نیا پاکستان اور عوام

شاید یہ احساس مضبوط ہوگیا ہے کہ دھرنوں سے بھی مطالبات منظور کروائے جاسکتے ہیں۔


Dr Naveed Iqbal Ansari May 24, 2013
[email protected]

پاکستان میں دھرنوں کی سیاست کوئی زیادہ نئی نہیں، ماضی میں بھی مختلف جماعتیں عوامی شاہراہوں پر دھرنے دیتی رہی ہیں۔ دور حاضر میں طاہرالقادری کے بعد تحریک انصاف کے کراچی میں دھرنے اس لحاظ سے کامیاب رہے کہ حلقہ 250 میں مطلوبہ 43 پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ ہوئی باوجود کراچی کی بھاری مینڈیٹ رکھنے والی جماعت ایم کیو ایم کی مخالفت کے۔

دھرنوں کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے، شاید یہ احساس مضبوط ہوگیا ہے کہ دھرنوں سے بھی مطالبات منظور کروائے جاسکتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کے دھرنے کس حد تک غلط یا درست ہیں، ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ نئے انتخابات کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے، ویسے بھی ''نیا پاکستان'' کا نعرہ لگا دیا گیا ہے، لہٰذا ایسی صورت حال میں ''نئے پاکستان'' کے خواب کو حقیقی بنانے کے لیے روایتی سیاسی حربے یا حکمت عملی ترک کردینی چاہیے، خاص کر ایسی حکمت عملیاں کہ جن سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہو۔ کوئی تسلیم نہ کرے لیکن عوام کو صبح و شام شاہراہوں پر دھرنوں کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دفتر جانے والے افراد ہوں یا ایمبولینس میں مریض، ان سب کو عام حالات میں بھی ٹریفک کے رش سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جلسے، جلوس یا دھرنوں کی سیاست سے مشکلات ناقابل بیان اور ناقابل برداشت ہوجاتی ہیں۔

نئے جمہوری دور کے آغاز پر بلاتفریق تمام جماعتوں کو مل کر عہد کرنا چاہیے کہ وہ آیندہ کسی بھی قسم کے جلسے، جلوس اور مظاہرے یا دھرنے عام شاہراہوں پر نہیں کریں گے خصوصاً کراچی جیسے بڑے شہر میں کہ جہاں پہلے ہی گھنٹوں ٹریفک جام کی صورت حال صبح و شام دیکھنے میں آتی ہو۔ اسی طرح ہڑتال کے بجائے یوم سیاہ منانے کا عہد کیا جائے جس میں عمارتوں اور گاڑیوں پر یا بازوؤں پر سیاہ پٹی باندھ کر احتجاج کیا جائے اس طرح احتجاج بھی ریکارڈ ہوجائے گا اور مہنگائی کی چکی میں پستے غریب عوام کا ہڑتال کے باعث یومیہ اجرت کا نقصان بھی نہیں ہوگا۔

ایک اہم مسئلہ بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کی سہولت کا بھی ہے لہٰذا تمام جماعتوں کو اس سلسلے میں تعاون کرتے ہوئے اس کا حل نکالنا چاہیے مثلاً سرکلر ریلوے، میٹرو بسوں کے آغاز کے علاوہ ڈبل سواری پر عائد پابندی کا بھی خاتمہ فوری طور پر ہونا چاہیے۔ موٹرسائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی کے باعث غریب طبقے پر کرائے کہ ضمن میں مالی بوجھ بڑھ رہا ہے جب کہ کرائم کی شرح میں روک تھام قابل ذکر نہیں ہے۔ ڈبل سواری پر پابندی کے باوجود گلی محلوں میں بھی موبائل فون چھیننے والے ڈبل سواری پر وارداتیں کر رہے ہیں۔

خواتین کے حقوق کی بات چیت کی جاتی ہے، انھیں مردوں کے شانہ بشانہ تعلیم اور روزگار حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے لیکن حال یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ کے بدتر نظام میں عام شریف مرد بھی سفر کرتے ہوئے پریشان اور بدحال ہوجاتا ہے ایسے میں خواتین بسوں میں کس طرح سفر کریں گی؟ بس ڈرائیور تو خواتین کو دیکھ کر بس روکنا بھی مناسب نہیں سمجھتے پھر اگر اتفاق سے بس روک بھی دی جائے تو خواتین کے حصے میں مرد جس طرح گیٹ تک بھرے ہوتے ہیں اس عالم میں کوئی خاتون بس میں کس طرح سوار ہوسکتی ہے؟

ایک اور اہم ترین مسئلہ میرٹ پر ملازمت کا حصول ہے۔ آج تمام جماعتیں شفاف پولنگ کے لیے صدائے احتجاج بھی بلند کر رہی ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ اب نئے جمہوری دور میں یہ جماعتیں جس طرح شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے عمل کا مطالبہ کرتی رہی ہیں، ان پر لازم ہے کہ اب سرکاری ملازمتوں کے لیے بھی اسی طرح میرٹ اور شفاف عمل کے تحت بغیر سیاسی وابستگی، رشوت اور سفارش کے اس ملک کے نوجوانوں کو ملازمتوں کے مواقع فراہم کریں۔ اب ملازمتوں میں تقرریوں کے لیے سیاسی کوٹے کا استعمال بند ہونا چاہیے۔ ملازمتوں کے اشتہار میں درخواستوں کے ساتھ جو پے منٹ یا فیس لی جاتی ہے اسے بھی ختم کیا جائے، کیا غضب ہے کہ بے روزگاروں سے درخواستوں کے نام پر پانچ سو اور ہزار روپے وصول کرکے کروڑوں روپے حاصل کرلیے جاتے ہیں جب کہ اکثر تو انٹرویو کے لیے کال ہی نہیں آتی اور انٹرویو کے لیے بلایا جائے تو محض خانہ پری کے لیے۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے کیونکہ جو لوگ شفاف انتخابات کی بات کرتے ہیں انھیں پھر خود بھی شفاف طریقے سے ملک کے نوجوانوں کو ملازمتیں میرٹ پر دینی چاہئیں۔

بے روزگاری جرائم کو بھی جنم دیتی ہے، لہٰذا روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی جانب بھی ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ مڈل ایسٹ وغیرہ میں ملازمتوں کے لیے معاہدے کرکے نوجوانوں کو ملک سے باہر بھیجا جاسکتا ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوگا۔ کراچی کا علاقہ لیاری جرائم کا ایک بڑا گڑھ ہے، اگر یہاں کے نوجوانوں کو مڈل ایسٹ وغیرہ میں ملازمتیں فراہم کردی جائیں تو یہاں سے جاری جرائم کا منبع ختم ہوسکے گا۔بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ایک جانب عوام کے سکون کو برباد کرنے کا ہے تو دوسری جانب لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو بے روزگار کرنے کا بھی باعث بنا ہوا ہے۔ اگر ترجیحی بنیادوں پر اس مسئلے کو حل کیا جائے اور ساتھ ہی پٹرول اور دیگر اشیا پر بھاری غیر منصفانہ ٹیکس ختم کیا جائے تو اس عمل سے مہنگائی کے طوفان میں خاصی کمی آئے گی۔

جنرل ٹیکس کا فیصلہ بھی غیر منصفانہ تھا جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ اشیا تیار کرنے والوں پر عائد کیا جارہا ہے عوام پر نہیں لیکن عوام نے دیکھا کہ ہر شے کے پیکٹ پر درج قیمت میں پلس کرکے اس 16 فیصد ٹیکس کو دھڑلے سے شامل کردیا گیا اور سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا۔ نواز شریف نے اپنے آخری دور میں اس ٹیکس کے نفاذ کے خلاف دباؤ قبول کرتے ہوئے اسے لاگو کرنے سے روکے رکھا۔ آج نواز شریف اس ٹیکس کو ختم کرسکتے ہیں۔ ہر حکومت کا بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ ٹیکس کم یا ختم کردے تو پھر ملکی بجٹ کیسے بنائے گی؟ ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد صدیقی اس سلسلے میں کئی اہم تجاویز رکھتے ہیں اور کئی بار کھلے عام اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کی خاطر، اس عوام کی خاطر جس کے لیے شیر اور بلے وغیرہ دکھا کر دھواں دھار وعدے کیے گئے تھے، ڈاکٹر شاہد عزیز صدیقی جیسے لوگوں سے بھی عوام کی بہتری کے لیے رائے لی جائے اور تمام جماعتیں اپنی انا اور اختلاف رائے کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف عوام کے لیے کام کریں ورنہ ''نیا پاکستان'' یا نیا جمہوری دور عوام کے دلوں میں کبھی جگہ نہ بناسکے گا کیونکہ عوام اب تقریر نہیں ''عمل'' چاہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔