امریکا میں چند روز

امریکا پہنچنے کے باوجود وہاں رہائش پذیرپاکستانیوں کی طرح ہماری بھی مجبوری تھی کہ ٹیلیوژن پرپاکستانی چینلز سے جڑے رہیں۔


Hameed Ahmed Sethi August 26, 2018
[email protected]

ہر محب وطن شخص اپنے ملک کو دوسرے ممالک پر فوقیت دیتا ہے۔ خاص طور پر جو لوگ بیرون ملک گئے ہی نہیں ہوتے اپنے ملک کے خلاف کچھ بھی سننا پسند نہیں کرتے لیکن جنھیں باہر جانے کا موقع ملا ہے۔ بہت سی اچھی باتیں بتاتے ہیں جنھیں اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔

مدتوں پہلے بے شمار لوگ یورپ، جرمنی، ناروے، برطانیہ، سعودیہ، عراق اور گلف کے ممالک تلاش روزگار کے سلسلہ میں گئے لیکن کبھی چھٹیوں پر واپس آتے تو ان کے روزمرہ رہن سہن اور چال چلن میں کوئی تبدیلی یا بہتری نہ پاکر کوئی ان سے متاثر نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ ناخواندہ پسماندہ اور مزدور پیشہ تھے جو بیرون ملک لیبر وغیرہ کرنے جاتے اور آٹھ دس اکٹھے ایک کمرے میں رہائش پذیر ہوتے، یہ لوگ چونکہ کام کی جگہ اور رہائش گاہ تک محدود رہتے اس لیے ان ممالک کی سوشل لائف سے ناواقف، لاعلم اور محروم و لاتعلق ہوتے اور کسی مقامی یا تعلیم یافتہ سے ملنا ملانا تو دور کی بات ہیلو ہائے سے بھی محروم رہتے۔

آج بھی ماسوائے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پروفیشنل افراد کے پاک و ہند کے Immigrants کی مقامی گوروں سے نہ دوستیاں ہیں نہ سوشل تعلقات، یہ دوسری دنیا میں جا کر بھی اپنی ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ ان کے تعلقات اور دوستیاں بھی ہم وطنوں اور ہم زبانوں تک محدود رہتی ہیں۔ دلچسپیاں بھی مقامی گوروں سے مختلف ہوتی ہیں۔

کولمبس تو اپنے تین سمندری جہازوں سانتا ماریا پنٹا اور نینا پر اٹلی سے انڈیا اور چین میں سونے کی تلاش کی غرض سے نکلا لیکن سن 1492ء میں امریکا کے ساحل بہاما سے جا ٹکرایا اور ہم 25 جولائی 2018ء کی خوشگوار شام جب کہ پاکستان میں تبدیلی کے نعروں کی گونج میں عام انتخابات ہو رہے تھے، ہیوسٹن کے ہوائی اڈے پر اتر چکے تھے۔ اگلے چند دنوں میں کنفرم ہو گیا کہ تبدیلی جس کا ذکر سنتے چلے آ رہے تھے کہ آ رہی ہے حقیقتاً آ چکی ہے۔

امریکا پہنچنے کے باوجود وہاں رہائش پذیر پاکستانیوں کی طرح ہماری بھی مجبوری تھی کہ ٹیلیوژن پر پاکستانی چینلز سے جڑے رہیں۔ نوجوانوں کی مصروفیات تو متنوع ہوتی ہیں لیکن بڑی عمر کے پاکستانی امریکی کھانا کھانے اور لیٹے کے دوران بھی پاکستان ٹی وی چینلز کے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں۔

ہمارا پنجاب یونیورسٹی میں طالب علمی کا زمانہ تھا جب شہر کی سڑکوں اور ریستورانوں میں کالے پیلے برائون نوجوان طالبعلم لڑکے اور لڑکیاں بے خوف و خطر کتابیں لیے گھومتے بیٹھے نظر آتے تھے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ غائب ہونے لگے اور اب مفقود ہیں۔ امریکا کے بڑے شہروں میں اب گوروں کے علاوہ سیاہ فام، کم گورے، پیلے اور برائون لوگ نظر آتے ہیں۔ یہ افریقی، لاطینی امریکنی، چینی، جاپانی، عربی اور ایشیائی ہیں۔ Memphis کے ایک دریائی پل پر سے گزرتے ہوئے مہرالنساء نے 18 سال قبل مجھے بتایا تھا کہ اسے Auction Bridge کہا جاتا ہے۔ اس پل پر افریقہ سے لائے ہوئے سیاہ فام غلام افراد کو کھڑا کر کے نیلام کیا جاتا تھا اور خریدار ان سے دن بھر کھیتوں وغیرہ پر مزدوری کروا کے پھر زنجیروں سے باندھ رکھتے تھے۔

سیاہ فام غلاموں کے Auction Bridge سے مجھے تحریک ہوئی کہ میں ان کے لیڈر ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کی اسی شہر میں واقع جائے قتل ہوٹل کی بالکونی کو دیکھنے جائوں جہاں اسے 4 اپریل 1968ء کو گولی ماری گئی تھی جب کہ اس کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے امریکا میں ہر سال جنوری کے مہینے کے ہر تیسرے سوموار کو چھٹی منائی جاتی ہے۔ وہی سیاہ فام غلام جن کی ایک طویل عرصہ تک خرید و فروخت چلتی رہی جن کو بس میں سوار ہونے پر سیٹ پر بیٹھنے کی اجازت نہ تھی۔

گوروں کی دکان سے خریداری منع تھی۔ سڑک پر اس سمت نہ چل سکتے تھے جدھر گورے آ جا رہے ہوتے اور جن کے بچے گوروں کے اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ آج امریکا میں دندناتے پھرتے ہیں اور اگر ان سے زیادتی ہو جائے تو ہنگامہ اٹھا دیتے ہیں کہ ان کے ساتھ Discrimination کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔

یوں تو امریکا کے بڑے شہروں میں کئی ممالک کے لوگ شہریت لے کر آباد ہوئے ہیں لیکن لاطینی امریکی اور گندمی رنگ کے لوگ بڑی تعداد میں نظر آئے۔ گندمی رنگ والوں کی اکثریت انڈین دیکھی، لیکن Prominent سیاہ فام تھے۔ اس کی وجہ خاص طور پر کالی خواتین ہیں جن میں ایک معقول تعداد بے تحاشا موٹی عورتوں کی جنھیں آپ خود نہ بھی دیکھیں تو ان کا موٹاپا خود آپ کی نظروں سے ٹکراتے ہوئے بے ڈھنگے پن کا خوفناک منظر پیش کیے بغیر اوجھل نہیں ہو گا۔ یہاں کے 90 فیصد ٹیکسی ڈرائیور سیاہ فام امریکی ہیں۔

تجسس سے مجبور ہوکر ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھ ہی لیا کہ اسے بے ڈھنگے اور بے تحاشہ موٹاپے کا کیا راز ہے۔ سیاہ فام ڈرائیور نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ Junk Food ایک وجہ ہے۔ دوسری ہر وقت دن بھر کھاتے رہنا، تیسری وجہ جی بھر کے مشروب مغرب کا ڈرنک اور چوتھی وجہ زیرو ایکسرسائز۔ سیاہ فام خواتین اپنی ایک دلچسپی سے کبھی غافل نہیں ہوتیں۔ وہ ہے ان کا انوکھا ہیئر اسٹال جس میں اتنی ورائٹی ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں اس کا عشر عشیر بھی نہ ملے گا۔

ایک بڑے شاپنگ مال میں ایک Jet Black خاتون میں مذکورہ بالا دونوں چیزوں کا امتزاج دیکھا س کے بالوں کی تین رنگوں کی لٹکتی ہوئی جھاڑیاں تھیں۔ وہ اپنے بچے کو Pram میں ڈالے دھکیلتی ہوئی لے جا رہی تھی۔ پیٹ کے موٹاپے کی وجہ سے اس کے ہاتھ Pramt تک نہیں پہنچ رہے تھے۔ اس لیے وہ یہ کام اپنے پیٹ سے لے رہی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں