تاریخی گھاڑواہ لاڑکانہ کی تباہی

گھاڑ واہ کے کناروں پر اور بھی کئی درخت ہوتے تھے، جن کے سائے میں بیٹھ کر لوگ پکنک مناتے تھے۔


لیاقت راجپر October 26, 2018

میں جب چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا تو اس زمانے میں میرے ساتھ شبیر میرانی کلاس میٹ تھا، جو لاڑکانہ شہر کے نواحی علاقے بہارپور میں رہتا تھا۔ بہارپور محلہ کا نام لاڑکانہ میں کلہوڑہ دور کے سپہ سالار شاہ بہارو کے نام سے آباد ہوا تھا۔ میں اکثر بہار پور جاتے ہوئے راستے میں گھاڑواہ کا منظر دیکھنے کے لیے ضرور چکر لگاتا تھا۔

1963ء کی بات ہے کہ گھاڑ واہ اپنے عروج پر تھا۔ اس میں کئی کشتیاں میں نے خود چلتے دیکھیں۔ واہ کے کنارے دھوبی کپڑے دھوتے تھے اور انھیں گھاڑ کے کنارے بندھی ہوئی رسیوں پر سکھاتے تھے اور شام ہوتے ہی سارے کپڑے سمیٹ کر گدھوں پر رکھ کر دکان یا گھر کی طرف چل پڑتے۔ گھاڑ کے دونوں اطراف میں آم، زیتون، فالسے، جامن، بیر وغیرہ کے گھنے درخت ہوتے تھے، جب کہ ان سے تھوڑا آگے تازہ سبزیوں کے نہ ختم ہونے والے کھیت دور ہی سے ہرے بھرے اور دلکش نظر آتے تھے۔

جب سورج کی کرنیں صبح یا شام کو گھاڑ واہ کے پانی پر پڑتی تو انھیں ستاروں کی طرح چمکادیتی تھیں۔ مجھے بھی فشنگ کا شوق تھا، اس لیے میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر گھاڑ واہ ہر اتوار کو صبح اور باقی دنوں میں شام کو مچھلی کا شکار کرنے جاتا تھا۔

گھاڑ واہ کے کناروں پر اور بھی کئی درخت ہوتے تھے، جن کے سائے میں بیٹھ کر لوگ پکنک مناتے تھے۔ گھاڑ واہ کے پشتے بڑے مضبوط ہوتے تھے اور کناروں پر ہلکی سڑک بنی ہوئی تھی جس سے اکثر گاؤں سے لاڑکانہ شہر کی طرف بیل گاڑیوں اور تانگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ لاڑکانہ شہر کا پانی صاف، شفاف اور ہاضمے والا تھا۔ بارشیں زیادہ پڑتی تھیں اس لیے انڈر گراؤنڈ واٹر بہت تھا اور پھر دریائے سندھ کی وجہ سے شہر سے رائس کینال اور گھاڑواہ گزرتے تھے، جس کی وجہ سے پانی میٹھا ہوتا تھا، گھاڑ واہ پر کئی ٹیوب ویل لگے ہوئے تھے، جس کے پانی سے ہم گرمیوں اور سردیوں کے موسم میں نہاتے تھے۔

گھاڑواہ جس کی موت صرف اس لیے ہوئی ہے کہ ہم لوگوں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، کئی پڑھے لکھے، کام کا جذبہ رکھنے والے، اپنی تاریخ سے محبت کرنے والے لاڑکانہ میں بڑھتے ہوئے کرائم کی صورتحال سے کراچی چلے آئے۔ وہاں پر جو لوگ تھے انھیں نہ تو اپنے شہر سے پیار تھا اور نہ ہی اسے بچانے سے۔

گاؤں سے لوگ شہر کی طرف نقل مکانی تیزی کے ساتھ کرتے رہے، جس کی لپیٹ میں گھاڑواہ بھی آگیا، جس پر لوگوں نے قبضہ کرکے اس پر بغیر پلاننگ کے مکانات بنا ڈالے اور وہاں پر ایک بھی ایسا بندہ نہیں تھا جو اس تباہی کے خلاف آواز اٹھائے، کیونکہ وہاں قبضہ مافیا نے کئی سیاسی پارٹیوں میں شمولیت کرلی اور خاص طور پر کرمنل لوگوں نے اقتدار والی پارٹی میں اپنے پیر جمانے شروع کردیے، جس کی وجہ سے روشن خیال اور پڑھے لکھے افراد نے اپنی عزت بچانے کے لیے خاموشی اختیار کی۔ لاڑکانہ میں اس طرح کی قبضہ گیری دن بہ دن بڑھتی گئی اور کئی تاریخی، تہذیبی اور سماجی حیثیت رکھنے والی انمول چیزیں اپنی شناخت اور ماضی کی کہانی سے دور چلی گئیں۔

گھاڑ واہ کی وجہ سے لاڑکانہ شہر اور ضلع ترقی اور خوشحالی کی طرف بڑھا اور لاڑکانہ ایک چھوٹے گاؤں سے بین الاقوامی شہر بن گیا۔ گھاڑ واہ دراصل دریائے سندھ کی کھاڑی تھی جسے کلہوڑہ دور میں میاں غلام شاہ کلہوڑو نے ایک کینال کی شکل دی، کیونکہ اس سے پہلے اس کے کنارے نہیں تھے، جب اسے ایک کینال کی شکل ملی تو اسے لاڑکانہ شہر سے ہوتے ہوئے قمبر علی خان سے ہوتے ہوئے تعلقہ وارہ تک پہنچایا گیا، جس کی لمبائی تقریباً 60 میل تھی۔ گھاڑواہ کی وجہ سے پورے لاڑکانہ ضلع، جسے پہلے چانڈکا برگنہ کہتے تھے، وہاں پر زرعی انقلاب آگیا، جس کی وجہ سے پورے وہ علاقے جہاں سے گھاڑواہ گزر رہی تھی ہرا اور زرخیز ہوگیا اور وہاں پر لوگ خوشحال بننے لگے۔

اس کے بعد جب انگریز آئے تو انھوں نے بھی آبپاشی نظام کو اور بہتر اور مضبوط بنایا، جس کی وجہ سے ہر طرف لاڑکانہ شہر میں پھلوں کے باغات، اناج کی فراوانی، مویشی ہی مویشی نظر آنے لگے۔لاڑکانہ شہر اور اس کے آس پاس باغات ہی باغات تھے جس کی وجہ سے لاڑکانہ کو ''باغ عدن'' کا خطاب ملا۔

گھاڑ واہ کا پانی بہت گہرا تھا اور اس کے اوپر ہزاروں کی تعداد میں کشتیاں لنگر انداز ہوکر کھڑی ہوتی تھیں۔ گھاڑ واہ کو لال کینال اور کالا کینال بھی کہتے تھے۔ لاڑکانہ شہر میں گھاڑ واہ کے کنارے ایک رانی باغ تھا، جس میں خاص طور پر کھجور اور دوسرے پھلوں کے درخت تھے۔ گھاڑ واہ پر ایک بندرگاہ بھی تھی، جہاں سے پنجاب، پشاور، کوئٹہ، سکھر، ایران سے اشیا امپورٹ اور ایکسپورٹ ہوتی تھیں، جس میں پھل، گھی، مکھن، چاول، کھجور، آم وغیرہ شامل ہیں۔ دریائے سندھ سے کشتیاں لاڑکانہ، قمبر علی خان اور وارہ تک آتی اور جاتی تھیں۔ مال کے بدلے مال لایا اور لے جایا کرتے تھے۔

لاڑکانہ تک سفر کرنے والے دوسرے ملکوں سے آنے والوں نے لکھا ہے کہ لاڑکانہ ایک زرخیز اور خوشحال شہر تھا، جہاں پر 16آنے میں پھاؤڑہ بھر مکھن ملتا تھا، ہر جگہ درخت نظر آتے تھے، بڑے بڑے جنگلات تھے، جس کی وجہ سے ہر اقسام کے پرندے تھے، شہد کی فراوانی تھی، لاڑکانہ کی خوشحالی دیکھ کر دوسرے شہروں سے لوگ آکر آباد ہونے لگے، جہاں بھی نظر پڑتی تھی وہاں پر سر سبز چادر بچھی دکھائی دیتی۔ بندرگاہ اس جگہ تھی، جہاں پر اب بینک اسکوائر ہے، جس کا نام ابھی تک بندر روڈ کہلواتا ہے۔

گھاڑ واہ لاڑکانہ شہر سے موجودہ ڈی سی ہائی اسکول جیلس بازار، گیان باغ، لاڑکانہ اسٹیڈیم سے ہوتے ہوئے موجودہ رائس کینال میں پڑتا تھا، جہاں سے پھر وہ قمبر علی خان اور وارہ تک پہنچتا تھا۔ گیان باغ جس کا نام ابھی باغ ذوالفقار رکھا گیا ہے، وہاں سے گھاڑواہ گزرتا تھا جس کے لیے گیان باغ تک پیدل لوگوں کو پہنچنے کے لیے ایک پل بنا ہوا تھا، جس کا اب کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ اس وقت رائس کینال سے گھاڑ واہ کے نام سے پانی قمبر اور وارہ تک پہنچایا جاتا ہے جو اب پانی رائس کینال کا ہے، گھاڑ واہ کا نہیں۔

جب گھاڑ واہ میں دریائے سندھ سے پانی پہنچتا تھا تو لوگ خوشی کے گیت گاتے تھے اور گھاڑ واہ کے کنارے اکٹھے ہوکر خوشی مناتے تھے۔ انگریزوں کے زمانے میں انگریز افسران اس میں شرکت کرتے تھے۔ گھاڑ واہ میں جب بہت زیادہ پانی آیا تو اس سے ڈرکھ، لنگھ، حمل جھیل وغیرہ نے جنم لیا جس میں مچھلی بڑی تعداد میں بڑھتی رہی اور سائبیریا سے پرندوں نے آنا شروع کیا، جس سے لاڑکانہ ضلع کی خوبصورتی اور خوشحالی میں مزید اضافہ ہوا۔ ہر طرف گھنے جنگل پھیلتے گئے، جس سے لوگوں نے آگ جلانے کی لکڑی بھی حاصل کی اور فرنیچر بھی بنوایا اور باقی لکڑیاں باہر ایکسپورٹ کیںِ۔ ان جنگلات سے ملنے والی لکڑی سے کوئلہ بھی بنایا جاتا تھا، جس کی کوالٹی بہت اچھی تھی۔

تاریخ لکھنے والوں نے بتایا ہے کہ ٹالپر کی حکومت میں 8 لاکھ روپے کا سرکاری ریونیو حاصل ہوتا تھا جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔ رچرڈ برٹین نے 1844ء میں لاڑکانہ کا دورہ کیا جس میں اس نے کئی چیزوں کا ذکر کیا ہے اور خاص طور پر رانی باغ کا جو گھاڑواہ کے کنارے پر تھا اور اسے لیبر پارک کا نام بعد میں دیا گیا۔ اس وقت تقریباً 8 ہزار کشتیاں گھاڑواہ پر چلتی تھیں۔ تجارت کرنے والے کابل اور قندھار سے بھی لاڑکانہ آتے تھے اور لاڑکانہ شہر میں ان کے لیے قافلہ سرا بنا ہوا تھا، آج بھی لاڑکانہ میں اس نام کا محلہ موجود ہے جو گھاڑواہ کے قریب ہے۔

اگر بھٹو صاحب زندہ ہوتے تو گھاڑواہ کبھی بھی ختم نہ ہوتا۔ اگر بلاول بھٹو زرداری چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کا لاڑکانہ سے منسلک رکھیں تو گھاڑواہ کو دوبارہ اپنی موج میں لانے کے لیے اقدامات کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں