رفوگری ملک و قوم کے مفاد میں
بادشاہ سلامت کی دلچسپی اچانک بڑھ گئی اور وہ پرجوش نظر آنے لگے.
بادشاہ سلامت کے بائیں جانب تقریباً درجن بھر ''جھوٹے'' ہاتھ باندھے ادب سے کھڑے تھے۔ یہ تمام جھوٹے اپنا اپنا جھوٹ سناکر فارغ ہوچکے تھے۔ بات دراصل یہ تھی کہ پرانے زمانے کے بادشاہوں کے پاس اگر وہ جنگ نہ لڑ رہے ہوں اور عشق نہ فرما رہے ہوں تو فارغ وقت بہت ہوا کرتا تھا۔ اس فارغ وقت میں بادشاہوں کے مشیر اور درباری مسخرے ان کے لیے تفریح کے نت نئے منصوبے بنا کر رکھتے اور بادشاہ سلامت ان تفریحی پروگراموں سے فارغ اوقات میں لطف اندوز ہو کر اپنا وقت بڑے پرلطف انداز میں ضایع کیا کرتے تھے۔
بادشاہ سلامت بڑے خوشگوار موڈ میں تھے۔ ہر جھوٹ پر ان کی بانچھیں کھل جاتیں جو کافی دیر بعد اپنی جگہ پر واپس آتیں۔ لیکن مشیروں اور وزیروں کی بانچھیں بادشاہ سلامت سے بھی زیادہ کھلی ہوئی تھیں اور ان کی کوشش ہوتی کہ یہ بانچھیں جتنی زیادہ دیر تک کھِلی رہیں اتنا ہی ان کے حق میں سودمند ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہ مشیر و مصاحبین کل بھی ایسے ہی تھے اور آج بھی یہ موجود ہیں۔ یہ بادشاہ سلامت کو خوش دیکھ کر بادشاہ سے بھی زیادہ خوش نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں اور بادشاہ سلامت کی اداسی انھیں بادشاہ سے زیادہ اداس و غمگین کردیتی ہے۔ More loyal than the king والا محاورہ ان ہی کے لیے ایجاد ہوا تھا۔
یہ الگ بات کہ انھی مشیروں کے مشورے اکثر بادشاہوں کے زوال کا سبب بنتے رہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ یقین نہ آئے تو کسی حکمران کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹی وی پر دیکھ لیجیے، لیکن نظر حکمران پر نہیں بلکہ حکمران کے اردگرد کھڑے ان مصاحبین کے چہروں پر رکھیے۔ ان افراد کے چہرے، ان کی آنکھیں اور ان کی بانچھیں آپ کو وہ سب کچھ سمجھا دیں گی جو شاید میں آپ کو صحیح طور پر سمجھا نہیں پارہا ہوں۔ بہرحال بادشاہ سلامت تفریح کے زبردست موڈ میں تھے۔ آخر میں ان کے ایک وزیر نے بیک وقت دو افراد کو ان کے سامنے کھڑا کردیا۔ بادشاہ نے تعجب سے پوچھا کہ ''دو آدمی کیوں؟ کیا یہ دونوں مل کر جھوٹ بولیں گے؟'' بادشاہ سلامت کو بتایا گیا کہ ان میں سے ایک آدمی جھوٹ بولے گا اور دوسرا اس جھوٹ کو دلیل و منطق کے ذریعے سچ ثابت کرے گا۔
یہ دوسرا آدمی خود کو ''رفوگر'' کہتا ہے۔ بادشاہ سلامت کی دلچسپی اچانک بڑھ گئی اور وہ پرجوش نظر آنے لگے، ان سے زیادہ ان کے مشیروں کی آنکھیں چمکنے لگیں اور اس پروگرام کے آرگنائزر کی بانچھیں کانوں تک کھنچ گئیں۔ اس نے جھوٹے کو بادشاہ سلامت کے سامنے کھڑا کرکے اسے جھوٹ بولنے کا اشارہ کیا۔ جھوٹے نے عرض کیا ''شہنشاہ معظم، میں شکار کی غرض سے ایک گھنے جنگل میں کافی دیر سے بھٹک رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک بہت خوبصورت اور صحتمند ہرن نظر آیا۔ میں نے بندوق اٹھائی، شست باندھ کر نشانہ لیا اور فائر کردیا۔ یقین کیجیے گولی جاکر ٹھیک ہرن کی پچھلی ٹانگ پر لگی اور اس کے کان میں گھس کر ، دماغ کو توڑتی ہوئی دوسرے کان سے باہر نکل گئی۔'' بادشاہ سلامت کا منہ حیرت سے کھلا اور بند ہوگیا۔ درباریوں کے کھلے ہی رہے۔ بادشاہ سلامت نے کہا ''ایسا کیسے ممکن ہے کہ گولی ٹانگ میں لگے اور پھر اتنے زاویوں سے گھوم کر کان سے باہر نکل جائے، بندوق کی گولی تو خط مستقیم میں ہی سفر کرتی ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔''
جھوٹا ادب سے جھکا اور اپنے ساتھی کی طرف دیکھ کر بولا ''اب یہاں سے میرے رفوگر کا کام شروع ہوتا ہے۔'' رفوگر آگے بڑھا اور کورنش بجا کر بولا ''بادشاہ سلامت مذکورہ واقعہ بالکل سچ ہے، ہوا دراصل یہ تھا کہ جس وقت میرے ساتھی نے ہرن پر فائر کیا، ہرن اس وقت اپنی پچھلی ٹانگ سے اپنا دائیں کان کھجا رہا تھا۔ گولی پہلے اس کی ٹانگ میں لگی پھر سیدھی دائیں کان میں گھسی اور بائیں کان سے باہر نکل گئی۔''
سیاست بھی دراصل رفوگری کا دوسرا نام ہے۔ یہ ناممکن کو ممکن بنانے کا کھیل ہے۔ بات چیت اور بحث و مباحثہ کے ذریعے سودے بازی اور اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے کچھ چھوڑنے اور کچھ پانے کا نام سیاست ہے۔ سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ کل کے دشمن آج دوست بھی ہوسکتے ہیں اور کل کے دوست آج کے دشمن کا روپ بھی دھار سکتے ہیں۔
2013 کے انتخابات کے نتائج کے بعد جو صورتحال اور سیاسی منظرنامہ اسمبلی میں نظر آیا ہے وہ بڑا دلچسپ ہے۔ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا ممکن ہے اور کیا ناممکن؟ مسلم لیگ ن کو اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل ہے اور وہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی ہے۔ اسے کسی دوسری جماعت کا سہارا درکار نہیں ہے۔ 342 کے ایوان میں اس کے پاس 186 نشستیں موجود ہیں، جب کہ سادہ اکثریت کے لیے 172 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔ مسلم لیگ ن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں تو آچکی ہے، لیکن کیا حکومت چلانے کی پوزیشن میں بھی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپوزیشن بینچوں کی طرف دیکھنا ہوگا۔ اس جانب جو صورتحال ہے وہ اور بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ پی پی پی کے پاس اپوزیشن کی سب سے زیادہ نشستیں ہیں۔
اس کے بعد دوسرے نمبر کی جماعت پی ٹی آئی ہے۔ پی ٹی آئی کو پی پی پی سے لاتعداد گلے شکوے ہیں اور اس سے بھی زیادہ شکایتیں پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم سے ہیں، جو 17 نشستوں کے ساتھ اپوزیشن کی تیسری بڑی جماعت ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان ایم کیو ایم کے قائد پر براہ راست ایک قتل کا الزام بھی لگا چکے ہیں، جس کا ایم کیو ایم کی قیادت نے بہت برا منایا۔ چوتھی جماعت جے یو آئی ہے، جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے تمام جماعتیں اس بنا پر خائف اور خوفزدہ رہتی ہیں کہ مولانا نہ جانے کب کس کے ساتھ مل جائیں اور جس کے ساتھ مولانا مل جائیں وہ اور زیادہ خوفزدہ رہتا ہے کہ نہ جانے کس نازک وقت میں مولانا اس کا ساتھ چھوڑ جائیں۔ مولانا دین و سیاست کو باہم شیر و شکر کرنے کے ماہر ہیں ۔
لیکن اس سے بھی زیادہ مہارت سے مولانا سیاست اور دین کو ایک دوسرے سے جدا کرنے میں بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ اپوزیشن کی دو جماعتیں پی پی پی اور پی ٹی آئی بالترتیب سندھ اور کے پی کے میں اپنی اپنی حکومتیں بناچکی ہیں۔ ایم کیو ایم سندھ میں اور جے یو آئی خیبر پختونخوا میں ان کی اپوزیشن ہیں۔ اس منتشر اپوزیشن کا فائدہ نواز حکومت کو پہنچتا ہوا بظاہر نظر آتا ہے۔ لیکن ایسا ہے نہیں کیونکہ یہ سیاست ہے، ناممکن کو ممکن بنانے کا کھیل، پرانی دشمنیاں بھلا کر نئی دوستیاں پروان چڑھانے کا کھیل۔ اس کھیل میں کون کب کس سے مل جائے؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کون کب عوام کے مسائل کی رفوگری کرنے کے بہانے اپنی رفوگری کرنے پر تل جائے؟ اس کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کیونکہ یہ سب جماعتیں عوام کے ساتھ بڑی مخلص ہیں۔ اور یہ جب اور جس سے بھی ملیں گی اپنے لیے نہیں بلکہ ''عوام کے مفاد'' کی خاطر اور ''ملک و قوم کے وسیع تر مفاد'' میں ہی ایک دوسرے کا سہارا بنیں گی۔ یقین نہ آئے تو کچھ عرصے کے بعد عوام خود دیکھ لیں گے کہ وہ جماعتیں جو ایک دوسرے کا اس سے قبل نام سننے کی بھی روادار نہ تھیں، ان کے دل میں اچانک ملک و قوم کا درد اٹھا اور وہ ملک و قوم کے ''وسیع تر مفاد'' یا ''عظیم تر مفاد'' میں (خدانخواستہ اپنے ذاتی مفاد میں نہیں) ایک دوسرے کی اتحادی بن گئی ہیں، کیونکہ ''ملک و قوم کے مفاد'' والی رفوگری ہر دور میں کامیاب رہی ہے۔