اسلام میں جھاڑ پھونک کی شرعی حیثیت

شیطان اپنے چیلوں کے ذریعے انسان کو پھنسا سکتا ہے تو رحمن اپنے کلام کے ذریعے چھڑا سکتا ہے۔


[email protected]

PARACHINAR\JALALABAD: وجود کی دو اقسام ہیں ایک ظاہری دوسری باطنی، ایک مرئی دوسرا غیر مرئی، ایک فطری اورطبیعاتی دوسری مافوق الفطری اور مابعد الطبیعاتی۔ دونوں وجود ناقابل تردید حقیقت ہیں۔

انسانی زندگی پر دونوں کے اثرات مرتب ہوتے ہوئے صدیوں سے انسان کے مشاہدے اور تجربے میں آتے رہے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے وجود کو جھٹلانا بذات خود ایک جھوٹ اور تنگ نظر جاہلانہ روش ہے۔

مثال کے طور پر جادو مابعدالطبیعاتی امورکے قبیل سے ہے، مگر حقیقت ہے۔ اس کا اپنا مخصوص شر انگیز اثر ہے۔ اس کے ذریعے دوسرے شخص کو نقصان، ضرر، رنج والم، درد وغم، تکلیف، اذیت پہنچانے کے لیے شیاطین جن و انس یا ارواح خبیثہ کے کلام خبیثہ کے ذریعے مدد مانگی جاتی ہے اور اس کا اثر ہوتے نظر آتا ہے۔ جس کا ثبوت نبی اکرمؐ پر جادو ہونے کا واقعہ ہے جس کے تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔ جس کو مستند اور ثقہ محدثین کرام کی اتنی کثیر تعداد نے بیان کیا ہے کہ شک وشبے کی گنجائش نہیں رہتی اور ماننا پڑتا ہے کہ خیرکی ضد شرکا بھی اپنا ایک مستقل وجود ہے۔

ایک ماہر جادوگر لبید بن اعصم نے آپؐ کے موئے مبارک اورکنگھی کے دندانوں پر جادوکیا اور ایک نرکھجورکے خوشے کے غلاف میں رکھ کر بنی زُرَیق کے کنوئیں ذروان یا ذی اروان کی تہ میں ایک پتھرکے نیچے دبا دیا۔ اس جادوکے اثر سے آپؐ کی صحت گرنے لگی۔ مزاج میں تبدیلی محسوس کرتے۔ مگر یہ تمام اثرات آپ کی ذات تک محدود رہے۔

آپ کی حیثیت نبوت پر ذرہ برابر اثر نہیں پڑا ۔ اللہ تعالیٰ نے خواب میں جادوکی تمام جزئیات اور تفصیلات سے آگاہ کردیا۔آپؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ بنی ذُرَیق کے کنوئیں پر پہنچے۔ پانی نکالا گیا اور وہ غلاف مل گیا ۔ اس میں کنگھی اور بالوں کے ساتھ ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑی ہوئی تھیں اور موم کا ایک پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا آپ معوذ تین پڑھیں۔ آپؐ ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور ایک گرہ کھولتے اور پتلے میں سے ایک سوئی نکالتے۔ جب ساری گرہیں کھل گئیں اور ساری سوئیاں نکل گئیں تو آپ جادوکے حلقہ اثر سے باہر آگئے۔ اگرکلمہ خبیثہ اپنا اثر دکھا سکتا ہے توکلمہ طیبہ اس کے اثرکو بے اثر بھی کرسکتا ہے۔

شیطان اپنے چیلوں کے ذریعے انسان کو پھنسا سکتا ہے تو رحمن اپنے کلام کے ذریعے چھڑا سکتا ہے۔ خالق بہرحال اپنی مخلوق پر غالب ہے۔ جس کے مقابلے کی طاقت کسی مخلوق میں نہیں ہوسکتی۔ اس کی پناہ مانگ کر ہم ہر مخلوق کے ہر شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ہمیں تمام شرور و آفات خطرات سے خدا کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔

شرع میں جھاڑ پھونک منع نہیں ہے، مگر وہ اللہ کی شمع سے فروزاں ہو، شرک سے مبرا ہو۔ اللہ کے پاک ناموں یا اس کے کلام سے جھاڑا جائے۔ رسول اکرمؐ بذات خود ہر رات کو سوتے وقت اور خاص طور پر بیماری کی حالت میں معوذتین یا بعض روایات کے مطابق معوذات تین مرتبہ پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں میں پھونکتے اور سر سے لے کر پاؤں تک پورے جسم پر جہاں تک ممکن ہوسکتا پھیرتے تھے۔

ایک دفعہ آپؐ کو حالت نماز میں بچھو نے کاٹ لیا۔ نماز سے فارغ ہوکر پانی اور نمک منگوایا اور جہاں بچھو نے کاٹا تھا وہاں آپ نمکین پانی ملتے جاتے تھے اور چار قل پڑھتے جاتے تھے۔ نبی اکرمؐ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ پر یہ دعا پڑھتے تھے۔ ترجمہ ''میں تم کو اللہ کے بے عیب کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں۔ ہر شیطان اور موذی سے اور ہر نظر بد سے'' (بخاری، مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ)۔ ایک دفعہ عثمان بن ابی العاص نے آپؐ سے عرض کی کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں مجھے ایک ناقابل برداشت درد ہوتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اپنا سیدھا ہاتھ اس جگہ پر رکھو جہاں درد ہوتا ہے۔

پھر تین مرتبہ بسم اللہ کہو اور سات مرتبہ یہ کہتے ہوئے ہاتھ پھیرو۔ ''ترجمہ ''میں اللہ اور اس کی قدرت کی پناہ مانگتا ہوں اس چیزکے شر سے جس کو میں محسوس کرتا ہوں اور جس میں مبتلا ہونے کا مجھے خوف ہے۔'' (مسلم، موَطّا، طبرانی، حاکم) عثمان بن ابی العاص کا بیان ہے کہ اس کے بعد میرا وہ درد جاتا رہا اور اسی چیزکی تعلیم میں اپنے گھر والوں کو دیتا ہوں۔ ایک مرتبہ رسول اکرمؐ بیمار پڑگئے ۔ جبرئیلؑ نے کہا ترجمہ ''میں اللہ کے نام پر آپؐ کو جھاڑتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو اذیت دے اور ہر نفس اور حاسد کی نظر کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اس کے نام پر آپ کو جھاڑتا ہوں۔'' آپ شام تک صحتیاب ہوگئے۔ (مسلم، مسند احمد)۔ آپؐ نے فرمایا جھاڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں جب تک اس میں شرک کی آمیزش نہ ہو۔

ایک دفعہ عمرو بن حزم کے خاندان کے افراد آپؐ کے پاس تشریف لائے اور کہا ہمارے پاس ایک عمل ہے جس سے ہم بچھو یا سانپ کے کاٹنے کو جھاڑتے ہیں۔ پھر انھوں نے وہ چیز آپ کو سنائی جو وہ پڑھتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ''اس میں کوئی مضائقہ میں نہیں پاتا۔ تم میں سے جو شخص اپنے کسی بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے وہ ضرور پہنچائے۔'' (مسلم، مسند احمد، ابن ماجہ) ''حضورؐ نے زہریلے جانوروں کے کاٹے اور ذُباب کے مرض اور نظر بد جھاڑنے کی اجازت دی۔'' (مسلم، ابن ماجہ) حضرت ابو بکرؓ اپنی صاحبزادی حضرت عائشہؓ سے ملنے گئے تو دیکھا کہ وہ بیمار ہیں اور ایک یہودیہ ان کو جھاڑ رہی ہے۔ اس پر انھوں نے فرمایا کہ کتاب اللہ پڑھ کر جھاڑنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب اگر تورایت یا انجیل کی آیات پڑھ کر جھاڑیں تب بھی یہ جائز ہے۔

آپ نے فرمایا کہ ہر مرض کی دوا اللہ نے پیدا کی ہے اور تم لوگ دوا سے علاج کیا کرو۔ لیکن دوا بھی اللہ ہی کے حکم اور اذن سے نافع ہوتی ہے۔ لیکن اگر دوا کے ساتھ دعا سے اللہ کے کلام اور اس کے اسمائے حسنیٰ سے بھی استفادہ کیا جائے، اللہ کی طرف رجوع کرکے اس کے کلام اور اسما وصفات سے استعانت کی جائے تو یہ کوئی خلاف عقل بات نہیں ہے۔ دوا کو چھوڑ کر صرف جھاڑ پھونک پر تکیہ کرنا صحیح نہیں۔ صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ مادہ پرست ، مذہب کو چھوڑ کر مادیت کی طرف چل دیے تھے۔ لیکن سب کچھ لٹا کر پھر مذہب کی طرف لوٹ رہے ہیں اور برملا اعتراف کر رہے ہیں کہ دوا کی طرح دعا اور رجوع الی اللہ مرض کی شفا میں بہت کارگر چیز، تیر بہدف نسخہ کیمیا ہے۔ یہ اعتراف، روحانیت کی مادیت پر فتح مبین ہے۔

المختصر یہ غیبی صدا ہے کہ دوا کے ساتھ ساتھ دعا بھی موجب شفا ہے اگر اللہ کی رضا اور منشا ہے۔ جھاڑ پھونک میں کوئی مضائقہ نہیں مگر یاد رکھا جائے کہ اذن الٰہی کے بغیر جھاڑ پھونک گھاس پھوس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بھروسہ اللہ پر رکھنا لازمی شرط ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں