پاکستان اسٹیل کی بندش آئرن اسٹیل اور اسکریپ کی درآمد 35 ارب ڈالر پر پہنچ گئی

5سال میں 15ارب ڈالرکی اسٹیل مصنوعات،اسکریپ درآمد،نئی حکومت کے پہلے10روزمیں 1.20ارب روپے کاپیداواری نقصان


Kashif Hussain August 29, 2018
اسٹیل ملزبحالی سے یومیہ12کروڑروپے کے پیداواری نقصان کیساتھ سالانہ ایک ارب ڈالرکا زرمبادلہ بھی بچے گا، ماہرین۔ فوٹو: فائل

پاکستان اسٹیل کی زبوں حالی اور پیداوار بند ہونے کی وجہ سے پاکستان میں اسٹیل مصنوعات کے ساتھ اسٹیل اسکریپ کی درآمد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

پاکستان میں گزشتہ 5 سال کے دوران 15ارب ڈالر سے زائد مالیت کی اسٹیل مصنوعات اور اسکریپ درآمد کیا گیا ہے۔ پاکستان اسٹیل میں پیداوار بند ہونے سے اسٹیل کی درآمدات کی شکل میں سالانہ 3.5ارب ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ ملک سے باہر جارہا ہے جبکہ اسکریپ کو پگھلاکر مصنوعات بنانے والی انڈسٹری کی لاگت میں اضافے کے ساتھ اسٹیل مصنوعات کا معیار بھی پست ہورہا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کے لیے پاکستان اسٹیل کی بحالی ایک کڑا چیلنج ہے۔ پاکستان اسٹیل کو یومیہ 12کروڑ روپے خسارے کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے دس روز میں پاکستان اسٹیل کو ایک ارب 20کروڑ روپے کا پیداواری نقصان ہوچکا ہے جس میں ہر گزرتے گھنٹہ کے ساتھ 50لاکھ روپے کا اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان اسٹیل میں پیداوار کی بندش امپورٹ بل میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2013-14سے مالی سال 2017-18کے دوران 5.6ارب ڈالر کا اسٹیل اسکریپ جبکہ 9.81ارب ڈالر کی اسٹیل مصنوعات درآمد کی گئی ہیں۔پاکستان اسٹیل میں پیداوار معطل ہونے کے دوران گزشتہ تین سال کے دوران اسکریپ کی درآمدات میں 54کروڑ ڈالر جبکہ اسٹیل مصنوعات کی درآمد میں 30کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اگست 2015میں نج کاری کمیشن کے مقرر کردہ کنسلٹنٹ پاک چائنا انویسٹمنٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں پاکستان اسٹیل کو اپنے منفر د محل وقوع بڑھتی ہوئی مارکیٹ اور پاکستان اسٹیل میں دستیاب سہولتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دو ٹوک انداز میں پاکستان اسٹیل کو منافع بخش بنانا ممکن قرار دیا تھا۔

جائزہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تین مراحل میں 29ارب روپے کی سرمایہ کاری، بلاتعطل پاور کی فراہمی اور ایک اہل اور موثر انتظامیہ تعینات کرکے پاکستان اسٹیل کو منافع بخش بنایا جاسکتا ہے تاہم سابقہ حکومت نے پاکستان اسٹیل کی پیداوار بند کرکے ملازمین کو قرضہ کے ذریعے تنخواہوں کی ادائیگی جاری رکھنے پر 260ارب روپے خرچ کر ڈالے لیکن پاکستان اسٹیل میں پروفیشنل اور اہلیت کی حامل انتظامیہ کو مقرر نہیں کیا گیا۔

پیداواری پلانٹ کو اچانک گیس کی فراہمی بند کیے جانے سے اسٹیل میکنگ پلانٹ اور بلاسٹ فرنس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے پاکستان اسٹیل نے دنیا میں بلاسٹ فرنس کو بند کیے رکھنے کا طویل ترین مدت کا عالمی ریکارڈ بھی قائم کردیا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان اسٹیل کی بحالی کے لیے سیاسی فیصلوں کے بجائے پیشہ ورانہ مہارت کی حامل انتظامیہ اور فعال بورڈ کی تشکیل ناگزیر ہے جو آزادنہ طور پر پاکستان اسٹیل کے امور کی انجام دہی کے لیے فیصلے کرسکیں۔

پاکستان اسٹیل کی بحالی سے ملک کو سالانہ ایک ارب ڈالر کی بچت ہوگی جبکہ درآمدات پر اٹھنے والا کثیرزرمبادلہ بھی بچایا جاسکے گا۔ پاکستان اسٹیل کی مالیاتی تاریخ میں 33سال میں سے 23سال آپریٹنگ پرافٹ حاصل ہوا جبکہ 10سال سے خسارے کا سامنا ہے۔

پاکستان اسٹیل کے موجودہ، ریٹائرڈ ملازمین، ڈیلرز ، سپلائرز اور کنٹریکٹرز پر مشتمل اسٹیک ہولڈر گروپ کے کنوینر ممریز خان کے مطابق پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو کم کرنے میں پاکستان اسٹیل کی بندش نے اہم کردار ادا کیا جسے جان بوجھ کر سیاسی مصلحت اور غفلت کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیک ہولڈر گروپ سابقہ حکومت کو بھی وقتافوقتاً پاکستان اسٹیل کو بحران سے نکالنے اور بحالی کے لیے اپنی خدمات پیش کرچکا ہے اور موجودہ حکومت کی جانب سے خسارے میں چلنے والے اداروں کی بحالی کے عزم میں شانہ بشانہ شریک ہونے کا خواہش مند ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر جو پانچ سال قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے چیئرمین رہ چکے ہیں پاکستان اسٹیل کے بنیادی مسائل اور ماضی کی حکومتوں کے غلط فیصلوں کا ادراک رکھتے ہیں اور پاکستان اسٹیل کی بحالی کے لیے پرعزم ہیں۔

پاکستان اسٹیل کے بہترین ادوار میں چلانے والے ڈاکٹر محمد اکرم شیخ اور صبیح قمر ازماں جیسے افراد کی مشاورت سے پاکستان اسٹیل پر چھائی تاریکی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان اسٹیل سے متعلق 10ہزار کے لگ بھگ مقدمات بھی عدالتوں میں زیر غور ہیں موثر اور پیشہ ور انتظامیہ کی عدم موجودگی اور غیرفعال بورڈ کی وجہ سے ان مقدمات پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی اور پاکستان اسٹیل بھاری قانونی اخراجات کا بوجھ اٹھارہا ہے اسٹیک ہولڈر گروپ ان مقدمات کے خاتمے میں بھی موثر کردار ادا کرے گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں