ہندو عورتیں کورٹ کے حکم کے بعد بھی بھگوان کے درشن سے محروم

مندر میں داخلے کی غرض سے آنے والی عورتوں کا زبردستی راستہ روک کر ان پر تشدد کیا جارہا ہے۔


فرحین شیخ October 28, 2018
مندر میں داخلے کی غرض سے آنے والی عورتوں کا زبردستی راستہ روک کر ان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ فوٹو: فائل

1991میں کیرالہ ہائی کورٹ نے پاکیزگی برقرار نہ رکھنے کے جرم کا سزاوار عورتوں کو قرار دیتے ہوئے کیرالہ کے تاریخی سبریمالہ مندر میں ان کے داخلے پر پابند عائد کی تھی جس کا کئی سال بعد بھارتی سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور ایک طویل جدوجہد کے بعد ہندو عورتوں کو بھگوان کے آگے ماتھا ٹیکنے کی اجازت مل گئی۔ لیکن برا ہو ہندوتوا انتہا پسندی کا جس کا زور اتنا شدید ہے کہ ہم مذہب بھی زد میں آئے بنا نہیں رہتے۔

اس انتہاپسند رویے نے پہلے تو کیرالہ میں آنے والے بدترین سیلاب کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھگوان کا عتاب قرار دیا اور اب سبریمالہ مندر کے سامنے بھگوان کو ہندو عورتوں کے ''نحس وجود''سے محفوظ رکھنے کے لیے ہزاروں انتہاپسند ہندو پُرتشدد مظاہرے کر رہے ہیں۔

مندر میں داخلے کی غرض سے آنے والی عورتوں کا زبردستی راستہ روک کر ان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ پہلے سبریمالہ مندر میں ماہواری آنے والی عمر کی خواتین کو مندر میں داخلے کی اجازت نہ تھی لیکن ہندو انتہاپسندوں کا کہنا ہے کہ مسئلہ صرف ماہواری نہیں بلکہ یہاں رکھی ''بھگوان ایاپا'' کی مورتی ہے اور یہ وہ بھگوان ہے جس نے کنوارے رہنے کا عہد باندھا تھا اور ساری زندگی مجرد گزاری۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھگوان اپایا دو مرد دیوتائوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا جنہوں نے اسے شیطانی قوتوں سے مقابلے کی شکتی دی تھی اور وہ شیطان ایک عورت ہی تھی۔

مذہبی تاریخ کوئی بھی داستان سناتی ہو یہ سچ ہے کہ ہندو دھرم میں عورتوں کو پوجا پاٹ سے دور رکھنے کا سلسلہ اب بہت دراز ہو چکا۔ لیکن مقام افسوس تو یہ ہے کہ خود ہندو عورتوں کی ایک بڑی تعداد اس تنازعے میں انتہاپسند رویوں کی کمر ٹھونکنے کو شانہ بہ شانہ کھڑی ہے۔ یہ عورتیں مندر تک جانے والی ہر گاڑی کو روک کر یہ تصدیق کر رہی ہیں کہ اس میں دس سے پچاس سال کی درمیانی عمر کی کوئی عورت تو نہیں۔

سبریمالہ مندر اس وقت بھارت کا ایک بہت بڑا تنازعہ بن چکا ہے۔ یہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے لیکن مشتعل مظاہرین پیچھے پٹنے کو تیار نہیں۔ صدیوں سے چلی آنے والی روایت کو سینے سے لگائے اس بھارت میں کب ایک بڑے فساد کے شعلے بلند ہو جائیں کوئی نہیں جانتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں