جب زمین لرز اٹھے

کبھی کسی حکومت نے بھی اس حوالے سے اطمینان بخش اقدامات نہیں اٹھائے۔


[email protected]

احادیث مبارکہ سے معلوم چلتا ہے کہ قرب قیامت تواتر سے زلزلے آئیں گے، علما کی اکثریت متفق ہے کہ ہم قرب قیامت پر جی رہے ہیں کئی نشانیاں پوری ہوچکی جب کہ کچھ ابھی باقی ہیں، تاہم وہ بھی جلد ہی پوری ہونے جا رہی ہیں۔ دنیا کے بیشتر خطے زلزلوں کی زد میں ہیں۔

آئے دن میڈیا میں معلوم چل رہا ہے کہ کبھی کسی ملک توکبھی کسی ملک میں زلزلے اور قدرتی آفات آرہی ہیں جاپان اکثر زلزلوں کی زد میں رہتا ہے چند دن قبل بھی زلزلہ آیا نیز ہمارا ملک بھی زلزلوں سے محفوظ نہیں یہاں بھی زلزلے اور قدرتی آفات آتی رہتی ہیں جب کہ ہمارے ملک میں اس سے نبرد آزما ہونے کی تمام تر سہولیات ندارد حالانکہ ماہرین متعدد بار زلزلوں اور قدرتی آفات کے حوالے سے اپنے مختلف خدشات و تجزیات سے خبردار کرچکے ہیں۔ کبھی کسی حکومت نے بھی اس حوالے سے اطمینان بخش اقدامات نہیں اٹھائے۔

زلزلے کے اسباب، محرکات اور وجوہات کے بارے میں آج آپ کی خدمت میں سائنسی، مذہبی اور ادبی شعبوں کا نقطہ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں، کالم کے اختصار کے پیش نظر مختصراً جائزہ پیش خدمت ہے۔ آغاز زلزلے کی سائنسی توجیہہ سے کروں گا، اس ضمن میں سائنس دانوں (ماہرین ارضیات) کا نقطہ نظر ملاحظہ فرمائیے۔ ''ماہرین کے مطابق خشکی پر آنے والے زلزلے عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں، پہلی وجہ آتش فشاں پہاڑ ہیں جن کے پھٹنے سے آنے والے زلزلے کی شدت زیادہ نہیں ہوتی۔

زیادہ تر تباہی دوسری قسم کے زلزلے سے آتی ہے اور اپنی تمام تر ترقی کے باوجود انسان اس ناگہانی آفت کی بروقت پیش گوئی کرنے والا نظام دریافت نہیں کرسکا اور تاحال قدرت کے اس معمولی اقدام کے آگے اکیسویں صدی میں بھی بے بس ہے۔ دراصل ہم جس زمین پر آباد ہیں اس کی اندرونی ساخت میں بہت سی پرتیں ہیں۔ جن میں نرم اور سخت پتھریلی پرتیں بھی موجود ہیں۔ زیر زمین پتھریلی چٹانوں کی معمولی حرکت سے بھی زمین کی اوپری سطح تہہ و بالا ہوجاتی ہے۔گزشتہ دنوں جو زلزلہ آیا اس کی وجہ زیر زمین چٹانوں کا کھسکنا تھا جس سے زمین کی اوپری سطح پر موجود عمارتیں اور مکانات لرز کر رہ گئے۔

اگر ہم زلزلے کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم چلتا ہے کہ ماہرین کے مطابق زلزلے کی دو اقسام ہیں اور جہاں تک زلزلے کی لہروں کا تعلق ہے اس کی اچانک حرکت سے سائسمک لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ جب یہ لہریں زمینی چٹانوں میں سے گزرتی ہیں تو ان پر دباؤ بڑھاتی ہیں جس سے سٹرین پیدا ہوتا ہے جب یہ لہر گزر جاتی ہے یعنی دباؤ ختم ہوجاتا ہے تو پھر سٹرین بھی غائب ہوجاتا ہے اور چٹانی سلسلہ اپنے حجم اور شکل میں واپس آجاتا ہے۔

لہروں کو تین اقسام پرائمری، سیکنڈری اور سطحی میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پرائمری لہریں اولین ہونے کے ناتے دیگر زلزلیاتی لہروں سے تیز ہوتی ہیں۔ جونہی پرائمری لہریں کسی میڈیم سے گزرتی ہیں تو اس میڈیم کے اجزا لہر کے راستے کے ساتھ ساتھ آگے پیچھے تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔ اس لہرکی رفتار پانی میں ڈیڑھ کلومیٹر فی سیکنڈ اور زمین میں تیرہ کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔

دوسری قسم سیکنڈری لہروں کی ہے جس کی شدت پرائمری لہروں سے کم ہوتی ہے۔ تیسری سطحی لہریں ہیں یہ زمین کی اوپری سطح میں ہوتی ہیں اور گہرائی میں جاتے جاتے ختم ہوجاتی ہیں۔ سطحی لہروں کی مزید دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم میں تھرتھراہٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ سطح زمین کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں۔ دوسری قسم میں لہریں سمندرکی لہروں کی طرح دائروں کی صورت میں چلتی ہیں۔

اس وقت برصغیر کی زمینی پلیٹ شمال کی جانب تین سے چار سینٹی میٹر سالانہ ایشین پلیٹ کی طرف جا رہی ہیں۔ یہ عمل لمبے عرصے سے جاری ہے کبھی پاکستان کا زلزلوں کے مرکز سے فاصلہ 380 کلومیٹر تھا جو اب ستر سے نوے کلو میٹر رہ گیا ہے۔

ان کے درمیان جو علاقہ ہے وہ پہاڑوں میں تبدیل ہوگیا ہے۔ کوہ ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم اسی سلسلے کی وجہ ہیں۔ زمین کے اندر جب اس طرح کے دباؤ بڑھیں گے تو انرجی اسٹور ہوتی رہے گی جو بعد میں خارج بھی ہوتی رہے گی۔ اس ضمن میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ جہاں سے فالٹ گزر رہی ہے یعنی پٹی زلزلے کی زد میں آتی ہے وہاں عمارتیں تعمیر کرنے کی بجائے چراگاہیں اور پارک بنائے جائیں۔ تاکہ زلزلہ آنے کی صورت میں جانی و مالی نقصان کم سے کم ہو، واضح رہے کہ کراچی کے قریب بھی رن آف کچھ کا مشہور فالٹ واقع ہے اور زیر زمین چٹانیں اپنی پوزیشن تبدیل کر رہی ہیں۔

زلزلوں کے ضمن میں اسلام اور علما کرام کا نقطہ نظر بے حد اہمیت کا حامل ہے لہٰذا مختلف شعبہ ہائے حیات سے دوسرا انتخاب میرا زلزلوں کے متعلق اسلامی توجیہہ ہے، جس سے معلوم چلتا ہے کہ ''انسان اس کرہ ارض پر اپنی شامت اعمال سے خود بھی زلزلوں کو دعوت دیتا ہے۔ ''قرآن حکیم، احادیث اور تاریخی حقائق سے یہ امر روز روشن کی طرح بالکل عیاں اور واضح ہوجاتا ہے کہ سنت اللہ کے مطابق جب بھی کسی سرزمین یا قوم پرکوئی بھی آسمانی یا زمینی قدرتی آفت نازل ہوتی ہے تو وہ یا تو اللہ عزوجل کی جانب سے آزمائش کی گھڑی ہوتی ہے یا پھر عذاب الٰہی و قہر خداوندی کا نقارہ۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ''کتنی ہی بستیاں ہیں جنھوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی، تو ہم نے ان سے سخت محاسبہ کیا اور ان کو بہت بڑی سزا دی۔

انھوں نے اپنے کیے کا مزہ چکھ لیا اور ان کا انجام گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔'' (سورہ الطلاق)۔ اسی طرح سورہ آل عمران میں فرمایا کہ ''تم سے پہلے بہت سے دورگزر چکے ہیں، زمین میں چل پھرکر دیکھ لو، ان لوگوں کا کیا انجام ہوا، جنھوں نے (اللہ عزوجل کے احکام و ہدایات کو) جھٹلایا یہ لوگوں کے لیے ایک صاف اور صریح تنبیہہ ہے اور جو اللہ عزوجل سے ڈرتے ہیں، ان کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔''

''سورۃ الزلزال'' کا آغاز ان الفاظ میں فرمایا گیا کہ ''جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی اور وہ اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی، انسان کہنے لگے گا کہ اسے کیا ہوگیا ہے، اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی، اس لیے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا۔'' اسی طرح احادیث میں سے صرف ایک حدیث ملاحظہ فرمائیے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ''قیامت سے قبل کثرت سے زلزلہ اور چیخ و پکار کا عذاب آئے گا۔ نبی کریمؐ نے امت کو آگاہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ قیامت سے پہلے کے سال زلزلوں کے سال ہوں گے یعنی کثرت سے زلزلے آئیں گے۔'' (بخاری شریف) لہٰذا اس مختصراً اسلامی تجزیے کی روشنی میں کوئی بھی قوم خود اپنے اعمال کی کسوٹی پر کسی بھی قدرتی آفت کو پرکھ سکتے ہیں کہ آیا وہ عذاب الٰہی ہے یا آزمائش الٰہی؟

آخر میں کالم کا اختتام معاشرے سے تعلق رکھنے والے شعبہ ہائے حیات کے ان مفکرین پر کروں گا جو ہمارے معاشرے میں نازک خیال تصور کیے جاتے ہیں اور اپنے احساس کو الفاظ کی مالا میں پروتے ہیں، چنانچہ اس ضمن میں معروف شاعر یونس رمز صاحب جوکہ سائنسی ادب کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتے ہیں ان کی نظم ''جریدہ زلزال'' جوکہ سورہ زلزال کی منظوم ترجمانی ہے ملاحظہ فرمائیے! (یہ نظم بزم سائنسی ادب کی 160 ویں نشست میں پڑھی گئی)

زلزلہ جب بھی سر اٹھاتا ہے

موج در موج بل دکھاتا ہے

ذرے ذرے میں جھنجھناتا ہے

ذرے ذرے کو کھنکھناتا ہے

ذرے ذرے کے قلب و محور میں

دمدموں کی صدا لگاتا ہے

ارتعاش زمین کی وحشت میں

کھیل کیا نت نئے دکھاتا ہے

ارضیاتی رکابیوں کا سفر

اپنے اندر ہی ڈوب جاتا ہے

کرب پیہم کا سلسلہ بن کر

خوف' ڈر کی ردا بچھتا ہے

گیس' سیال و منجمد کی متاع

دجلۂ کرب میں بہاتا ہے

ڈھالتا ہے تغیرات کے روپ

بارِ تخریب بھی اٹھاتا ہے

یک نفسی لمحۂ گراں میں فقط

بستیوں کے نشاں مٹاتا ہے

حلقۂ اضطرابِ مقناطیس

ڈھالنے کے ہنر سکھاتا ہے

باد و باراں کا شور بے پایاں

موجۂ برق کو جگاتا ہے

پردۂ غیب کی خبر دے کر

پھر پرندوں کے پر لگاتا ہے

آدمی ہے جو ذی شعور بنے

سورۂ زلزلہ بغور سنے

زلزلہ ہے زمین کی فطرت میں

ساز حکمت' دستِ قدرت میں

آدمی کا دماغ پہنچے تو

حادثوں کے اثر' غنیمت میں

آدمی ہوگا مائل رجعت

اضطراب گماں کی حالت میں

فرد لغزش کے اعتبار سے رمزؔ

بارگاہ جلال و عزت میں

دیکھ لے گا جریدۂ تقدیر

دیکھ ہی لے گا جریدۂ تقدیر

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں