امریکا دوستی۔۔۔ کیا کھویا کیا پایا

70سالہ تجربات ہمیں بتارہے ہیں کہ قومیں کسی کے بھروسے ترقی نہیں کرتیں اور نہ ہی ملک امدادی بھیک پر چلتے ہیں۔



قدیم سندھ و ہند کے باشندوں (جو آج کل ریڈ انڈین کہلاتے ہیں )کی پناہ گاہ رہنے والے جزیرے پر کولمبس کے حملے اور فتح کرنے کے بعد یہاں اینگلو سیکسن نسل کے لوگ بڑے پیمانے پر آباد ہوئے ۔ اس جزیرے کو اٹلی کے ایک سیاح امریگو ویسپوسی کی نسبت سے امریکا کا نام دیا گیا۔

آہستہ آہستہ دنیا بھر کے لوگوں کا مسکن بننے والا یہ ملک صرف کچھ ہی صدیوں میں دنیا کا سپر پاور بن کر اُبھرا۔ جس کے پیچھے تھا ایک مضبوط تھنک ٹینک جس نے امریکی تعمیر ایسے جمہوری نظام کی بنیاد وں پر کی جس کے تحت ہر فرد کو مساوی بنیادوں پر سہولیات و حقوق میسر تھے اور کوئی بھی فرد قانون سے بالاتر نہ تھا ۔ قوم کی تربیت کا یہ ثمر تھا کہ ابراہم لنکن، کینیڈی ، فورڈ ، نکسن اور ریگن جیسے معمار رہنما ہونے کے بعد بھی وہاں شخصیت پرستی کی جڑوں کو پانی نہ مل سکا۔ یہی امریکا کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران جنگی فریق نہ ہونے کے باوجود امریکا نے جاپان میں ہیرو شما اور ناگاساکی پر ایٹمی تجرباتی حملہ کرکے دنیا میں پہلی ایٹمی ومستحکم معاشی قوت کا اعلان کرکے سپر پاور بن بیٹھا ۔ پھر دنیا کے تمام اُمور و مسائل میں اُس کو فیصلہ کُن حیثیت حاصل ہوگئی ۔ جس وجہ سے دنیا بھر میں اس کے مفادات بڑھنے لگے اور ہر خطے میں اُسے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی نہ کسی مقامی اسٹریٹجک ساتھی ملک یا ریاست کی ضرورت رہنے لگی۔

اس وقت اگر امریکا کا کوئی مقابل تھا تو وہ صرف کمیونزم کے نظریات کے حامل روس و چین تھے ۔ جو اپنے نظریات و ٹیکنالوجی و تحقیق کی بنیاد پر امریکا کے لیے چیلنج بنے ہوئے تھے ۔امریکا اُن کو روکنے کے لیے ایشیا اور مشرق وسطیٰ کو اہمیت دینے لگا کیونکہ امریکی پالیسی ساز اِن خطوں کو برطانوی اثر رکھنے والے علاقے سمجھتے تھے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی پالیسی سازوں کو تشویش تھی کہ بر صغیر کے وسائل اور سہولیات ممکنہ دشمن روس کے قبضے یا حلقہ اثر میں نہ آجائیں ۔

اس لیے ابتدا سے ہی وہ تاریخی ریاستوں کی صورت میں تقسیم ِ ہند کے خلاف تھا اوراسی تناظر میں امریکا میں قیام پاکستان کے مطالبے کو پسند نہیں کیا جاتا تھا ۔ قائد اعظم کی ماتحت مسلم لیگ نے پاکستان کی خطے میں اہمیت واضح کرکے امریکا کو یہ باور کرایا کہ پاکستان امریکی مقاصد کے لیے اہم ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس لیے جب برطانیہ کی جانب سے بھارت اور پاکستان کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تو امریکا نے اس کی تائید کی لیکن پاکستان کا کھل کر ساتھ نہ دیامگر امریکی پالیسی سازوں نے مستقبل میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کی بناء پر اپنی حکومت کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان کی جانب توجہ دے ۔ جس پر امریکی حکومت نے قائد اعظم سے ملاقات کے لیے ایک وفد بھیجا ۔

یکم مئی 1947کو بمبئی میں قائد اعظم کی رہائشگاہ پر ہونے والی اس ملاقات کے نتیجے میں قائد اعظم نے اس بات کا اظہار کیا کہ '' پاکستان تنہا نہیں رہ سکتا ، پاکستان عالمی طاقت کا دوست بنے گا، روس اُن کے لیے کشش نہیں رکھتا '' کیونکہ قائد اعظم کو اس وقت ایک طرف نوزائیدہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے وسائل درکار تھے تو دوسری طرف ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے ہتھیار تھے اور نہ ہی ہتھیار خریدنے کی قوت تھی۔

ایسے میں عالمی صورتحال کے پیش نظر مالی ، فنی و ٹیکنالوجی کی بنیاد پر مستحکم امریکا ہی موزوں انتخاب تھا جو پاکستان کی عسکری و معاشی بنیادوں پر مدد کرسکتا تھا۔ لیکن قیام پاکستان کے صرف دو ماہ بعد ہی عملی رابطہ کرنے پر امریکا نے پاکستان کو جواب دیا کہ امریکی حکومت کے پاس حکومت ِ پاکستان کے انتظامی اخراجات پورے کرنے کے لیے رقم موجود نہیں جب کہ جلد ہی شروع ہونے والے کشمیر تنازعہ پر امریکا نے بھارت کی بھرپورحمایت اور معاونت کی ۔

ایسے میں سوویت یونین (روس)کی جانب سے پاکستان کو دوستی کے پیغام کے ساتھ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو روس کے دورے کی دعوت دی گئی ۔ لیکن لیاقت علی خان مسلم لیگ کے اسلامی و جمہوری منشور کی بنا ء پر کمیونسٹ روس کی جانب جھکاؤ نہ رکھتے تھے اور اُن کی پسند جمہوری بنیادوں پر قائم مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ اور امریکا تھے ۔ اسی لیے انھوں نے امریکی بے وفائی کے باوجود امریکا کی جانب سے دورے کی دعوت کو روس کی دورے کی دعوت پر فوقیت دیتے ہوئے 1950میں امریکی دورہ کیا ۔ جس نے قدرے مثبت اثرات مرتب کیے پھر عالمی سطح پر پیش آنیوالے واقعات کی بناء پر امریکا کے لیے بھی پاکستان سے تعلقات بنانا مجبوری بن گیا۔

1950میں جب بھارت نے غیر وابستگی کا اعلان کیا تو پاکستان امریکا کی توجہ کا مرکز بن گیااور اس وقت پاک امریکا تعلقات کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ اس کا مقصد بھارت کے خلاف پاکستان کو مضبوط بنانا ہے۔ 1954میں پہلا دوطرفہ پاک امریکا دفاعی معاہدہ ہوا۔ جس کے تحت طے پایا کہ امریکا پاکستان کو تحفظ اور ترقی کے لیے مختلف ضروری سامان ، مالی ، فنی و تربیتی امداد فراہم کرے گا ۔ تمام امدادی اشیاء کسٹم ڈیوٹی سے مبرا ہوں گی ۔ تعلیم ، معاشیات اور سماجی اُمور سے متعلق وفود کے تبادلے ہوں گے اور تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔

پھرعلاقائی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے یہاں امریکا کی سربراہی میں ایک فوجی حکمت عملی ترتیب دی گئی جس میں ترکی اور پاکستان بھی شامل تھے اس میں یہ طے پایا کہ امریکا اور اتحادیوں کو ضرورت پڑنے پر فوجی فراہم کرنے کی ذمے داری پاکستان کی ہوگی ۔ اس لیے پاکستانی افواج کو اسلحہ سے لیس رکھنے کے لیے فوجی امداد فراہم کرنا شروع ہوگئی لیکن اس میں بھی شرط یہ رکھی گئی کہ یہ اسلحہ صرف امریکی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہوگا۔ اس معاہدے سے بھی پاکستان کو شدید نقصان پہنچا ۔ وہ پاکستان جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا ، وہ مسلم اتحاد کے بجائے امریکی آلہ کار بن کر رہ گیا ۔

پاکستان ان تمام معاہدوں میں بھارتی خطرے کے پیش نظر شامل ہوا تھا تاکہ بھارتی حملے کی صورت میں باہمی سلامتی کے سمجھوتوں کی بناء پر امریکا پاکستان کی مدد کرے اسی تناظر میں صدر ایوب خان نے امریکا سے 1959میں ایک دفاعی معاہدہ کیا جس میں امریکا کی جانب سے پاکستان کی دفاعی ضروریات پوری کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن پاکستان کو پہلا بڑا دھچکا اس وقت لگا جب امریکا نے پاکستان کے ساتھ کیے اس باہمی سمجھوتے پر عمل کرنے کے بجائے اقتصادی امداد، ہتھیار اور فاضل پرزہ جات کی فراہمی بند کردی ۔ پھر 1965اور 1971کی جنگوں میں امریکا پاکستان کا ایک ناقابل اعتبار حلیف ثابت ہوا۔ معاہدے صرف دستاویزات کی حد تک ہی محدود رہے جب کہ پاکستان کے دولخت ہونے کے دوران بھی امریکا خاموش تماشائی بنا رہا ۔

1961میں ایوب خان کے دورہ امریکا اور وہاں صدر کینیڈی سے ملاقات کے نتیجے میں امریکا کی جانب سے پاکستان کو بڑے پیمانے پر مالی امداد جاری کی گئی لیکن جلد ہی 1962میں چین بھارت جنگ میں امریکا کی جانب سے بھارت کو بے تحاشہ اسلحہ و فوجی سازو سامان کی ترسیل نے پورے ماحول کو بدل کر رکھ دیاجو کہ پاکستان کے حق میں نہ تھا ۔ اس لیے پاکستان نے صدر ایوب خان کے دور میں امریکا اور مغرب کے علاوہ کمیونسٹ ممالک روس اور چین سے روابط بڑھانے کا آغاز کیا اور روس سے ایئر لنک ایگریمنٹ پر دستخط کیے ۔ ان روابط کو روکنے کے لیے امریکا پاکستان میںاپنا اثر رسوخ بڑھانے لگا۔

ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلے پاکستانی رہنما تھے جس نے امریکی چالبازیوں کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے چین و روس سے کئی صنعتی ، معاشی و تجارتی اور دفاعی معاہدے کیے ۔جس سے ایک طرف پاک چین دوستی کا آغاز ہوا تو دوسری طرف روس کی مدد سے اسٹیل مل جیسے میگا پروجیکٹ شروع ہوئے ۔جب کہ مسلم بلاک کا تصور دینے کے ساتھ ساتھ جوہری پروگرام کا آغاز کرکے ملکی دفاع کو ملکی سطح پر مضبوط بنانے کا اعلان بھی کیا ۔جس کی پاداش میں وہ عالمی و ملکی مخلوط سازش کا شکار ہوئے۔

ضیائی آمریت نے ایک بار پھر روس سے منہ پھیر لیا اور امریکا سے تعلقات ہموار کیے اورملک کو افغان روس جیسی دوسروں کی جنگ میں جھونک دیا ۔ جس سے نہ صرف دوران ِ جنگ ہمیں مالی و عسکری نقصان سہنا پڑا اورہم نے خطے کے مضبوط ممالک کو اپنا دشمن بنالیا بلکہ جنگ کے اختتام پر ملک میں افغان پناہ گزینوں کے بوجھ سے ملکی معیشت کی تباہی ، ملک میں منشیات وغیرقانونی اسلحے کی بھرمار اور انتہا پسندی و طالبان کے ناسور جیسے ناقابل تلافی نقصان اٹھانے پڑے۔

یہ سب امریکا کی جانب سے روس کے خلاف تیار کردہ مجاہدین سے آنکھیں پھیر دینے کا نتیجہ تھا۔جس کا تسلسل 9/11کا واقعہ بھی کہا جارہا ہے۔ نائین الیون کے دہشت گردی کے واقع کے بعد ایک مرتبہ پھر پاک امریکا فوجی تعلقات نے ایک نیا موڑ لیا۔ ایک ایسے واقعہ کی بنیاد پر افغانستان پر عالمی فورسز کے پلیٹ فارم سے فوج کشی اور حملہ کردیا گیا جس واقعہ کے امریکی داخلی سطح کی سازش سے ہونے کے شبہات پائے جاتے ہیں ۔ لیکن عالمی صورتحال ایسی بنائی گئی کہ پاکستان کو بھی لامحالہ اس میں امریکا کے مفادات کے لیے کام کرنا پڑا ۔

اسی 9/11کے واقعہ کے نتیجے کا تسلسل پاکستان کے موجودہ حالات ہیں جن میںدہشت گردی کے واقعات کی بھینٹ چڑھے سیکڑوں معصوم بچوں کی المناک اموات، ہزاروں جوانوں کی شہادتیں اور ملکی خودمختاری کو سبوتاژ کرتے امریکی ڈرون حملوں کے باعث سیکڑوں شہریوں کی مسخ شدہ لاشیں پاکستان کی جھولی میں گرنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے جب کہ ملکی وقار کو پہنچنے والاناقابل تلافی نقصان علیحدہ ہے، لیکن اس کے باوجود امریکا ہماری قربانیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ان سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے ہماری کوششوں سے خوش نہیں ہے بلکہ ہمیشہ "Do More"کی Demandکرتا رہتا ہے۔

دوسری جانب امریکا وسطی ایشیا میں عملی طور پر پاکستان کا نہیں بلکہ بھارت کا معاون ثابت ہوا ہے ، جس کی وجہ چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور مفادات ہیں، جنھیں روکنے کے لیے امریکا ، چین کے ساتھ بھارتی تصادم کو ہوا دے رہا ہے اور بھارت کے ساتھ فوجی و جوہری تعلقات قائم کرچکا ہے ۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لینے سے نظر آتا ہے کہ یہاں کی حکومتیں ہمیشہ امریکی حمایتی رہی ہیں لیکن عوام ہمیشہ امریکا مخالف رہے ہیں پھر چاہے وہ مذہبی سوچ کے حامل ہوں یا سوشلسٹ ۔جب کہ پاکستان کے پالیسی ساز ہمیشہ عوام کی رائے کو پیٹھ دیتے آئے ہیں ۔درج بالا صورتحال سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جمہوری و مذہبی خیالات کے حامل مغرب بالخصوص برطانیہ و امریکا اور کمیونسٹ نظریات رکھنے والے چین و روس کی طرف سے خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اپنے اپنے مفاد کا کھیل کھیلا جارہا ہے جس میں پاکستان کو صرف ایک مہرہ یا منڈی سمجھ کر استعمال کیا جارہا ہے ۔

اس صورتحال کے پیش نظر اب پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو نئے ڈھنگ و نئی جہتوں اور تیزی سے تبدیل ہوتی عالمی صورتحال اور وقت کی ضرورت کے حساب سے ترتیب دے جو امریکی ، روسی یا چینی مفادات کی تکمیل کے لیے اپنی دھرتی ، عسکری قوت اور اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کے بجائے ملک و ملت کی آزادی و خودمختاری کی سربلندی کے پیش نظر ترتیب دی جائے ۔ کیونکہ 70سالہ تجربات ہمیں بتارہے ہیں کہ قومیں کسی کے بھروسے ترقی نہیں کرتیں اور نہ ہی ملک امدادی بھیک پر چلتے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں