پیسہ نہ تھا
مسافر پیاسا کیوں؟ گدھا اُداسا کیوں؟ دونوں سوالوں کا جواب ایک ہی ہے۔ ’’لوٹا‘‘ نہ تھا۔ سموسہ کھایا کیوں نہ گیا؟...
مسافر پیاسا کیوں؟ گدھا اُداسا کیوں؟ دونوں سوالوں کا جواب ایک ہی ہے۔ ''لوٹا'' نہ تھا۔ سموسہ کھایا کیوں نہ گیا؟ جوتا پہنا کیوں نہ گیا؟ جواب ایک ہی ہے '' تلا '' نہ تھا۔ گوشت کھایا کیوں نہ گیا؟ گانا گایا کیوں نہ گیا؟ جواب اِس کا ایک ہی تھا۔ ''گلا'' نہ تھا۔ یہ اور اِس قسم کی درجنوں پہلیاں اور کہہ مُکرنیاں حضرت امیر خسرو کے تخلیقی اور زرخیز ذہن کی پیداوار ہیں۔ جنھیں آج بھی بعض بوڑھیاں شادی بیاہ کی تقریبات میں نوجوان بچیوں کو سُنا کر ٹھٹّھے لگایا کرتی ہیں۔ نوجوان نسل حضرت امیر خسرو سے اتنی واقف نہیں ہے، جتنا کہ حضرت صاحب کا حق تھا۔ امیر خسرو ایک ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے۔
فنونِ لطیفہ کا شاید ہی کوئی شعبہ ایسا ہو جس میں امیر خسرو نے اپنا حصہ نہ ڈالا ہو۔ زیادہ تر لوگوں کے لیے اِن کا تعارف صرف اِسی حد تک محدود ہے کہ وہ حضرت نظام الدین اولیا کے عزیز ترین مُرید اور لاڈلے شاگرد تھے۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ موسیقی کا مشرقی ساز جسے آج ہم ''ستار'' کے نام سے جانتے ہیں، یہ امیر خسرو کی ہی ایجاد ہے۔ یہ دراصل تین تاروں والا ساز ہے اِسی وجہ سے اِس کا نام ''سہ تار'' یعنی تین تار رکھا گیا تھا، جو غلط العام ہو کر ستار کہلانے لگا۔ اِس کے علاوہ حضرت امیر خسرو کلاسیکی گائیکی کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ ''چھاپ تلک سب چھین لی رے مو سے نینا ملائی کے'' اِس کلام کے خالق بھی امیر خسرو ہی ہیں۔ بات چلی تھی امیر خسرو کی اُن پہلیوں سے جن میں دو مختلف سوالوں کو اِس طرح بوجھنا ہوتا تھا کہ دونوں سوالوں کا جواب ایک ہی ہو۔
اور پھر بات ستار سے ہوتی ہوئی چھاپ تلک تک آن پہنچی۔ مقصد نوجوان نسل کو جو موبائل اور انٹر نیٹ کی جدید دُنیا کی بھول بھُلّیوں میں کھو کر رہ گئی ہے، اپنی شاعری اور موسیقی کے کلاسکس سے آگاہ کرنا تھا، کہ کبھی فرصت ملے تو گوگل پر جا کر حضرت امیر خسرو کو بھی سرچ کر کے دیکھ لیں۔ کیونکہ اپنی پچھلی تاریخ کو اپنی زندگی سے نکال کر مستقبل کا نیا جغرافیہ ترتیب نہیں دیا جا سکتا۔ امیر خسرو نے تو صرف دو مختلف سوالوں کا ایک ہی جواب تلاش کر کے اپنے زمانے کے عوام کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ لیکن عنقریب نئے حکمرانوں کی زبان سے، جو چند روز بعد ہی حلف اُٹھانے والے ہیں ہر مسئلے اور ہر سوال کا صرف ایک ہی جواب سُننے کے لیے پاکستانی عوام ذہنی طور پر خود کو تیار کر لیں۔ اور اِس واحد جواب پر اُنہیں حیرت زدہ ہونے کی قطعی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اُصولاً تو ہمیں یہ کالم بین الا قوامی اخلاقیات کے تحت طے شدہ مُدت یعنی 100 دِن کے بعد لکھنا چاہیے تھا۔
کیونکہ دُنیا کی ہر مہذب ریاست اقتدار سنبھالنے والی ہر نئی حکومت کو کم سے کم 100 دِن، اپنے جوہر دکھانے کے لیے ضرور دیتی ہے اور اِس مدت کے دوران نئے حکمرانوں پر تنقید سے گزیر ہی کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اِس سے قبل کونسی اخلاقی قدریں پنپتی رہی ہیں یا پھر اِنکا قابلِ رشک ریکارڈ موجود ہے، جو ہم میاں صاحب کو نئی حکومت کے حوالے سے کوئی رعایت دینے پر آمادہ ہو جائیں؟ دوسرے میاں صاحب کے تمام انتخابی وعدوں اور ترقیاتی پروگراموں کا واحد جواب ہمیں تو پیشگی ہی دیوار پر جلی حرفوں سے لکھا ہوا صاف نظر آ رہا تھا اور یقینا میاں برادران کو بھی یہ نوشتہ دیوار صاف دکھا ئی دیتا ہو گا، جس کا ذکر اُنہوں نے چند نا گزیر وجوہات کی بنا پر کرنا ضروری نہیں سمجھا ہو گا، کیونکہ پہلا مرحلہ خاصا دشوار تھا یعنی الیکشن جیتنا اور وہ اُنہوں نے اب جیت لیا ہے۔ ورنہ کپتان تو اُن کی جان کو اٹک گیا تھا اور اِس انتخابی میچ میں میاں صاحبان پر ایسا پریشر ڈال رکھا تھا کہ بس...، وہ تو شومئی قسمت کہ کپتان تیزی دکھانے کے چکر میں خود کو فزیکلی اَن فٹ کر بیٹھا۔ بہرحال میاں صاحب کے ہر انتخابی وعدے اور ہر ترقیاتی پروگرام کا اب صرف ایک ہی جواب ہو گا ۔
'' پیسہ نہ تھا'' دانش اسکول بنائے کیوں نہ گئے؟ اور صنعتوں کے پہیّے چلائے کیوں نہ گئے؟ جواب ایک ہی ہو گا۔ ''فنڈز نہ تھے'' اندھیرے دور کیوں نہ کیے جا سکے؟ اور نوجوانوں کو قرضے کیوں نہ دیے جا سکے؟ جواب پھر وہی ایک ہی ہو گا۔ ''فنڈز نہ تھے'' سوال یہ ہے کہ یہ فنڈز یا پیسہ آخر گیا کہاں؟ جواب ہے پچھلی حکومت نے قومی خزانے پر نہ صرف جھاڑو پھیر دی بلکہ گندے کپڑے سے ایسا چمکدار پونچھا لگایا کہ قومی خزانہ چم چم کرنے لگا۔ جنرل مشرف 16 ارب ڈالرز کے ریزرو اور 60 روپے کا ڈالر چھوڑ گیا تھا، لیکن پی پی پی اینڈ اتحادی کمپنی نے صرف 2 ارب ڈالر اور ڈالر کی قیمت 100 روپے تک پہنچا کر اقتدار شریف برادران جیسے شُرفا کے حوالے کر کے اپنی جان چھڑا لی جب کہ آئی ایم ایف کی قسط سر پر کھڑی، بھنگڑا الگ ڈال رہی ہیں۔ اِسی لیے تو جیتنے کے بعد میاں صاحب نے کتابِ اقتدار کھولتے ہی دیباچے سے ایک اقتباس عوام کو سُنا کر پیشگی ہی ہوشیار کر دیا ہے کہ ''پاکستان اِس وقت سولہ ہزار ارب کے قرضے تلے دبا ہوا ہے۔'' آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ ہونا یہی ہے کہ '' فنڈز نہیں ہیں۔''
جب کہ انتخابی جلسوں میں خواہ وہ کوٹ ادّو ہو یا سانگلہ ہل ہر شہر سے موٹر وے گزارنے کا وعدہ یوں کر آئے ہیں جیسے موٹر وے نہ ہوئی، کوئی دری بچھانی ہوئی اور نوجوانوں کو کہہ چکے ہیں کہ وہ تیاری کر لیں، اُنہیں معمولی سود پر قرضے بھی دیں گے۔ حالانکہ تیاری تو میاں صاحب کو کرنی ہے۔ نوجوان تو قرضہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ پھر بُلٹ ٹرین بھی اُنہوں نے چلانی ہے۔ جب کہ موجودہ اور دستیاب ریلوے کا حال یہ ہے کہ سابق وزیر ریلوے کے گلے کی طرح پوری ریلوے بیٹھ چکی ہے۔ اب آج چھوٹے میاں صاحب نے کراچی والوں کو خوشخبری دی ہے کہ کراچی کو وہ میٹرو بس کا تحفہ دیں گے۔
گھوم پھر کر اِن تمام وعدوں کو پورا نہ کرنے کا ایک ہی جواب سمجھ میں آتا ہے کہ ''پیسہ نہ تھا۔ پیسہ آئے گا کہاں سے؟'' ایک آسان طریقہ تو یہ ہے، جو صدر صاحب نے پچھلے دِنوں صدارتی آرڈینس جاری کر کے نئی حکومت کو سمجھایا ہے۔ یعنی جی ایس ٹی پر ایک فیصد اضافہ کر کے آرڈینس واپس لے لیا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ٹیکس نہ دینے والے طبقے کو گلا پکڑ کر ٹیکس اُگلوایا جائے اور ایف بی آر میں ہونے والی ایک ہزار ارب کی کرپشن کو نکیل ڈالی جائے۔ لیکن یہ طبقہ تو سب سے پہلے مسلم لیگ ن میں گھُس بیٹھا ہے۔ قرض اُتارو، ملک سنوارو اسکیم اور بیرونی کرنسی کے اکائونٹ سیز کر کے میاں صاحب عوام اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی نظر میں اپنی ساکھ پہلے ہی گنوا چکے ہیں۔ لے دے کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہی رہ جاتے ہیں۔ وہی مدد کو آئیں گے۔ جب مہنگائی بڑھے گی تو میاں صاحب ہاتھ جھاڑ کر بھلا اِس کے سوا اور کیا کہیں گے کہ '' پیسہ نہ تھا۔''