ایڈجسٹمنٹ اور ری ایڈجسٹمنٹ

دوزخ میں ایک جگہ بہت ساری خواتین کھیل کود میں مصروف تھیں ۔ کچھ ’’پہل دُوج‘‘ کھیل رہی تھیں، کچھ ’’آنکھ مچولی‘‘ کوئی...


S Nayyer June 11, 2013
[email protected]

دوزخ میں ایک جگہ بہت ساری خواتین کھیل کود میں مصروف تھیں ۔ کچھ ''پہل دُوج'' کھیل رہی تھیں، کچھ ''آنکھ مچولی'' کوئی ''کھوکھو'' اور کچھ ''کوڑا جمال شاہی'' کھیلنے میں مگن تھیں۔ غرض موج مستی کا عالم تھا۔ شیطان اِن عورتوں کو اتنا خوش دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اُس نے ایک فرشتے سے پوچھا ـ ''یہ کون عورتیں ہیں جو دوزخ جیسے انتہائی تکلیف دہ مقام پر بھی اتنی خوش ہیں؟'' فرشتے نے جواب دیا، نیچے زمین پر ایک پاکستان نام کا ملک ہے، یہ عورتیں اُسی ملک کی بہویں ہیں۔ کم بخت ہر جگہ خود کو ''ایڈ جسٹ'' کر لیتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ بالکل سُسرال جیسا ماحول ہے اور یہاں بڑا مزہ آ رہا ہے۔'' ایڈجسٹمنٹ ایک ایسا عمل ہے، جس کو کرنے سے قبل، حالات کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔

اگر کسی دوسرے فریق سے ایڈجسٹمنٹ کا معاملہ ہو تو دونوں فریق اپنے اپنے مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر، کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت یہ ایڈجسٹمنٹ کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے عوام کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں، ہر قسم کی ایڈجسٹمنٹ با آسانی قبول کر لیتے ہیں اور اِس عمل میں ایک منٹ کی بھی دیر نہیں لگا تے۔ بات صرف ایڈجسٹمنٹ تک ہی محدود نہیں ہم ری ایڈجسٹمنٹ کرنے کے بھی بڑے ماہر ہیں۔ ری ایڈجسٹمنٹ سے مُراد ہے کہ پہلے ایک ایڈجسٹمنٹ قبول کر لی جائے، پھر کسی وجہ سے اُس قبول کردہ ایڈجسٹمنٹ کو ختم کرنا پڑ جائے، اور اُس کی جگہ دوسری ایڈجسٹمنٹ کر لی جائے۔

پھر حالات کچھ ایسا رُخ اختیار کر لیں کہ ہم دوسری ایڈجسٹمنٹ بھی ختم کر کے، دوبارہ پھر پہلی ایڈجسٹمنٹ کو قبول کرنے پر مجبور کر دیے جائیں تو ہم بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اِس ''ری ایڈجسٹمنٹ'' کے عمل کو بخوشی قبول کر لیتے ہیں ہماری پینسٹھ سالہ تاریخ اِسی ایڈجسٹمنٹ اور ری ایڈجسٹمنٹ سے بھری پڑی ہے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے، یہ کب تک جاری رہے گا؟ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ہماری سب سے پہلی ایڈجسٹمنٹ جسے تمام ایڈجسٹمنٹس کی ماں کہا جا سکتا ہے۔ اُس وقت ہوئی جب گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی توڑی اور جسٹس مُنیر صاحب نے اسمبلی توڑنے کے اِس عمل کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز اور قانونی قرار دے دیا۔

ہم نے با آسانی یہ ایڈجسٹمنٹ قبول کر کے مستقبل میں ہونے والی دیگر ایڈجسٹمنٹس کے لیے دروازہ کھول دیا۔ اگر پاکستان کی عوام اِس پہلی ایڈجسٹمنٹ کو قبول نہ کرتے اور اُس پر شدید احتجاج کیا جاتا تو آج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ بھارت کی طرح یہاں بھی جمہوریت مُستحکم ہو چکی ہوتی۔ دوسری ایڈجسٹمنٹ جو ہم نے قبول کی وہ یہ تھی کہ حاضر سروس آرمی چیف جنرل ایوب خان کو کابینہ میں شامل کر کے، اُنہیں وزیرِ دفاع کے منصب پر فائز کر دیا گیا۔ ہم خاموش رہے اور معاملہ آگے بڑھ کر 27 اکتوبر 1958 کی ایڈجسٹمنٹ تک پہنچ گیا۔ جنرل ایوب خان نے ہر قسم کا سیاسی عمل معطل کر کے اِس مملکت خداداد میں پہلا مارشل لا نافذ کر دیا اور خود چیف مارشل لا ایڈ منسٹر بن گئے۔ ہم نے تالیاں بجا کر اِس مارشل لا کا خیر مقدم کیا اور دِل و جان سے یہ ایڈجسٹمنٹ قبول کر لی۔

ایوب خان دس برس تک اِس ملک پر مُسلط رہے، اُنہوں نے 62 میں ایک نیا آئین تشکیل دیا جسے بنیادی جمہوریت کا نام دیا گیا۔ اُنہوں نے پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کے حصے بخرے کر کے اُس کے بطن سے کنونشن مسلم لیگ پیدا کی اور مسلم لیگ کے نامی گرامی رہنما جن میں چوہدری خلیق الزمان بھی شامل تھے، اِس کنونشن لیگ کا حصہ بن گئے۔ جنہوں نے انکار کیا وہ ابیڈو کے قانون کے تحت نااہل قرار پائے۔ ذوالفقار علی بھٹّو اِس کنونشن لیگ کے جنرل سیکریٹری بن گئے۔ 62 کے آئین کے خلاف حبیب جالب چیختا رہ گیا کہ ''میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا''۔ لیکن ہم مان گئے۔ جب اِسی آئین کے تحت ہونے والے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو شکست خوردہ اور ایوب خان کو فاتح قرار دیا گیا تو پہلی مرتبہ ہم چیخ اُٹھے۔ معمولی سا احتجاج ہوا، پھر ہم نے اِس ایڈجسٹمنٹ کو بھی قبول کر لیا۔ ایوب خان کے دس سالہ دورِحکومت میں تیز رفتار صنعتی ترقی ہوئی۔

امن و امان مثالی رہا، لیکن سابقہ مشرقی پاکستان کے وسائل مغربی پاکستان کی ترقی پر جھونک دیے گئے۔ بنگالیوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا۔ اکثریت میں ہونے کے باوجود اُن کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ اِس طرح پہلے فوجی آمر نے بنگلہ دیش بننے کی راہ ہموار کر دی۔ پاکستان کو دو لخت کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ ایوب خان کے جانے کے بعد جنرل یحییٰ خان نے سابقہ مشرقی پاکستان میں عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کو بجائے اقتدار منتقل کرنے کے فوجی آپریشن کر کے پاکستان کی تقسیم کا عمل مکمل کر دیا اور بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔ ہم نے یہ ایڈجسٹمنٹ بھی قبول کر لی۔ پھر بھٹو صاحب کا جمہوری دور شروع ہوا یعنی 58میں آمریت کا جو سفر شروع ہوا تھا دسمبر 71میں اِس کا اختتام ہو گیا اور ہم دائرے کا سفر طے کر کے دوبارہ جمہوریت کی طرف لوٹ گئے، ہم نے یہ ری ایڈجسٹمنٹ بھی قبول کر لی۔ 77 کے انتخابات میں اپوزیشن نے دھاندلی کا شور مچایا اور ہم پہلی مرتبہ بھرپور طریقے سے احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آ گئے۔

پھر اِن دیکھے ہاتھوں نے ایسا چمتکار دکھایا کہ دھاندلی کے خلاف چلنے والی اِس تحریک کو نہ جانے کس نے اور کیسے تحریک نظامِ مصطفیٰ کا نام دے کر ایک مذہبی رنگ دے دیا۔ اِس کے نتیجے میں ہم جمہوریت سے محروم ہو کر ایک مرتبہ پھر مارشل لا کے شکنجے میں پھنس گئے اور جنرل ضیاء الحق اسلام کے نام پر 11 برس کے لیے ہم پر پھر مُسلط ہو گئے۔ ہم نے یہ ری ایڈجسٹمنٹ بھی قبول کر لی۔ 85میں آمریت کے زیر انتظام ہونے والے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں جو اسمبلی وجود میں آئی وہ بعد میں مسلم لیگ فنکشنل کی صورت میں جلوہ گر ہوئی۔ محمد خان جو نیجو وزیر اعظم بنا دیے گئے۔ اِس اسمبلی میں ہمارے نمایندوں نے ایک عجیب و غریب اختیار صدرِ مملکت کو طشتری میں رکھ کر پیش کیا۔ اِس آئینی اختیار کا نام 2b 58-تھا۔

اِس اختیار کے تحت ایک شخص کو یہ حق عطا کر دیا گیا کہ، اُس کا ایک ووٹ اِس ملک کے کروڑوں عوام کے ووٹوں سے زیادہ بھاری ہے۔ وہ یہ حق استعمال کر کے جب چاہے کروڑوں عوام کے مینڈٹ کو اپنے پاؤں تلے کچُل سکتا ہے۔ 88 میں پہلی مرتبہ جنرل ضیاء نے یہ ہتھیار استعمال کر کے عوام کی منتخب کردہ اسمبلی اور حکومت کو چلتا کر دیا۔ ہم نے یہ نئی ایڈجسٹمنٹ بھی دِل و جان سے قبول کر لی۔ اِس کے بعد تین مرتبہ اور یہ تماشا لگایا گیا اور کسی جمہوری حکومت کو اُس کی مدّت پوری نہ کرنے دی گئی۔ 88 سے96تک چار مرتبہ یہ کھیل کھیلا گیا۔ ہم نے بڑی دلچسپی سے یہ تماشا دیکھا اور اِس ایڈ جسٹمنٹ کو بھی قبول کر لیا۔ 12 اکتوبر 99 کو ایک مرتبہ پھر پُرانا کھیل نئے انداز سے کھیلا گیا۔ دوتہائی اکثریت والی حکومت پر شب خون مار کر منتخب وزیر اعظم کو ایک سال تک قید تنہائی میں رکھ کر جلاوطن کر دیا گیا۔

پھر 2002 سے 2008 تک ہم نے کنٹرولڈ جمہوریت کا ذائقہ چکھا اِس مرتبہ مسلم لیگ کو ق لیگ کا چولا پہنایا گیا۔ ہم نے یہ ایڈجسٹمنٹ بھی قبول کر لی اور کوئی احتجاج نہیں کیا۔ پھر پہلی مرتبہ پانچ برس تک ہم نے خالص جمہوریت کا تجربہ کیا جو بڑا تلخ ثابت ہوا۔ لیکن یہ پہلی ایڈجسٹمنٹ تھی جس میں ہم نے مثبت انداز فکر کا مظاہرہ کیا اور بُری حکومت کو پانچ برس تک برداشت کر کے جمہوریت کو برقرار رکھا۔ اب دوبارہ میاں صاحب عوام کا مینڈٹ لے کر برسرِ اقتدار آ چکے ہیں۔ اب وہ وزیر اعظم ہیں اور مکافات عمل تو دیکھیے 99 میں اُنہیں معزول کرنے والا اب خود نظر بند ہے۔ ہم نے یہ ری ایڈجسٹمنٹ بھی قبول کر لی ہے۔ دائرے کا یہ سفر ہنوز جاری ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔