ریگل چوک کراچی کا اتوار بازار کتابوں سے رشتے برقرار رکھنے کا ذریعہ

دکانوں کے تھلوں پر سجی کتابیں صبح 8 بجے سے شام ڈھلے تک گاہکوں کی منتظر رہتی ہیں


Kashif Hussain September 10, 2018
نئی کتابوں کی قیمت بڑھنے سے پرانی کتابوںکی طلب بڑھ رہی ہے،اردواورانگریزی کی کتب زیادہ فروخت ہوتی ہیں، کتب فروش

انٹرنیٹ کے دور میں بھی کراچی کے شہریوں کی بڑی تعداد نے کتابوں سے اپنا تعلق برقرار رکھا ہوا ہے، کتاب بینی کو خواہ عادت کہیں، شوق یا ضرورت تینوں صورتوں میں سستی اور نایاب کتابوں کا حصول دشوار امر ہے لیکن بھلا ہواتوارکے روز پرانی کتابیں فروخت کرنے والوں کا جوشہریوںکاکتب سے رشتہ جوڑے رکھنے میں اہم کردار اداکررہے ہیں۔

مصروف ترین تجارتی مرکز صدر میں قائم ریگل بازار کی گلیوں میں عام دنوں میں پیدل چلنا بھی محال ہوتا ہے تاہم ریگل الیکٹرانک مارکیٹ کی ہی ایک گلی میں ہر ہفتے اتوار کے روز سال ہا سال سے پرانی کتابوںکا بازار لگایا جاتاہے، کتابوں کے رسیا بچے بڑے، پروفیشنل ماہرین، اساتذہ اور ہر عمل کے طلبہ اس بازار کا رخ کرتے ہیں، کئی ادوار دیکھنے والا کتابوں کا یہ بازار وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتا سکڑتا رہا تاہم ان دنوں شہر میں امن و سکون نے کافی عرصے سے ڈیرہ ڈال رکھا ہے جس کا فائدہ پرانی کتابوں کے تاجروں اور خریداروں کو پہنچ رہا ہے۔

صدر ریگل بازار میں پرانی کتابوں کا بازار صبح 8بجے سے لگنا شروع ہوجاتا ہے ،گلی میں دوطرفہ زمین وار دکانوں کے تھڑوں پر سجی کتابیں شام ڈھلے تک گاہکوں کی منتظر رہتی ہیں، ا س بازار میں شعروادب، فنون لطیفہ، مذہبی کتب کے علاوہ طب، کاروبار، معاشیات، سائنس کے دیگر شعبوں سمیت کھانے پکانے کی تراکیب پر مشتمل رسالہ، ڈائجسٹ، بچوں کی کہانیاں اور درسی کتب کا بڑا ذخیرہ بکھرا نظر آتا ہے ،ریگل میں پرانی کتابوں کے بازار میں لگے بندھے گاہک آیا کرتے تھے تاہم اب نجی اور سرکاری جامعات کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد درسی اور نصابی کتب تلاش کرتی بازار میں نظرآتی ہے۔

بعض والدین بھی یہاں سے نجی اسکولوں کی نصابی کتب تلاش کرتے نظر آتے ہیں پرانی کتابوں کے بازار میں زیادہ تر کتابوں کا ڈھیر 20سے لے کر 100 روپے تک کی فکس قیمت پر فروخت کے لیے رکھا جاتا ہے تاہم نایاب اور کلاسک کتابیں گاہک کی قوت خرید کے مطابق فروخت کی جاتی ہیں، کتب فروش زمین پر چادر بچھاکر کتابوں کا ڈھیر لگادیتے ہیں جس میں سے گاہک اپنے ذوق اور شوق کے مطابق کتابیں تلاش کرکے قیمت طے کرتے ہیں، کچھ کتب فروش ٹیبلوں پر کتابیں سلیقے سے سجاکر بھی فروخت کرتے ہیں ،کتب فروشوں کے مطابق گاہکوں کی اکثریت زمین پر بکھری کتابوں میں زیادہ دیر سرکھپانے میں کوفت محسوس کرتی ہے ،اس لیے وہ ٹیبل پر موضوع کے مطابق کتابیں سجادیتے ہیں۔

جس میں پسند کی کتاب کو تلاش کرنا قدرے آسان ہوجاتا ہے، اتوار بازار کے کتب فروشوں کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے نئی کتابوں کی قیمت بڑھ رہی ہے پرانی کتابوں کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے، مہنگائی کی وجہ سے مطالعے کے شوقین افراد پرانی کتابوں سے اپنے علم کی پیاس بجھاتے ہیں اتوار بازار میںزیادہ تر اردو اور انگریزی زبان کی کتابیں فروخت کے لیے لائی جاتی ہیں تاہم بعض اوقات گجراتی، سنسکرت، عربی ، سندھی اور دیگر زبانوں کے نایاب نسخے بھی فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں۔

بازار لسانی، مذہبی اور نظریاتی ہم آہنگی کی مثال ہے
پرانی کتابوں کا بازار لسانی، مذہبی اور نظریاتی ہم آہنگی کی ایک مثال ہے، اس بازار میں مختلف زبانیںبولنے والے کتب فروش کتابیں فروخت کرتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے نظر آتے ہیں، ایک دوسرے کی ضد یا نفی کرنے والے مکاتب فکر کے محققین اور اسکالرز کی تصانیف بھی ایک دوسرے کے ساتھ یا اوپر نیچے رکھی نظرآتی ہیں اسی طرح مختلف سماجی، سیاسی پس منظر کے حامل گاہک اپنے مذہب، مسلک اور عقیدے سے بالاتر ہوکر کتابوں کے شوق میں ہم آہنگی کے ساتھ کتابیں خریدنے اور تصانیف کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے نظر آتے ہیں۔

پوش علاقوں سے تعلق رکھنے والے خریدار اب فریئر ہال کوترجیح دیتے ہیں
پرانی کتابوں کی فروخت میں بھی طبقاتی فرق نمایاں ہے، ریگل کے کتب فروشوں کے مطابق امیر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے اب ریگل کے بازار کا رخ کرنا کم کردیا ہے، ریگل کے ساتھ فیریئر ہال میں بھی اتوار کے روز پرانی کتابوں کے اسٹال لگائے جاتے ہیں ،پوش علاقوں سے تعلق رکھنے والے خریدار اب زیادہ تر فریئر ہال کو ترجیح دیتے ہیں،فریئر ہال میں کتابوں کی اچھی قیمت مل جاتی ہے اس کے برعکس ریگل کے بازار میں آنے والوں کی قوت خرید کم ہوتی ہے اور وہ پرانی کتابوں کی قیمت پر بھی بھائوکرتے ہیں،ریگل بازار میں بعض کتب فروشوں کی تیسری نسل بھی اس کام سے وابستہ ہوگئی ہے۔

قلمی نسخوں کے ہزاروں روپے وصول کرتے ہیں، کباڑی

پرانی کتابیں فروخت کرنے والے شہر بھر سے کتابیں جمع کرتے ہیں، بعض گھرانوں میں گھر کا سربراہ فوت ہوجانے پر ان کی جمع شدہ تمام کتابیں کباڑیوں کو فروخت کردی جاتی ہیں جو یہ کباڑیے سے خرید کر بازار میں لاتے ہیں، پاپوش بڑا میدان سے آنے والے ایک کباڑے اکرم کے مطابق شہر بھر میں کباڑیے کی دکانیں کتابوں کے حصول کا اہم ذریعہ ہیں گلی گلی پھرنے والے کباڑیے دن بھر کی جمع کردہ کتابیں کباڑ کی دکانوں پر فروخت کرتے ہیں۔

اکرم کے مطابق اب کباڑیے تول کے بجائے کتاب کی اہمیت کے لحاظ سے قیمت مانگنے لگے ہیں اس لیے پرانی کتابوں پر منافع کی شرح کم ہورہی ہے، اکرم کے مطابق اس کے بھائی کی کباڑیے کی دکان ہے جہاں آنے والی کتابیں بازار میں فروخت کردی جاتی ہیں، اکرم کے مطابق بعض اوقات کباڑ کی کتابوں میں ہاتھ سے لکھے گئے قلمی نسخے بھی مل جاتے ہیں جن کی قیمت ہزاروں روپے میں وصول کی جاتی ہے۔

کتب فروشوں کے مطابق عام طور پر پرانی کتابوں پر منافع 20سے 30روپے تک ہوتا ہے لیکن پیشہ ورانہ تعلیم سے متعلق درآمد شدہ کتابوں پر اچھی بچت ہوجاتی ہے،میڈیکل کالجوں کے طلبا بسوں میں بھر کر آتے ہیں اور اپنے مضامین سے متعلق کتابیں خرید کر لے جاتے ہیں جس روز میڈیکل کالجوں کے طلبہ بسوں میں آتے ہیں اس روز کتب فروشوں کی اچھی آمدن ہوجاتی ہے۔

پرانی کتابوں کے شوقین افراد گھنٹوںکتابیں تلاش کرتے ہیں

پرانی کتابوں کے شوقین افراد کئی کئی گھنٹے کتابیں تلاش کرتے ہیں، بازار میں اپنے اور اپنے بچوں کے لیے کتابیں تلاش کرنے والے ایک شہری کا کہنا تھا کہ ریگل میں پرانی کتابوں کے بازار سے اپنی پسندیدہ کتابوں کا حصول مشکل ہوتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ صاحب ذوق کتب فروشوں کی تعداد کم ہوگئی ہے، اس بازار میں اکثریت پرانی اشیاکے بیوپاری کباڑے کا کام کرنے والے کتابیں فروخت کر رہے ہیں جو بعض اوقات غیراہم کتاب کی ظاہری صورت کو دیکھتے ہوئے بھاری قیمت طلب کرتے ہیں اور نایاب کتابوں کے پرانے نسخوں کی قیمت کم طلب کرتے ہیں۔

گاہکوں کے مطابق نئی کتابوں کی خریداری عام اور متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی دور ہوچکی ہے اس لیے پرانی کتابوں سے دل بہلاتے ہیں،پرانی کتابوں کے بازار میں بچوں کے ہمراہ درسی کتب تلاش کرنے والے والدین کے مطابق بین الاقوامی ناشران کی کتابوں کی قیمت بہت زیادہ ہے اس لیے اسکولوں کیلیے نئی کتابیں خریدنے کے بعد گھروں پر پڑھانے یا ٹیوشن کیلیے پرانی درسی کتب خریدتے ہیں جو نئی کتب کے مقابلے میں 70 فیصد تک کم قیمت پر مل جاتی ہیں، 20 روپے سے 100 روپے کے درمیان بچوں کی کہانیوں کی بہترین کتابیں مل جاتی ہیں،بازار میں اردو ڈائجسٹ خریدنے والے ایک عمررسیدہ شہری کا کہنا تھا کہ محدود پنشن میں کتابوں کی خریداری ممکن نہیں اس لیے ہفتہ وار بنیاد پر اس بازار سے ایک دو ڈائجسٹ یا ناول خرید کر پڑھ لیتا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں