آس کی پتوار
خدارا! ٹی وی اینکر خواتین و حضرات، مزیدار، بارہ مصالحے والے ٹاک شوز پر خود ہی غور فرمائیں...
خدارا! ٹی وی اینکر خواتین و حضرات، مزیدار، بارہ مصالحے والے ٹاک شوز پر خود ہی غور فرمائیں، ملک شدید ترین بحرانوں کا شکار ہے، حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ ٹی وی پروگرامز کا لب و لہجہ اور انداز بدلا جائے۔ ملک کی بقا کا مسئلہ ہے، لوگوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر الیکشن میں حصہ لیا ہے۔ کیا بوڑھا، کیا جوان، کیا امیر کیا غریب۔ الیکشن والے دن سبھی گھروں سے جھونپڑوں سے نکلے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں نکلے ہیں۔
الیکشن کے نتائج بھی 90 فیصد درست تسلیم کیے گئے ہیں، باقی 10 فیصد پر الیکشن کمیشن، ایکشن میں ہے۔ عوام نے ووٹ دے کر اپنا بہت بڑا اور اہم فرض ادا کر دیا ہے اور ملک کی چار جماعتوں پر اپنا اعتماد ظاہر کرتے ہوئے انھیں نظام حکومت چلانے کا اختیار دے دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) مرکز اور صوبہ پنجاب کا اختیار سنبھالے گی، خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف صوبے کے عوام کی بحالی کی ذمے دار ہو گی، صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ایک مرتبہ پھر عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں، صوبہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں مختلف جماعتیں مل کر حکومت بنائیں گی۔
اب میں پھر اسی بات کی طرف آتا ہوں، جو میں نے کالم کی ابتداء کرتے ہوئے کی تھی کہ ٹی وی اینکرز اپنا انداز اور لب و لہجہ تبدیل کریں اور محتاط رہتے ہوئے ٹاک شوز کریں۔ اس بارے میں مختلف ٹی وی چینلز کے ارباب حل و عقد بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں کہ خصوصاً ٹاک شو کا مختصر سا حصہ یہاں پیش کرتا ہوں، قارئین خود ہی سمجھ جائیں گے کہ گڑبڑ کہاں اور کیسے کی جا رہی ہے؟
ٹی وی اینکر: (انداز طنزیہ) آپ کہتے تھے، پنجاب حکومت نے بجلی کے بحران کے لیے کچھ نہیں کیا؟
پی ٹی آئی: نہیں ہم یہ کہتے تھے کہ پنجاب حکومت کو بھی کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے تھا، مگر انھوں نے ایک میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہیں کی۔
ٹی وی اینکر: چلیے! اب آپ خیبر پختون خوا میں اپنی حکومت بنانے جا رہے ہیں بجلی بھی خوب بنائیں گے، خیبر پختونخوا کے اندھیرے دور ہو جائیں گے۔
پی ٹی آئی: ہم کوشش کریں گے۔
ٹی وی اینکر: (جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے) مسلم لیگ (ن) نے آپ کو صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت سازی کا اختیار دے دیا ہے، کہ آپ حکومت بنائیں۔
پی ٹی آئی: جی نہیں! مسلم لیگ (ن) نے نہیں، ہمیں عوام نے حکومت بنانے کا اختیار دیا ہے، مسلم لیگ (ن) نے عوام کے فیصلے کی تائید کر کے ہم پر کوئی احسان نہیں کیا ہے۔
ابھی حکومتیں بنی بھی نہیں ہیں اور ہمارے ٹی وی ٹاک شوز کے خوشگوار، ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں میک اپ زدہ، بنے سنورے، اینکرز گرمی سے بے حال، پریشان، لٹے پٹے، اجڑے گھروں، برباد، تباہ حال عوام کے سامنے یہ گفتگو فرما رہے ہیں، واہ کیا کہنے ، ماشاء اللہ۔
اوہ بھائی! خدا کا کچھ تو خوف کرو ''تمہیں اٹھکیلیاں سوجھی ہیں' ہم بیزار بیٹھے ہیں''۔ ایسے طنزیہ سوالات اور ماضی میں کہی گئی باتوں کو دہرانے کا یہ وقت نہیں ہے۔ یہ وقت ہے کہ آپ ٹاک شوز میں سیاسی جماعتوں کو ، سیاسی رہنماؤں کو مل جل کر ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی طرف لائیں ۔ قومی امور پر سنجیدہ گفتگو ہونی چاہیے۔ ٹی وی چینل ریٹنگ بڑھانے کے رجحان کو چھوڑ کر، ملک و قوم کے لیے مثبت پروگرام پیش کریں۔ یوں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بٹھا کر ایک دوسرے سے لڑانے کی روش ترک کر دیں۔ حالات کی نزاکت کو سمجھیں! ملک ہے! یا پھر نہیں ہے، کی نہج پر کھڑا ہے، خدارا! رحم کریں۔
میرا شہر کراچی الیکشن کے بعد بھی اسی خوف، دہشت اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہے۔ اس شہر میں کچھ بھی بہتر نہیں ہوا۔ آج بھی روزانہ آٹھ دس افراد کے قتل کی روش نہیں بدلی۔ ''نامعلوم'' قاتل آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں، بھتے کی پرچیاں چل رہی ہیں، انکار پر فائرنگ ہو رہی ہے اور اس صوبے و شہر میں پھر وہی ''بے چارے'' الیکشن جیت گئے ہیں جو پچھلے پانچ سال میں دہشت گردوں، بھتہ خوروں، نامعلوم قاتلوں، خودکش اور بم دھماکے کرنے والوں، بینک لوٹنے والوں کے خلاف کچھ بھی نہ کر سکے، لوگ مرتے رہے، لوگ لٹتے رہے، گھر اجڑتے رہے اور قبرستان آباد ہوتے رہے۔۔۔۔۔لیاری میں کئی روز سے کچھی اور بلوچ آس میں لڑ رہے ہیں۔ کوئی حکومت نظر نہیں آتی۔ 4 تھانے نمائشی سے بنے ہوئے ہیں۔
یہ میرا شہر، یہ پاکستان کا مائی باپ ہے اور یہی برباد ہے اور اگر یہ برباد ہے تو پورا پاکستان شاد و آباد کیسے رہ سکتا ہے؟
عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اچھے اور حوصلہ افزا نتائج دیے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) بہت بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے، پورے پاکستان سے اس جماعت کے لوگ جیتے ہیں، ساری صوبائی اسمبلیوں میں بھی اس جماعت کی نمایندگی موجود ہے اور مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف ایک مقبول ترین اور بہادر نوجوانوں کی طاقت لیے میدان میں موجود ہے۔
عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان تحریک انصاف پورے ملک میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر ہر لحظہ کڑی نظر رکھنے کا حوصلہ اور طاقت رکھتی ہے اور یقینا مسلم لیگ (ن) پاکستان تحریک انصاف کی طاقت کو اپنے لیے اور عوام کے لیے اور پاکستان کے لیے بہتر انداز میں اپنائے گی اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں پاکستان تحریک انصاف سے فائدہ حاصل کرے گی ، یہی جذبہ وقت کی پکار ہے۔ تعصب کو پرے پھینکیے اور مجھے کہنے دیجیے کہ یہ شہباز شریف کی اعلیٰ کارکردگی تھی جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو اتنی بڑی تعداد میں عوام نے ووٹ دیے اور یہ پاکستان تحریک انصاف کے اصول تھے کہ انھوں نے پہلے اپنے اندر انتخابات کروائے، اور پھر بڑے حوصلے کے ساتھ الیکشن میں نوجوانوں کو کھڑا کیا اور عوام نے چہرے نہیں، نظریے کو ووٹ دے کر پاکستان تحریک انصاف کو ملک کی دوسری بڑی جماعت بنا دیا۔
الیکشن کے نتائج اچھے آئے ہیں، اب نیک نیتی کے ساتھ خصوصاً متذکرہ بالا دونوں جماعتوں کو عوامی امنگوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔
بہت سے لوگ الیکشن سے پہلے کہتے تھے ''الیکشن نہیں ہوگا'' ان کی بات سن کر میرا دل بھی دہل جاتا تھا، مگر میرے دہلتے دہل سے یہی آواز آتی تھی ''الیکشن ضرور ہو گا''۔ آج وہی لوگ کہہ رہے ہیں ''کچھ بہتر نہیں ہوگا'' اور میرے دہلتے دل سے آواز آ رہی ہے ''سب ٹھیک ہو جائے گا''۔ شہباز شریف اور عمران خان نے اپنی اپنی جان توڑ جدوجہد جاری رکھی تو یقینا ''سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا''۔ مرکز میں بننے والی حکومت کو پاکستان کے ہب کراچی پر خصوصی اور مسلسل نظر کرم رکھنا ہو گی کیونکہ کراچی سب کا مائی باپ ہے۔ یہ شہر خوش رہے گا تو پورا پاکستان خوش رہے گا، یہ شہر شاد و آباد رہے گا تو پورا پاکستان شاد و آباد رہے گا۔ آخر میں جالبؔ کا ایک شعر تمام سیاسی جماعتوں کے لیے :
نہ چھوڑنا کبھی طوفان میں آس کی پتوار
یہ آرہی ہے صدا' دم بہ دم کناروں سے