ''خدا اور محبت'' بنائی، اس فلم میں نوشاد نے کئی شاعروں سے گیت لکھوائے ان میں ایک شاعر اسد بھوپالی بھی تھے۔ اسد بھوپالی کے دوگیتوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ جن میں ایک قوالی تھی جو محمد رفیع اور ساتھیوں نے گائی تھی ۔گیتوں کے بول تھے:

٭۔ عشق کہتے ہیں جسے شعلہ ہے شبنم وہ نہیں

٭۔ رہے گا جہاں میں تیرا نام۔

ہدایت کار کے آصف کی یہ فلم بری طرح فلاپ ہو گئی تھی اور جس کا اثر اسد بھوپالی پر بھی پڑا تھا پھر یہ بیمار ہو گئے تھے اور کچھ عرصہ فلمی دنیا سے دور ہوگئے تھے مگر جب صحتیاب ہوئے تو پھر سے فلمی دنیا کی طرف متوجہ ہوئے اور اس دوران انھیں فلم ''میں نے پیار کیا'' میں گیت لکھنے کا موقع ملا یہ 1997ء کی فلم تھی۔ اس فلم کے موسیقار تھے رام لکشمن تھے اور اسد بھوپالی کے ساتھ پہلی بار ان کی جوڑی بنی تھی اس کے کئی گیت بڑے مقبول ہوئے اور ایک گیت نے تو سارے ہندوستان میں بڑا اودھم مچایا تھا۔ دھن پر لکھا ہوا یہ سیدھا سادا گیت تھا۔ مگر اس گیت کو نوجوان نسل نے بڑا پسند کیاتھا۔ گیت کے بول تھے

کبوتر جا جا جا کبوتر جا جا جا

پہلے پیار کی پہلی چھٹی ساجن کو دے آ

کبوتر جا جا جا

لتا منگیشکر کی رسیلی اور مدھر بھری آواز نے ہزاروں دلوں کو دیوانہ کر دیا تھا اور مذکورہ فلم کا یہی گیت فلم کی ہائی لائٹ تھا جس کی بنا پر فلم کو شاندار کامیابی نصیب ہوئی تھی اور یہ گیت نئی نسل کے ابھرتے ہوئے ہیرو سلمان خان اور ہیروئن بھاگیہ شری پر فلمایا گیا تھا۔ فلم میں نے پیار کیا کے گیت لکھنے کے دوران اسد بھوپالی پھر بیمار ہو گئے تھے اور فلمی دنیا سے کنارہ کش ہو گئے تھے ان کی بیماری طویل ہوتی چلی گئی اور پھر فلم کی ریلیز کے دوران ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا اور یہ اپنے گیت کی بے پناہ مقبولیت کی گونج سننے سے پہلے ہی اپنے خلقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ کاش اسد بھوپالی کی زندگی ان سے کچھ دن اور وفا کرتی تو اور بھی بہت سے دلکش گیت فلموں کی زینت بنتے مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا اور اس طرح ممبئی کی فلم انڈسٹری ایک بہت ہی با صلاحیت گیت نگار سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔