باپ کا اچھا بیٹا
بچوں کو اسکول کی کتابوں اورکاپیوں کی دکانیں بہت پسند ہوتی ہیں۔کریانے، میڈیکل اسٹور اور واشنگ کی دکانوں سے انھیں...
بچوں کو اسکول کی کتابوں اورکاپیوں کی دکانیں بہت پسند ہوتی ہیں۔کریانے، میڈیکل اسٹور اور واشنگ کی دکانوں سے انھیں زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ طالب علموںکو وہ مقامات عزیز ہوتے ہیں جہاں پنسلیں، کاپیاں، قلم، جیومیٹری باکس، اسکیل اور ربڑ ملتے ہوں۔ ہمارے بچپن میں محلے میں کئی دکانیں تھیں لیکن ایک دکاندار عجیب تھے۔ ان کے ہاں صرف پنسلیں اور دھاگے ہوا کرتے تھے۔ وہ بزرگوار پنسلیں چھیلتے رہتے اور دھاگے درست کرتے رہتے۔ ظاہر ہے کہ نہ ایسی دکان کی سیل زیادہ ہونی تھی اور نہ اسے بچوں میں مقبولیت اختیار کرنی تھی۔ کچھ دن گزرے تو ان کے بیٹے نے بھی دکان پر بیٹھنا شروع کردیا۔ اس لڑکے نے آہستہ آہستہ بچوں کی پسند کی اسٹیشنری دکان میں رکھ دی۔ گلی کے نکڑ پر ہونے کے سبب اس کی دکان خوب چلنے لگی۔ اب زیادہ آمدنی سے وہ نوجوان پراعتماد ہوگیا تھا۔ وہ دراصل دکان نہیں بلکہ ان کا گھر تھا۔
چونکہ آس پاس دکانیں کھل گئیں تھیں تو بزرگوار نے بھی دکان کھول کر دو چیزیں بھرلیں تھیں۔ لڑکے نے گھر کا ایک کمرہ ختم کرکے ایک اور دکان کھول لی اور اپنے بھائی کو وہاں بٹھادیا۔ آہستہ آہستہ ترقی کرتے گئے۔ اب انھوں نے اپنا گھر اسی بلڈنگ کی پہلی منزل پر لے لیا۔ نیچے مزید چار پانچ دکانیں بناکر کرائے پر دے دیں۔ اب دونوں بھائی ٹوٹی پھوٹی سائیکل سے نئی نویلی اسکوٹروں پر آگئے تھے۔ ایک مرتبہ ذکر نکلا تو اس نے کہا کہ میرے والد صاحب تو صرف پنسلیں اور دھاگے ہی دکان پر رکھتے تھے، نوجوان نے کہا کہ میرے ابو سیدھے سادھے آدمی تھے۔ انھیں کاروبار کی سوجھ بوجھ تو تھی ہی نہیں۔ ہم نے آکر چار پانچ برسوں میں مارکیٹ کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ میری ایک بات نے نوجوان کو چونکا دیا۔ اگر ابا کارنر کا گھر نہ لیتے اور چھوٹے موٹی دکانداری نہ کرتے یا گھر کے آس پاس مارکیٹ نہ بنتی تو؟ نوجوان جھٹکا کھا گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس طرح تو اسے دو ٹکے کی نوکری پر ہی گزارا کرنا پڑتا۔ ''یوم والد'' کے حوالے سے یہ کالم دو سیاستدانوں کے سبب لکھا جارہا ہے۔
خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف، دونوں سیاستدانوں کے بیٹے ہیں۔ ان کے پے درپے دو بیانات نے چونکا کر رکھ دیا ہے۔ ایسے بیانات جو انھوں نے اپنے اپنے والد کے سیاسی فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے دیے ہیں۔ ساٹھ اور ستر کے عشرے کے دو بڑے سیاستدان یعنی خواجہ رفیق اور خواجہ صفدر، جن کے بیٹے آج مسلم لیگ کے بڑے لیڈر بن چکے ہیں۔ پہلے ایک سرمایہ دار بیٹے کی اپنے والد کے حوالے سے گفتگو اور پھر خواجگان کا تذکرہ۔
ایک بڑے صنعت کار ٹی وی پر فخریہ انداز میں کہہ رہے تھے کہ میرے والد کے دور میں ہماری ایکسپورٹ بیس کروڑ روپے کی ہوا کرتی تھی جسے ہم نے بڑھاکر چھ ارب تک پہنچادیا ہے۔ اگر وہ سرمایہ دار اپنی بڑائی بیان کر رہا تھا کہ ہم کتنے بڑے پیمانے پر کاروبار کرتے ہیں تو ایک حد تک گزارا تھا۔ اگر مقصد یہ تھا کہ دس فیصد بھی منافع ہو تو ہم سال کے ساٹھ کروڑ کماتے ہیں۔ اگر یہ بڑ مارنا تھی تب بھی کچھ لوگ برداشت کرجاتے۔ اس بات میں اگر یہ تاثر ہو کہ ہمارے والد نے کوئی خاص کام نہیں کیا اور یہ تو ہم ہیں جو بڑے سمجھدار بزنس مین ہیں۔ اگر تاثر یہ تھا تو بالکل غلط تھا۔ اگر اس صنعت کار کے والد کاروبار کی ابتداء نہ کرتے اور برآمدات کے لیے انھوں نے مارکیٹیں تلاش کرکے اپنی ساکھ اور نام نہ بنایا ہوتا اور ایکسپورٹ بیس کروڑ تک نہ پہنچاتے تو بیٹے اسے چھ بلین تک کیسے پہنچاسکتے تھے؟ ایک چھوٹے دکاندار اور ایک بڑے سرمایہ کار کے بعد ہم دو سیاستدانوں کی جانب آتے ہیں کہ انھوں نے اپنے والد کی سیاسی خامیوں کو کس طرح اجاگر کیا۔ ''فادرز ڈے'' کی مناسبت سے کالم نگار کو اچھا موضوع ہاتھ لگا ہے۔
ایوب خان کے دور کی اسمبلی کے اسپیکر خواجہ صفدر ہوا کرتے تھے۔ پھر وہ جنرل ضیاء کی شوریٰ کے اسپکر رہے اور 85 کے الیکشن کے بعد اسمبلی کے اسی عہدے کا انتخاب فخر امام سے ہار گئے ۔ آج ان کا بیٹا خواجہ آصف اپنے والد کے آمروں کا ساتھ دینے کے اقدامات کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ رہا۔ دونوں باپ بیٹوں نے تقریباً درجن بھر مرتبہ سیالکوٹ کے عوام کی نمایندگی کی ہے۔ اگر خواجہ صفدر دو آمروں کا ساتھ نہ دیتے اور بااصول اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرتے تو ممکن ہے وہ سیاست سے ابتداء ہی میں آؤٹ ہوجاتے۔ خلا کو کوئی اور پر کرلیتا جیسے مظفر گڑھ میں نواب زادہ نصراللہ خان کا خلا کسی اور سیاست دان نے پر کرلیا۔ اسی طرح خواجہ سعد رفیق کے والد ایوب دور کے بڑے مخلص سیاستدان تھے۔ انھیں بھٹو دور میں شہید کردیا گیا۔ پرانے رسالے کھنگالنے کے دوران خواجہ رفیق کی لاہور کی سڑک پر شہادت کی تصویر کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اب اسی خانوادے کے سیاستدان کہتے ہیں کہ ہمارے والد صرف سیاست کرتے تھے۔
خالی خولی سیاست کیسے ہوسکتی ہے۔ ہم نے سیاست کے ساتھ کاروبار پر بھی توجہ دی۔ اب خواجہ سعد رفیق لاہور کے پوش علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ انھیں شکایت ہے کہ ان کے والد کاروباری نہ تھے۔ واقعی سعد رفیق! ساٹھ اور ستر کے سیاستدان کاروباری نہ تھے۔ یہ وہ دور تھا جب گھروں میں نہ ٹی وی ہوتے تھے نہ فریج اور نہ قیمتی الیکٹرانک اشیاء۔ نہ گاڑی کی حاجت نہ بینک بیلنس کی ضرورت۔ سادہ زندگی ہوا کرتی تھی اس دور میں۔ بچے سرکاری اسکولوں میں عمدہ تعلیم پاتے اور حکومتی شفاخانوں میں مناسب علاج ہوجاتا تھا۔ لاہور کے موچی دروازے اور کراچی کے آرام باغ میں پچاس سو روپوں میں جلسہ ہوجاتا تھا۔ صرف چند دریوں اور عام سے لاؤڈ اسپیکر کی ضرورت ہوتی تھی۔ اگر بیٹا اپنے باپ کے پرخلوص و سادہ دور کے فیصلوں کو آج کے بناوٹی اور عیارانہ زمانے سے ناپے گا تو وہ کبھی درست نتیجہ نہیں نکال سکے گا۔ خواجہ سعد رفیق کی پرخلوص قربانی اور حق کے راستے میں شہادت نہ ہوتی تو سعد کی سیاست کے میدان میں کوئی حیثیت نہ ہوتی۔ ان سے کہیں زیادہ باصلاحیت نوجوان بہت وقت لگانے کے باوجود کونسلر بھی نہیں بن سکے۔ یہ سب اس کے لیے اس لیے ہوا کہ ان کے نام سے پہلے خواجہ اور آخر میں رفیق لگا ہوا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو اگر ایوب خان کے وزیر خارجہ نہ ہوتے تو انھیں عوامی مقبولیت کے حصول کا موقع نہ ملتا۔ اقوام متحدہ میں کشمیر پر ان کی تقریر نے اہل پنجاب کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ شریف خاندان کو جنرل ضیاء اتفاق فاؤنڈری واپس نہ کرتے تو کیا ہوتا؟ ان کے ایک نمایندے کو صوبائی وزیر اور پھر وزیر اعلیٰ نہ بناتے تو کوئی کیسے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بننے کی ہیٹ ٹرک کرتا ؟ بھٹو نے ایوب کو ''ڈیڈی'' اور جنرل ضیاء نے اپنی زندگی اپنے ''سیاسی بیٹے'' کے نام کرنے کی دعا نہ کی ہوتی تو آج کوئی بھٹو اور شریف خاندان کو نہ جانتا۔
باپ نسبی ہو یا سیاسی، اگر اس کے نام یا مقام سے بیٹے نے کوئی فائدہ اٹھایا ہے یا سیاسی وراثت حاصل کی ہے تو وقت گزرنے کے بعد صرف خامی بیان کرنا کافی نہیں ہوتا۔ حوصلہ مند بیٹے کو باپ کی بدولت حاصل کی گئی ساری سہولتیں واپس کرکے صفر سے میدان میں آنا چاہیے۔ باپ کے نام و مقام سے فائدہ اٹھانا اور اس پر حاصل کی گئی مراعات کو گھٹا کر یا کم تر کرکے پیش کرنے والے کو نہیں کہا جاسکتا باپ کا اچھا بیٹا۔
نوٹ:-پریس کلب میرپور ساکرو ٹھٹھہ کے جنرل سیکریٹری محمد ملاح ڈھائی سال سے بیمار اور بے روزگار ہیں۔ ان کے بچے فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ ان کی درخواست محکمہ اطلاعات سندھ کے دفتر میں پڑی ہے۔ اہل درد اس نمبر پر معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ 0321-2869012