فراڈیے
فراڈ یا دھوکہ دہی کی تاریخ اتنی پرانی ہے کہ اس کے نقطۂ آغاز کا سراغ لگانا شاید ممکن ہی نہیں۔ تقریباً دس ہزار سال کی۔۔۔
فراڈ یا دھوکہ دہی کی تاریخ اتنی پرانی ہے کہ اس کے نقطۂ آغاز کا سراغ لگانا شاید ممکن ہی نہیں۔ تقریباً دس ہزار سال کی نیم محفوظ اور محفوظ انسانی تاریخ میں پرانے وقتوں سے لے کر اب تک آپ کو ''فراڈیے'' کسی نہ کسی شکل میں موجود نظر آئیں گے۔ البتہ ان کے طریقۂ کار اور ہتھکنڈوں میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ چالاکی اور دھوکہ دہی کی یہ وارداتیں دنیا کی ہر زبان اور اس کے ادب میں بھی مختلف کرداروں اور واقعات کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور اب یہ حال ہے کہ بالا دست تہذیبوں نے اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے دھوکہ دہی کو ذہانت، اسمارٹنس اور ہنر کا درجہ عطا کر دیا ہے۔
یہ ٹھگ، چور، بہروپیے اور نوسر باز ہمارے ادب کی حد تک آپ کو داستان امیر حمزہ سے لے کر نظیر اکبر آبادی کی مشہور نظم ''آدمی نامہ'' تک جگہ جگہ نظر آئیں گے لیکن ان کی جو شکلیں اور روپ گزشتہ ایک صدی میں سامنے آئے ہیں، ان کا ایک اپنا ہی مقام ہے بالخصوص گزشتہ پانچ دہائیاں تو اپنی جگہ پر علیحدہ سے ایک تاریخ کا درجہ رکھتی ہیں۔ اکبر اعظم کے عہد میں راجہ ٹوڈر مل نے زمینوں کی پیمائش اور ملکیت کے تعین کے لیے جن قوانین کو ترتیب دیا تھا اور جس کے اندر سے برٹش راج کے دوران ''پٹواری'' کا عجیب و غریب کردار اُبھر کر سامنے آیا تھا کہ جس کی ایک جنبش قلم سے ہزاروں ایکڑ زمین ادھر سے اُدھر ہو جاتی تھی اور جو اپنی ذاتی ''کارکردگیوں'' کے ساتھ ساتھ برطانوی سامراج کا ایک ایسا گماشتہ اور نمائندہ تھا جس کے طفیل وطن عزیز کو وہ 90% جعلی، وطن فروش اور انسان دشمن جاگیردار طبقہ ورثے میں ملا جس نے آج 65 برس گزرنے کے بعد بھی ہمارے عوام کو آزادی کے ان ثمرات سے محروم کر رکھا ہے جن کے لیے ہمارے بڑوں نے اپنی جانیں دے دی تھیں۔ اب سنا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ پٹواری گرفتہ نظام کمپیوٹر کے ذریعے انصاف اور سچائی کی بازیافت کرے گا اور اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن بات کو آگے بڑھانے سے قبل پٹواری کی استحصالی قوت کا ایک دلچسپ اور مزاحیہ روپ دیکھتے چلیے۔
''گاؤں کے کسی رستے پر ایک کتا پٹواری کے پیچھے لگ گیا۔ اب پٹواری آگے آگے اور کتا پیچھے پیچھے۔ بھاگتے بھاگتے جب پٹواری گرنے کے قریب تھا تو اس کی نظر ایک درخت پر پڑی وہ لشتم پشتم کوشش کر کے اس درخت پر چڑھ گیا جب کہ کتا نیچے کھڑا بھونکتا رہا۔ جب پٹواری کے اوسان قدرے بحال ہوئے تو اس نے کتے کو مخاطب کر کے جو جملہ کہا ذرا اس کے تیور دیکھئے، بولا: ''او بدبخت کتے اگر تیری کہیں دو کنال بھی زمین ہوتی تو پھر میں تجھے بتاتا کہ میں کون ہو!''
ستر کی دہائی میں فنانس کمپنیوں، اسی کی دہائی میں کوآپریٹو اداروں اور اس کے بعد ڈبل شاہ ٹائپ بیشتر ''فراڈ'' کسی نہ کسی طرح زمینوں کے اردر گرد ہی گھومتے ہیں لیکن جوں جوں ہمارا معاشرہ جدید الیکٹرانک ذرائع مواصلات کے دائرے میں داخل ہوتا جا رہا ہے طرح طرح کے نئے فراڈ اور فراڈیے سامنے آ رہے ہیں اور اب یہ وبا پورے ''گلوبل ولیج'' میں پھیلتی جا رہی ہے کہ بہت سے فراڈ کنندگان کے نام اور مقام براعظم یورپ سے رشتہ آرا ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں مجھے (اور بہت سے دیگر احباب کو بھی) وہاں سے کئی اداروں کے E.mail پیغامات ملے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ دس لاکھ منتخب ای میل رابطوں میں سے بذریعہ قرعہ اندازی آپ کے نام کئی لاکھ ڈالر یا پاؤنڈ کا انعام نکلا ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل سوالات نما معلومات مہیا کیجیے تا کہ یہ ''انعام'' آپ تک پہنچایا جا سکے۔ ایک پیغام تو دنیا کی غالباً سب سے پرانی اور بڑی مشروبات ساز کمپنی کی طرف سے تھا، میں نے فوراً ان کے مقامی نمائندوں کو اس گمراہ کن مہم سے آگاہ کیا تو میرا شکریہ ادا کرنے کے بعد بتایا گیا کہ بہت سے لوگ اس فراڈ کا شکار ہو چکے ہیں اور کمپنی تمام ممکنہ قدم اٹھا رہی ہے۔ یہ اس فراڈ کی ترقی یافتہ شکل ہے جس کے ذریعے چند برس پہلے مقامی طور پر (ایک موٹر کار کے انعام کے حوالے سے) بے شمار لوگوں کو لوٹا جا چکا ہے۔
اس طرح کے زیادہ تر فراڈ تعلیم یافتہ اور مڈل کلاس طبقوں کے ساتھ کیے جاتے ہیں جن میں درد دل اور لالچ دونوں شخصیت کی اوپری سطح پر ہوتے ہیں لیکن فراڈیے حضرات ان کے علاوہ بھی دائیں بائیں ہاتھ چلاتے اور قسمت آزماتے رہتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر غریب طبقے کو نشانہ بنانے کی وہ مہم ہے جس میں اب تک سیکڑوں لوگ ایک جعلی امداد حاصل کرنے کی دھن میں غریب سے غریب تر ہو چکے ہیں۔ اس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ SMS پر لوگوں کو یہ پیغام بھیجا جاتا ہے کہ فلاں نمبر کے تحت اس پروگرام کے حوالے سے ان کے لیے پچیس ہزار کی امداد منظور کی گئی ہے وہ اس نمبر پر رابطہ کر کے اس ''غیبی مدد'' کو حاصل کر سکتے ہیں۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری پولیس اور دیگر متعلقہ ادارے اس معاملے کو ہنس کر ٹال دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ایسی باتوں کا نوٹس ہی نہیں لینا چاہیے۔
معاشرے اور حکومتی اداروں، دونوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس طرح کے ''فراڈیوں'' سے نہ صرف لوگوں کو ہوشیار کریں بلکہ ان کا سراغ لگا کر (جو کوئی بہت زیادہ مشکل کام نہیں ہے) ان کو گرفتار کریں اور ان کو میڈیا پر لا کر عوام کو ان کے کرتوتوں اور طریقۂ کار سے آگاہ کریں اور غالب کے اس شعر کو ''شعر'' ہی سمجھیں کہ
نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو