بدرالدین سے جانی واکر تک

فلم کے دیگر گیتوں کے ساتھ یہ گیت بھی عوام کے لیے بڑی دلچسپی کا باعث بنا تھا، جانی واکر جس کا نام بدرالدین تھا۔


یونس ہمدم October 20, 2018
[email protected]

ساحر لدھیانوی میرا آئیڈیل شاعر رہا ہے۔ اس کے فلمی گیتوں کا میں نوعمری سے دیوانہ رہا ہوں۔ ''پیاسا''، ''پھر صبح ہوئی'' اور ''کبھی کبھی'' جیسی بے مثال فلموں کو میں نے کئی کئی بار دیکھا ہے۔

جب میں نے فلم ''پیاسا'' میں ساحر لدھیانوی کا لکھا ہوا ایک مزاحیہ گیت سنا، جو اس کے مزاج سے بالکل الگ تھا مگر اس گیت میں بھی اس نے ایک جادو بھر دیا تھا اور اس جادو میں کچھ حصہ اداکار جانی واکر کی جاندار اداکاری کا بھی تھا۔ موسیقار ایس ڈی برمن نے یہ گیت بڑے ہی الگ انداز سے کمپوز کیا تھا اور جسے محمد رفیع کی آواز نے مزید دلچسپ بنا دیا تھا۔ گیت کے بول تھے۔

سر جو تیرا چکرائے اور دل ڈوبا جائے

آجا پیارے پاس ہمارے کاہے گھبرائے، کاہے گھبرائے

فلم کے دیگر گیتوں کے ساتھ یہ گیت بھی عوام کے لیے بڑی دلچسپی کا باعث بنا تھا، جانی واکر جس کا نام بدرالدین تھا، جانی واکر کس طرح بنا اور یہ نام بدرالدین کو کس نے دیا، یہ بھی ایک بڑی دلچسپ داستان ہے۔ بدرالدین کو بچپن سے فلمیں دیکھنے کا شوق تھا اور یہ شوق اس حد تک بڑھتا گیا کہ اسے بھی فلموں میں کام کرنے کا نشہ ہو گیا تھا۔ یہ شیشے کے سامنے کھڑا ہو کر مختلف فلموں کے ڈائیلاگ بولا کرتا تھا۔ جب اس کا شوق جنون اختیار کر گیا تو یہ بمبئی چلا آیا، بمبئی کی فٹ پاتھوں پر سوتا رہا اور بارہا فاقوں سے بھی گزرتا رہا، مگر یہ کمزور بدن کا شخص اندر سے ایک چٹان کی طرح تھا۔

ایک دوست کے تعاون سے اسے بس کنڈیکٹر کی ملازمت مل گئی۔ بدرالدین اب اپنی زندگی اور حالات سے کچھ مطمئن ہو چلا تھا اور ایک کھولی میں سے رہنے کی جگہ بھی مل گئی تھی، وہ روزانہ رات کو کھلے آسمان تلے کھڑا ہو کر تاروں کی بارات کو دیکھتے ہوئے اپنی قسمت کا ستارا تلاش کیا کرتا تھا۔ بس نمبر 213 میں بدرالدین کو ایک ایسا مسافر کبھی کبھی نظر آتا تھا جو کچھ مختلف سا تھا، اس کا انداز سب سے جدا لگتا تھا، بدرالدین نے اس سے سلام دعا کرنی شروع کر دی۔

وہ مسافر کافی دنوں تک نظر ہی نہیں آیا۔ بدرالدین کی آنکھیں روزانہ اسے اپنی بس میں تلاش کرتی تھیں، پھر ایک دن اچانک وہ نظر آیا تو بدرالدین اس سے لپٹ گیا اور گلوگیر آواز میں کہا میرے دوست کہاں چلے گئے تھے؟ اس مسافر نے بدرالدین کی اتنی چاہت دیکھی تو اس سے بھی نہ رہا گیا اور اس نے بھی اس کو خوب بھینچ کر گلے سے لگایا اور بولا تم نے مجھے اپنا دوست کہا، آج سے تم بھی میرے دوست ہو، آؤ آج ہم ساتھ جوہو کے ساحل پر چاٹ کھائیں گے، چائے پیئیں گے۔

یہاں باتوں ہی باتوں میں بدرالدین نے اپنے دل کی بات کہہ دی کہ وہ بمبئی فلموں میں کام کرنے کے لیے آیا ہے۔ بدرالدین کے اس بس والے دوست کی فلم نگری میں بڑی دعا سلام تھی، ایک دن وہ بدرالدین کے پاس آیا، اس کی ڈیوٹی ختم ہونے والی تھی، بس والے دوست نے کہا چلو میرے ساتھ میں آج تمہیں ایک مشہور فلمساز و ہدایت کار سے ملواؤں گا، آج تم میرے ساتھ فلم اسٹوڈیو چلو گے۔ بس والے دوست نے بدرالدین کو چند ڈائیلاگ بتائے اور یہ بھی بتایا کہ وہ کس طرح پروڈکشن آفس میں ایک شرابی، آوارہ آدمی کے انداز میں داخل ہو گا۔

بدرالدین فلمساز کے آفس کے باہر کھڑا ہو گیا اور پلان کے مطابق دس منٹ کے بعد شرابی کے انداز میں مشہور ہدایت کار ستیش آنند کے کمرے میں داخل ہوا۔ وہاں اس نے اپنے دوست کے سکھائے ہوئے مکالمے شرابی کے انداز میں ادا کیے۔ ستیش آنند نے غصے سے آگ بگولہ ہوکر نوکر کو آواز دی۔ جلدی سے دفتر کا چپراسی بھاگتا ہوا اندر آیا اور بدرالدین کو دبوچ کر دفتر سے باہر لے گیا۔

اس کے ساتھ ہی اداکار بلراج ساہنی کی بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔ ہدایت کار ستیش آنند نے بلراج ساہنی کو بھی غصہ سے دیکھتے ہوئے کہا، ارے تم ہنس رہے ہو اس بدمعاش کے یہاں آنے پر۔ بلراج ساہنی نے ہنستے ہوئے کہا، ستیش جی یہ سارا ڈراما میرا ہی لکھا ہو اتھا، یہ آدمی میرے ہی پلان کے مطابق شرابی کے انداز میں اندر آیا تھا، یہ میرا ایک دوست ہے جو بس کنڈیکٹر ہے، دراصل فلم ''آندھی'' میں ایک شرابی شخص کا چھوٹا سا کردار ہے، وہ میں اس شخص کو دینا چاہتا ہوں، میں معافی چاہتا ہوں، آپ کو اس انداز میں اس کردار سے متعارف کرایا۔

ستیش آنند بولے، یار اس نے تو کمال کر دیا، کیا ڈراما کیا ہے، بلاؤ بلاؤ اسے اندر بلاؤ۔ چپڑاسی پھر بڑی عزت سے بدرالدین کو اندر لاتا ہے اور ستیش آنند اور بلراج ساہنی کی موجودگی میں بدرالدین کو فلم ''آندھی'' میں شرابی کے کردار میں کاسٹ کر لیا جاتا ہے۔ اسی روز بدرالدین کو جانی واکر کا نام دیا جاتا ہے اور پھر جانی واکر فلمی دنیا کا جانا پہچانا اداکار کہلاتا ہے اور شہرت اس کے قدم چومنے لگتی ہے۔

جانی واکر فلمی دنیا کا معروف ترین اداکار بن جاتا ہے۔ اس اداکار کی بے پناہ فنی صلاحیتوں کی وجہ سے ہر فلم میں ہیرو ہی کی طرح پسند کیا جانے لگتا ہے۔ جانی واکر پر ہیروز کے ساتھ بہت سے گانے بھی فلمائے گئے جو مقبولیت کے اعتبار سے کسی بھی سپر اسٹار سے کم نہ تھے۔ جیسے مختلف فلموں کے چند مندرجہ ذیل گیت، جنھیں سارے ہندوستان میں بڑی مقبولیت ملی تھی۔

٭ جانے کہاں میرا جگر گیا جی، ابھی ابھی یہیں تھا کدھر گیا جی (فلم مسٹر اینڈ مسز 55)

٭ اے دل ہے مشکل جینا یہاں، ذرا ہٹ کے، ذرا بچ کے، یہ ہے بمبئی مری جان (فلم سی آئی ڈی)

٭ ہم بھی اگر بچے ہوتے، نام ہمارا ہوتا گبلو ببلو، کھانے کو ملتے لڈو، دنیا کہتی ہیپی برتھ ڈے ٹو یو (فلم: دور کی آواز)

٭ میرا یار بنا ہے دولہا اور پھول کھلے ہیں دل کے، میری بھی شادی ہو جائے، دعا کرو سب مل کے (فلم: چودھویں کا چاند)

اور بہت سی مشہور فلمیں جن میں آر پار، ٹیکسی ڈرائیور، بازی، نیا دور، جیسی سپرہٹ فلموں میں اداکار جانی واکر کے کرداروں نے فلموں میں جان ڈال دی تھی اور فلموں کی ہائی لائٹ بنا رہا۔ جانی واکر نے دلیپ کمار، دیو آنند، گرودت، شمی کپور، راجیش کھنہ، امیتابھ بچن جیسے سپر اسٹارز کے ساتھ لاجواب کام کیا۔ جانی واکر گرودت کو اپنا گرو مانتا تھا، جانی واکر نے بلیک اینڈ وہائٹ فلموں سے کردار نگاری کا آغاز کیا اور پھر رنگین فلموں میں بھی اپنے منفرد انداز کے کرداروں سے قوس قزح کے رنگ بکھیرے۔ جانی واکر نے شرابی کے کامیاب ترین کردار ادا کیے۔

جانی واکر ایک دوست نواز انسان تھا۔ جب یہ اندور میں تھا تو اپنے گھر کا واحد کفیل تھا۔ گھر میں پندرہ افراد تھے اور سب کا اس کے کاندھوں پر بوجھ تھا، مگر پھر قدرت نے اس پر کرم کیا۔ اندور سے بمبئی آیا، اداکار بنا اور فلمی دنیا پر چھاگیا۔ اس نے مشہور اداکارہ شکیلہ کی چھوٹی بہن نور سے شادی کی، کئی فلموں میں بہترین اداکاری پر فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیے، بے شمار لائیو شوز کیے اور خوب دولت بھی کمائی، نام بھی کمایا۔ اس کے مکالمے ادا کرنے کا انداز ایسا تھا جو فلم بینوں کے دلوں میں اتر جاتا تھا اور ہزاروں فلم بین اس کے مکالمے بڑے فخر سے بولا کرتے تھے۔ 11 نومبر 1926ء کو یہ اندور میں پیدا ہوا اور پھر انڈین فلم انڈسٹری کو ایک نیا چلن دے کر 29 جولائی 2003ء میں یہ اس دنیا سے کوچ کر گیا۔ اس کے جانے سے فلمی دنیا ایک نایاب ہیرے سے محروم ہوگئی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔