وزیر اعظم کی سندھ یاترا

سندھ کا سیاسی ضمیر مزاحمت کے خمیر سے بنا ہوا ہے جب کہ وسائل اور حقوق کا تحفظ تو ان کا ازلی حق ہے۔



16ستمبر کو ملک کے نئے وزیر اعظم کی حیثیت سے سندھ کی پہلی یاترا کرنے والے عمران خان نے ملکی سیاست بالخصوص سندھ کے سیاسی ماحول میں بھونچال پیدا کردیا ہے۔

انتخابات سے قبل دادو ، نوشہرو فیروز اور سکھر و کراچی میں کئی مقامات پر منعقد ہونیوالے انتخابی جلسوں میں تبدیلی کے بڑے بڑے وعدے کرنیوالے عمران خان وزارت ِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد جب سندھ تشریف لائے تو انھیں شاید اپنی وہ تقاریر یاد نہیں رہیں ، دو عشروں سے ایم کیو ایم کے خلاف تحریک چلانے کے باوجود انتخابات کے ایک ہی ہفتے میں ایم کیو ایم سے پینگیں بڑھانے کے لیے بے چین نظر آئے اور بالآخر انھیں اپنی حکومت میں بڑے منصبوں پر مقرر کرکے دم لیا ۔ جب کہ انتہائی حساس معاملات میں سندھ کے خدشات اور تحفظات کو سنے اور جانچے بغیر ڈیمز بنانے اور غیر ملکی پناہ گیروں کو یہاں کی شہریت دینے سمیت دیگر اعلانات کیے ۔

سندھ جو ویسے توملکی قیام سے ہی مسائل کے جال میں الجھتا چلا گیا ۔ جنرل ایوب ، جنرل یحیٰ اورپھر ضیاء کی آمریت میں تو سندھ کا نوجوان حالت ِ جنگ میں رہا۔ ایسے میں 1988میں محدود جمہوریت کی بحالی نے سندھ کی اس بلند شعلہ آگ کو بجھانے کی کوشش کی لیکن یکے بعد دیگر تحلیل ہوتی جمہوری حکومتوں سے جلد ہی انھیں یہ احساس دلایا گیاکہ اس ملک کے سائباں کی ٹھنڈک ان کے لیے نہیں ہے۔

پھر مشرف کی آمریت میں تو یہاں کی دونوں مستقل آبادیوں میں سرکاری سرپرستی میں دوریاں بڑھائی گئیں۔پھر گذشتہ 10برس سے پی پی پی- ایم کیو ایم گٹھ جوڑ کی روایتی خراب طرز ِ حکمرانی کے باعث سندھ مسائل کی ایسی دلدل بن چکا ہے جہاں نہ لوگوں کو صاف و شفاف پانی ، غذا اور ہوا میسر ہے نہ ہی صحت مند ماحول و صحت کی سہولیات ۔ صوبہ کے لوگ اب دیہات و چھوٹے شہر تو رہے ایک طرف پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی کولر اور ڈرم لیے لیے پانی کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں جب کہ صاحب ِ حیثیت لوگ بھی ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر ہیں ۔

زرعی زمین پر پانی کے منتظر کاشت کاروں کی بے بسی ، تھر میں غذائی قلت اور مضر ِ صحت زیر زمین پانی کے استعمال کے باعث آئے دن معصوم بچوں کی ہلاکتیں ،تعلیمی اداروں پر مسلط فورسز ،شفاف مردم شماری نہ ہونا ، پانی و مالیات میںوفاق سے مناسب حصہ نہ ملنا ، وفاقی ملازمتوں میں سندھ کے کوٹہ پر عمل نہ ہونا، دیگر صوبوں سے وابستہ لوگوں کو یہاں کے ڈومیسائل کا اجراء اور ملازمتیں دینا، اورصوبہ کے دارالحکومت کراچی کے تعلیمی اداروں میں صوبہ کے دیگر اضلاع کے طلباء کوداخلہ میں نظر انداز کرنا ، سالانہ 1400ایم اے ایف گیس دینے کے باوجود سندھ کو سی این جی کی مد میں صرف 70ایم اے ایف گیس بھی نہ دینا، ملکی ضروریات کا 60فیصد تیل کی پیداوار دینے کے باوجود صوبہ کے تیل پیدا کرنے والے اضلاع میں ریفائنری اور دیگر سماجی سہولیات کی عدم موجودگی، جھمپیر ونڈ کو 20سال سے زیادہ عرصہ گذرجانے کے بعد بھی غیر فعال رکھنا، سندھ کی قدرتی ڈیم سائٹ منچھر جھیل کوملک بھر کے نکاسی آب سے تباہ کرنا ، نیا این ایف سی ایوارڈ نہ دینا اور پرانے این ایف سی ایوارڈ کے تحت بھی ہر سال کی طرح اس سال بھی 19ارب روپے کم دینا، 1990سے کراچی میں سیکیورٹی کے اخراجات کا بوجھ سندھ پر ڈالنا اور اس کی مد میں 50%وفاقی حصہ سندھ حکومت کو جاری نہ کرنا وغیرہ کے ساتھ ساتھ سندھی زبان کی سرکاری حیثیت کی بحالی اور صوبہ کی ڈیمو گرافی و جغرافیائی سرحدوں کو بحال رکھنے اور یہاں کی دو مستقل آبادیوں (اردو اور سندھی بولنے والی آبادی) کے درمیان مساواتی توازن اور ہم آہنگی کو برقرار نہ رکھنے جیسے اُمور درپیش ہیں۔

ان مسائل پر یہاں کے باشندے مسلسل جدوجہد میں رہے ہیں لیکن ریاست و حکمرانوں نے ان کی آواز پر کبھی کان نہیں دھرے، جس کی وجہ سے یہاں کا نوجوان پریشان ہے ۔ ایسی صورتحال کے پیش نظر صوبہ کے عوام وفاقی طرز کی تمام جماعتوں خصوصاًان دونوں جماعتوں(پی پی پی -ایم کیو ایم) کے روایتی گٹھ جوڑ سے تنگ تھے اور کسی تبدیلی کے منتظر تھے ۔

یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کے نعرے کی بدولت انتخابات سے قبل صوبہ بھر میں جہاں جہاں عمران خان کے جلسے ہوئے وہاں سندھ کے لوگوں نے اس قدر شرکت کی کہ اس سے قبل کسی تیسری جماعت کو ایسی حمایت نہ ملی تھی ۔ انتخابات کی شفافیت و قانونی حیثیت کو بالائے طاق رکھ کر نتائج پر نظر ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ وفاق ، پنجاب اور کے پی کے میں براہ راست حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں اتحادی حکومت اورسندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی حزب اختلاف کی سب سے اہم حیثیت کی حامل جماعت بن چکی ہے ۔ اس کے مجموعی ووٹ کی تعداد بھی بڑی متاثر کن رہی ۔

اس نئے سیٹ اپ میں سندھ کے عوام کو اُمید ہوچلی تھی کہ صوبہ کی اس حالت ِ زار کو بدلنے کی جس تبدیلی کی عمران خان بات کرتے تھے ، اب وہ تبدیلی عملی طور پر نظر آئے گی ۔ایسے میں عمران خان کو سندھ بھر کو تسلی دینی چاہیے تھی اور دونوں مستقل آبادیوں کے درمیان ہم آہنگی کی فضا کو بحال کرنے کے اقدامات کرتے یا پھر کم از کم اعلانات ہی کردیتے ۔ لیکن عمران خان کی بطور وزیر اعظم کراچی یاترا نے سندھ کے سیاسی ماحول پرمثبت اثرات کم مرتب کیے بلکہ منفی ماحول کو زیادہ ہوا دی ہے۔

انھیں ملک بھر کے وزیر اعظم کی حیثیت سے مساوی طرز عمل و گفتار اختیار کرنی چاہیے تھی لیکن انھوں نے ایک مرتبہ پھر صوبہ میں عوام کے بیچ خلش بڑھانے کا ماحول برپا کردیا ہے ۔ درج بالا مسائل کو حل کرنے کے اعلان کے بجائے ڈیمز بنانے اورغیر قانونی امیگرینٹس کو دستاویزات کی فراہمی کے اعلانات نے سندھ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے ۔

جب کہ کراچی کو صاف ستھرا بنانے کے لیے حکومت ِ سندھ کو 2ماہ کی مہلت کی باتیں ، گرین کراچی پروگرام کے آغاز ، کورنگی ری سائیکلنگ پلانٹ اور کراچی سرکلر ریلوے شروع کرنے جیسے مثبت اعلانات بھی کیے گئے جو کہ خوش آئند بات ہے لیکن ان دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کوئی عملی قدم یا لائحہ عمل بھی بتایا جاتا تو اور اچھا ہوتا ، کچھ اور نہیں توکے الیکٹرک اور گیس کمپنیوں کے مابین معاملات ہی سلجھادیتے جس کی وجہ سے کراچی والوں کوہر سہ ماہی کے بعد لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگتنا پڑتا ہے،یا پھر کراچی سرکلر ریلوے اور پانی کے کے فور پروجیکٹ جن کا ماضی میں سروے بھی مکمل ہوچکا ہے، کم از کم اس کے فریم ورک یا آغاز کے شیڈول کا ہی اعلان کردیتے کیونکہ ان کا ذکر سن سن کر اہلیان ِ کراچی کے کان پک گئے ہیں لیکن یہ اسکیمیں شروع ہی نہیں ہوتیں، ہر نئی آنیوالی حکومت اس کا اعلان کرتی ہے لیکن پھر اپنی مدت پوری کرنے تک اس اسکیم کی فائل کو ہاتھ تک نہیں لگاتی۔

ویسے بھی کراچی کے پانی کا مسئلہ وفاق کو ہی اسلام آباد کی طرز پر حل کرنا ہے کیونکہ جس طرح اسلام آباد میں چاروں صوبوں کے لوگوں کے آباد ہونے کی وجہ سے اس کے لیے پانی کا الگ حصہ مقرر کر کے دیا گیا ہے ، بالکل اسی طرح کراچی میں بھی ملک کے تمام حصوںکے ساتھ ساتھ غیرقانونی امیگرینٹس کی بھی بڑی تعداد موجود ہے اس بنیاد پر کراچی کو بھی پانی کا الگ حصہ دینا چاہیے ، جس پر سندھ کئی سالوں سے آواز اٹھا رہا ہے لیکن اعتراض کی وجہ سے یہ کام ملتوی ہوتا رہتا ہے ۔

وزیر اعظم کی تمام باتوں کا محور سندھ بھر کے مسائل کا حل نہیں بلکہ یا توصرف کراچی کے جزوی مسائل کے لیے لفظی دلجوئی تھا یا پھرسندھ کے ازلی موقف کے خلاف کسی بھی حال میں ڈیمز بنانے اور غیر قانونی امیگرینٹس کو یہاں کی شناخت دینے سے متعلق تھا ۔ جوکہ سندھ کے مجموعی مفاد میں نہیں ہیں۔

جہاں تک بات ہے افغان پناہ گزینوں کی تو 1980کے عشرے میں افغان -روس جنگ کے دوران اقوام متحدہ کی اپیل پر افغانیوں کو پاکستان میںوقتی طور پر پناہ دی گئی ، جن کے لیے کیمپ بنے اور اُن کے اخراجات بھی اقوام ِ متحدہ کی جانب سے ادا ہوتے رہے ۔ تو پھر کس کی اجازت اور شہ پر یہ پناہ گیر شہروں میں پھیل گئے ۔ اس وقت بھی جب پاکستان بھر سے افغان پناہ گیروں کی واپسی کے لیے افغانستان حکومت سے مراحل طے کیے جارہے ہیں تو ایسے میں سندھ میں موجود افغان پناہ گیروں کو کیوں زبردستی یہاں ہمیشہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

جہاں تک بات ہے بنگالیوں کی تو جب بنگلہ دیش تحریک کے دوران انھیں چن چن کر مارا جارہا تھا اور ان کی آواز کی طرف دھیان دیناریاست نے ملک سے غداری قرار دیا تو آج کیوں ان کو ڈی پورٹ کرنے کے بجائے ان کے لیے ہمدردی جاگ اٹھی ہے۔ حالانکہ کراچی کے امن کے قیام سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ بھی ان غیر قانونی امیگرینٹس کو کراچی کے امن کو سبوتاژ کرنے کا ذمے دار قرار دے چکی ہے ۔

کیا یہ صرف اس لیے کیا جارہا ہے کہ یہ سب سندھ کی ڈیمو گرافی کو تباہ کرنے میں کردار ادا کرکے سندھ کی جغرافیائی حدود کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے میں معاون ہوں گے ؟ ۔ جس کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ شہریت کے اس اعلان پر ملک کے دیگر صوبوں نے سخت رد عمل کااظہار کیا بالخصوص بلوچستان کی جانب سے اختر مینگل اور ان کے ساتھیوں نے تو اس اعلان کے دوسرے ہی روز قومی اسمبلی سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا تو وزیر اعظم نے وضاحتی بیان جاری کیا کہ غیر قانونی امیگرینٹس کو پورے ملک میں نہیں صرف کراچی میں قانونی کرنے کے لیے کام کیا جائے گا۔

ان کے اس متعصب وضاحتی بیان نے سندھ کے ساتھ 70سال سے جاری روئیے کے پول کھول دیے ہیںجس پر سندھ میں پریشانی کی لہر پھیل گئی ہے ۔ سندھ کے اہل دانش حضرات اس کھیل کو 1947میں کھیلی گئی خون کی ہولی کے تناظر میں دیکھتے ہوئے انتہائی تشویش کا اظہار کررہے ہیں جب کہ سندھ کی قوم پرست تنظیموں کی جانب سے ڈیمز کی جبراًتعمیر ، غیر قانونی امیگرینٹس کو سندھ پر زبردستی مسلط کرنے اور سندھ کو کالونی کی طرح dealکرنے پر احتجاجی تحریک کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ جس میں بھوک ہڑتال ، ضلعی ہیڈکوارٹرز میں دھرنوں کے علاوہ سندھ پنجاب بارڈر کے قریب قومی شاہراہ کو بلاک کرنے کے لیے دھرنے کی بھی باتیں ہورہی ہیں ۔یوں وزیر اعظم نے سندھ کے کئی برس سے پرامن سیاسی ماحول کو ایک مرتبہ پھر تضادات اور اندرونی چپقلشوں کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے ۔

سندھ اس وقت70اور 80کی دہائیوں کی طرح پھر سے جوالا مکھی کی مانند بھڑک اٹھا ہے جس کی جھلک سوشل میڈیا پر دیکھی جاسکتی ہے ۔اس لیے ہوش کے ناخن لیتے ہوئے غداری کے سرٹیفکٹ جاری کرنے کی یہ روش ختم ہونی چاہیے ایسا نہ ہو کہ یہ روش کہیں عوام کو حقیقتاً نہ باغی بنادے، تب ملک کے حالات کیا ہوں گے ، کسی کو اس کا ادراک ہے؟

کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ سندھ کی عوامی و جمہوری تحریکوں کا مقابلہ نہ کوئی کرپایا ہے اور نہ اب کرپائے گا ۔ تو ٹکراؤ کے بجائے سندھ کی دانش سے بات چیت کا طریقہ اپنانا ہی وفاق کو مضبوط کرسکتا ہے ورنہ تو ملک یونہی نفرتوں کے بھنور میں ہچکولے کھاتا رہے گا۔ ملک کی مقتدر قوتوں اور حکمرانوں کو طاقت کے نشے میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسے ہی فیصلوں کے نتائج خطرناک ہوتے ہیں ۔ یہ کونسی قوتیں ہیں جوملک میں یہ کھیل ایک مرتبہ پھر کھیلنے کی کوشش کررہی ہیں۔

سندھ کے لوگ حیرانی و پریشانی کے عالم میں یہ سوالات اٹھارہے ہیں کہ کیا نیا پاکستان چندہ مہم ، ڈیم بنانے اور پناہ گیروں کوشہریت دینے جیسے کاموں سے بنے گا؟ جب کہ کچھ حلقوں کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ یہ ڈیمز اور شہریت کا ڈرامہ دراصل 18ویں ترمیم کے خاتمے کے لیے رچایا جارہا ہے تاکہ صوبوں کو برائے نام حاصل پاورز بھی وفاق واپس چھین لے اور وفاق براہ راست صوبوں میں مداخلت کرسکے بالخصوص کراچی کو وفاقی کنٹرول میں رکھ سکے۔

اس سارے معاملے کا ایک بھونڈا اور بھیانک پہلو یہ بھی ہے کہ جب سندھ ڈیموں کی تعمیر پر راضی ہی نہیں تو پھر ریاستی پالیسیوں کے تحت سندھ کے عوام سے بینک اکاؤنٹس کے ذریعے کٹوتی اور ریلوے کرایوں کے ساتھ اضافی ڈیم ٹیکس کے نام پر جبراً چندہ کیوں وصول کیا جارہا ہے ۔ یہ چندہ ہے یا سرکاری بھتہ ؟

سندھ کا موقف یہ بھی ہے کہ ڈیمز کے معاملات پر قانونی فورم سی سی آئی موجود ہے ،انھیں صرف اس فورم کے تحت نمٹایا جائے ۔ورنہ اگر ملک کے وزیر اعظم اور دیگر افراد ہی فریق بن جائیں تو پھر انصاف و عدل کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے ؟سندھ کے لوگوں کا موقف یہ بھی ہے کہ اگر پناہ گیروں کو شہریت دینا ہے توپھر پورے پاکستان میں یکساں طور پر یہ کام کیا جائے لیکن ان کے ووٹ دینے ،جائیداد خریدنے اور ان کے مستقل رہنے پر پابندی ہونی چاہیے۔

بالکل اسی طرح جس طرح سعودی عرب اور دبئی سمیت تمام خلیجی ممالک میں ہوتا ہے جب کہ بھارت میں صوبہ آسام کی تو ایسی مثال ہے کہ آسام میں غیر قانونی امیگرینٹس تو چھوڑیں دیگر صوبوں کے لوگوں کو بھی وہاں مستقل رہنے ، جائیداد خریدنے اور ووٹ دینے کی اجازت نہیں ہے ۔

سندھ کا سیاسی ضمیر مزاحمت کے خمیر سے بنا ہوا ہے جب کہ وسائل اور حقوق کا تحفظ تو ان کا ازلی حق ہے۔ تو سندھ کے اس عوامی جمہوری روح کے ساتھ کھیلنے جیسی غیر سنجیدہ روش کو روکنا ہوگا ورنہ وفاقی غیر سنجیدگی ملک میں نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی استحکام کو بھی سبوتاژ کرنے کا باعث بنے گی، جس کے اثرات انتہائی منفی ثابت ہوں گے اور وہ صرف کسی ایک فریق کو نہیں بلکہ ملک بھر کے تمام تر عوام کو بھگتنے پڑیں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں