میں تو مایوس نہیں اہل وطن سے یارو
پھول دامن پہ سجائے ہوئے پھرتے ہیں وہ لوگ, جن کو نسبت ہی نہ تھی ، کوئی چمن سے یارو
سلام ہو ان پر جو دوسرے ملکوں سے ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے وطن آئے وطن نے پکارا اور وہ لبیک لبیک کہتے ہوئے چلے آئے۔ میرا سلام پہنچے ان لوگوں کو جو الیکشن والے دن اور سارے کام کرتے تھے سوائے ووٹ ڈالنے کے۔ مگر اس بار الیکشن 2013میں وہ لوگ بھی نکلے، انھوں نے اور سارے کام چھوڑدیے، پہلے ووٹ ڈالا، میرے وہ نوجوان سلامت رہیں، خدا انھیں مستحکم پاکستان اور سنہرے مستقبل سے ہمکنارکرے کہ جنھوںنے پہلی بار ووٹ کا حق استعمال کیا اور سو فیصد نوجوانوں نے ووٹ ڈالے۔
الیکشن2013 جن حالات میں ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں۔ وطن کے دشمنوں نے انتہا کردی، حتیٰ کہ الیکشن کے لیے امیدواروں کو بھی ٹارگٹ کیا اور ماردیا، دشمنوں نے خوف وہراس، بربریت کی وہ فضا قائم کردی تھی کہ جسے دیکھتے ہوئے یا تو حکومت الیکشن ملتوی کردیتی یا پھرخوف کے مارے لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نہ نکلتے! مگر عوام نے دشمنوں کے سارے منصوبے ملیامیٹ کردیے اور خوف وہراس کی پرواہ کیے بغیر گھروں سے یوں نکلے کہ کیا شہر،کیا گائوں دیہات، سب جگہ عید کا سماں بنادیا، رستے، گلیاں لوگوں سے بھرے ہوئے تھے، لگتاتھا جیسے لوگ صبح صبح عید کی نماز پڑھنے عیدگاہ جارہے ہوں۔
الیکشن ہوئے اور خوب ہوئے، میں اپنے وطن کے نازک حالات کے تناظر میں الیکشن2013کو بہت کامیاب اور شاندار الیکشن کہوںگا، باقی جو دھاندلی، ٹھپے اور بد انتظامی کے واقعات ہوئے ان سب کے باوجود یہ الیکشن بہت کامیاب ہوئے اور پاکستان کے عوام نے یہ ثابت کردیا کہ وہ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود ہمت نہیں ہارے اور وہ اپنے وطن کو آگے بہت آگے لے کر جائینگے، ان الیکشن میں جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ بہت معنی خیز اور حوصلہ افزا ہیں۔ الیکشن کے نتائج ہمارے مستقبل کی راہیں متعین کررہے ہیں۔
اس الیکشن نے صف اول کی سیاسی جماعتوں کو بھی ہلاکر رکھ دیا ہے اور وہ جماعتیں بھی اپنا کڑامحاسبہ کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ اس بار الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف نے جو تاریخی کامیابی حاصل کی ہے اس نے بڑی سیاسی جماعتوں کو خواب غفلت سے جھنجھوڑ کر جگادیا ہے، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف نے تمام سیاسی جماعتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے خصوصاً شہر کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کو پاکستان تحریک انصاف نے بہت ٹف ٹائم دیا اور کراچی کے قومی اور صوبائی حلقوں میں ہزاروں کی تعداد میں ووٹ حاصل کیے۔ چند حلقوں کی صورتحال دیکھیں۔
نارتھ ناظم آباد سے پاکستان تحریک انصاف نے55ہزار ووٹ حاصل کیے، عزیز آباد سے (جہاں متحدہ کا مرکز90بھی ہے) 32ہزار ووٹ لیے، نئی کراچی، اورنگی ٹائون اور منگھوپیر کے حلقے 243 سے 30ہزار ووٹ لیے، لیاقت آباد، گلبہار اور ناظم آباد کے حلقہ247سے تحریک انصاف نے 35ہزار ووٹ لیے، حلقہ 251 سے تحریک انصاف کو 44ہزار ووٹ ملے جب کہ حلقہ 250 سے تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی نے 77 ہزار ووٹ لیے اور متحدہ کی امیدوار خوش بخت شجاعت کو 30 ہزار ووٹ ملے۔ (اس حلقے میں کل181پولنگ اسٹیشنوں میں سے 137پر پولنگ ہوچکی تھی،
جس کے مطابق تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی60ہزار ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر تھے اور متحدہ کی خوش بخت شجاعت نے 30ہزار ووٹ حاصل کیے تھے، باقی جہاں پولنگ نہیں ہوسکی تھی ان پولنگ اسٹیشنوں سے بھی تحریک انصاف کے عارف علوی کو مزید 77ہزار ووٹ ملے۔ جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بائیکاٹ کی وجہ سے ان کا نتیجہ وہی رہا، تحریک انصاف نے لیاری سے بھی26ہزار ووٹ حاصل کیے۔
کراچی میں الیکشن کے موجودہ نتائج کی گونج لندن تک سنائی دی اور شہر کے سیاسی مزاج کی تبدیلی کو سنجیدگی سے لیاگیا، متحدہ کی لندن اور کراچی کی مرکزی تنظیم کو تحلیل کردیاگیا اور اب نئی تنظیم کا اعلان ہوچکا ہے۔
شہر کراچی اور اس کے رہنے والے بڑے بہادر ور تدبر والے لوگ ہیں۔ یہ شہر فاتح فیلڈ مارشل ایوب خان ہے۔ اس شہر نے اورحیدرآباد نے انتہائی جاہ وجلال والے جنرل ایوب کو انتہائی دھاندلی، دھونس اور دھن کے باوجود جیتنے نہیں دیا تھا اور یہاں سے قائد اعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کامیاب ہوئی تھیں۔ شہر کراچی گزشتہ پندرہ بیس سال سے مختلف عذابوں میں مبتلا ہے۔ اس شہرکو تباہ وبرباد کردیاگیاہے۔ مگر اس ''شہر خرابی میں غم عشق کے مارے'' زندہ لوگ ہیں اور آزادی کا مطلب اس شہر کے لوگ خوب جانتے ہیں، یہ شہر بڑے بڑے امتحانوں سے گزرا ہے اور اب شہر نے کروٹ بدلی ہے۔
کروٹ تو پورے ملک نے بھی بدلی ہے، مسلم لیگ (ن) کے بعد پورے ملک کی دوسری بڑی جماعت بن کر عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف ابھری ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں ہوش سے چلیں کہ ووٹ ڈال کر لوگ سوئے نہیں ہیں، لوگ جاگ رہے ہیں اور انتظار کررہے ہیں کہ نئی حکومتیں کب قائم ہوں اور کام چلے۔ ہر چھ چھ ماہ کی کارکردگی کو عوام جانچیںگے اور یاد رہے کہ عوام بٹھاکر اتارنا بھی جانتے ہیں!!!
میرے وطن کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی لوگوں نے تحریک انصاف کو دوسری بڑی جماعت بنادیاہے اور صوبہ خیبر پختونخوا والوں نے تو تحریک انصاف کو اپنے سر کا تاج بنالیاہے۔ گویا پہاڑوں سے سمندر تک حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ تبدیلی اسی کو کہتے ہیں کہ جو آچکی ہے اور آخر میں حبیب جالب کے چند شعر نذر قارئین۔ یہ اشعار ایوب خان کے دور حکومت میں کہے گئے تھے اور گلاب کا پھول جنرل ایوب کا انتخابی نشان تھا۔ جب کہ مادر ملت لالٹین لیے کھڑی تھیں۔
میں تو مایوس نہیں اہل وطن سے یارو
کوئی ڈرتا نہیں، اب دارورسن سے یارو
پھول دامن پہ سجائے ہوئے پھرتے ہیں وہ لوگ
جن کو نسبت ہی نہ تھی ، کوئی چمن سے یارو
ظلم کے سر پہ کبھی تاج نہیں رہ سکتا
یہ صدا آنے لگی، کوہ ودمن سے یارو
منزل کیف وطرب اپنے قدم چومے گی
ہم گزر آئیں ہیں، ہر رنج و محن سے یارو
کتنے خاموش تھے، چپ چاپ تھے رستے گلیاں
یہ زمیں بول اٹھی، میرے سخن سے یارو