دامن کو ذرا دیکھ ذرا…

یہ حقیقت ہے کہ 11 مئی کو بھی لوگ توقع اور امید سے بڑھ کر گھر سے باہر نکلے اور اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔


نجمہ عالم May 24, 2013

گزشتہ کئی ماہ سے انتخابات کا چرچا رہا۔ ہر لکھنے والا اپنے اپنے زاویے اور انداز سے انتخابی مہم، متوقع نتائج، انتخابات کی شفافیت، الیکشن کمیشن کا کردار، سیاسی جماعتوں کی کارکردگی و ذمے داری اور ووٹرز کو متحرک کرنے کے بارے میں لکھتا رہا اور چینلز پر کہتا رہا۔ اس بہتی گنگا میں ہم نے بھی کئی بار ہاتھ دھونے کی کوشش کرکے اپنی بقراطیت کا اظہار کیا۔ مگر جب 11 مئی گزر گئی انتخابات کا بخار ٹوٹنے کی بجائے سرسامی کیفیت اختیار کرگیا۔ نتائج آنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک میں امن وامان اور سکون کی فضا قائم ہوجاتی۔ نتائج کو کھلے دل سے قبول کرکے آیندہ کے لیے نئے جذبے کے ساتھ نئی امیدیں وابستہ کی جاتیں، مگر ایسا ہونے کے بجائے پورے ملک میں قبل از انتخابات سے بھی زیادہ گرما گرمی نظر آرہی ہے۔ مبینہ بدعنوانیوں اور نتائج کی شفافیت کے سلسلے میں انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ 11 مئی کو بھی لوگ توقع اور امید سے بڑھ کر گھر سے باہر نکلے اور اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اپنے ضمیر کے مطابق یا کسی اشارے کے تحت؟ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ بہرحال انتخابات مکمل ہوکر بھی مکمل نہ ہوسکے اور احتجاج و دھرنوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہوگیا۔ ہر ہارنے والا جیتنے والے پر دھاندلی بدعنوانی کا الزام لگا کر خود کو مظلوم ہی نہیں بلکہ معصوم بھی ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ لکھنے والوں نے انتخابات کے بعد کی صورت حال اور سیاسی مستقبل کے بارے میں کئی امیدوں اور اندیشوں پر لکھا متوقع وغیر متوقع نتائج پر اظہار خیال کیا، مگر ہم اس دوران کچھ اس صورت حال سے دوچار رہے کہ ''ہم سنتے رہے، پڑھتے رہے ہم ہنس دیے ہم چپ رہے... بالآخر کفر ٹوٹا خداخدا کرکے''کے مصداق ہم نے بھی قلم اٹھایا انتخابات سے قبل اور بعد کے مختلف سیاستدانوں، لیڈروں کے خطابات ، الزامات، بیانات پر نظر ڈالی (جنھیں اس کی سہولت حاصل تھی)۔

مختلف اخبارات کے مطالعے اور ٹی وی ٹاک شوز سن کر انتخابات سے قبل ہی ہماری محدود عقل میں یہ بات سما چکی تھی کہ انتخابات صرف صوبہ پنجاب میں ہورہے ہیں اور صرف دو سیاسی پارٹیاں اس میں حصہ لے رہی ہیں۔ کبھی کبھار کوئی گرم یا سرد خبر یا بیان ایسا بھی نظر سے گزرا کہ جس سے احساس ہوتا کہ شاید باقی تین صوبوں میں بھی کچھ انتخابی گڑبڑ ہے ضرور اور ان دو پارٹیوں کے علاوہ دیگر کچھ دوسری سر پھری جماعتیں بھی ان انتخابات میں مداخلت کرنے کی کوشش ناکام کر رہی ہیں سو یہ مسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہ تھا کیونکہ وطن عزیز میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا روشن خیال، مذہبی رواداری اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا سب صوبوں کا راجہ تو یہی صوبہ ہے۔ باقی تو سب... لہٰذا قدرتی بات تھی سارا سیاسی معرکہ اسی سرزمین پر ہو۔ اور ہوا پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا۔ عمران خان کی یوتھ پرستی کے پرچار کے علاوہ (ن) لیگ کے لیے جارحانہ رویہ اس انتخابی مہم کی جان رہا۔

انتخابی مہم کے دوران ان کے کئی فقرے بچے بچے کو گویا رٹ گئے تھے ایک تو بلے سے سب کو بطور خاص ''شیر'' کو پھینٹیاں لگانا اور دوسرا ''اوپر اللہ، نیچے بلا'' والا ...مگر پوری مہم جوئی میں پی ٹی آئی کے رہنما نے ''اوپر اللہ'' کو فراموش کرکے صرف بلے پر یقین و بھروسہ کیا اور بعض اوقات ایسے ایسے متکبرانہ جملے بول گئے جو اوپر والے کو بھولنے والے بے شک بھول جائیں مگر وہ اپنے بندوں سے کسی بھی لمحے بے خبر نہیں رہتا اور جب اس نے تکبر کو معاف نہ کرنے کے بارے میں فرمادیا تو بس فرما دیا... عمران خان صاحب نے ایک سے زیادہ بار اپنے وزیر اعظم بننے کے بارے میں پورے وثوق و اعتماد کے ساتھ اظہار فرماتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ''میں وزیر اعظم بن کر صدر زرداری کے سامنے حلف نہیں اٹھاؤں گا...اللہ رب العزت کو یہ تکبر پسند نہ آیا اور خود پر مکمل بھروسہ اور اعتماد کے باوجود وہ اس منزل مراد تک نہ پہنچ سکے (بقول ان کے ہوسکتا ہے ان کو واقعی مختلف ہتھکنڈوں سے منزل سے دور رکھا گیا ہو)اور وہ بستر علالت پر دراز ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ تو بے شک بڑا مہربان، رحمٰن و رحیم ہے اسے تکبر پر صرف یہی اشارہ دیا ورنہ تو ''جان دی دی ہوئی اسی کی تھی'' والی صورت حال بھی (خدانخواستہ) پیش آسکتی تھی۔ مگر وہ تو اپنے خطاکار بندوں پر بھی ہمیشہ نظر رحمت ہی رکھتا ہے۔ پوری انتخابی مہم کے دوران موصوف کے خطابات کا انداز بتاتا ہے کہ ؎

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

حضرت علی کرم اللہ کا زریں قول ہے ''میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے ربّ کو پہچانا'' سو اب شاید عمران خان بھی پہچان گئے ہوں گے کہ انسان جو منصوبے اپنے دل میں بنالے ضروری نہیں کہ وہ مکمل بھی ہوجائیں کیونکہ اصل منصوبے تو اوپر بنتے ہیں۔بہرحال اس معمولی سرزنش کے بعد عمران خان صاحب کو اپنے انداز گفتگو پر معذرتانہ اندازہ اپنا لینا چاہیے تھا مگر افسوس ایسا ہوا نہیں۔ بارگاہ ربّ العزت میں جان بچ جانے پر سوائے شکر کے اور کوئی حرف ان کے لبوں پر زیب نہ دیتا۔ مگر انھوں نے اسپتال پہنچنے کے بعد پہلے ہی بیان میں اپنے مداحوں کے علاوہ تمام اہل وطن سے ووٹ کی دردمندانہ اپیل کی اور... ووٹ حاصل کرنے کی پوری کوشش کی۔ ''اے بسا آرزو کہ خاک شدی'' اپنی پہلی ہی پرواز کی شاندار کامیابی کو شکست تصور کرکے اس کا الزام دوسروں کے سر تھوپ کر بے چارے عوام کو گرمی اور دھوپ میں سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کردیا۔ پہلے انھوں نے الیکشن کمیشن، نگراں حکومت کسی پر کوئی اعتراض یا الزام نہیں لگایا کیونکہ اگر وہ مسلم لیگ (ن) والے نتائج حاصل کرلیتے تو سب کچھ ٹھیک ہوجاتا۔

پی ٹی آئی کے رہنما نے پوری انتخابی مہم میں ماشاء اللہ بعض اوقات ایک دن میں چھ چھ جلسوں سے پرجوش خطاب فرمایا۔ مگر کبھی دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے کارکنان اور امیدواروں کے قتل پر مزحمتی بیان دیا نہ اظہار افسوس کیا ۔ دوسری جانب اس اخلاقی مظاہرے کا ردعمل یہ ہوا کہ ملک کو چھوڑ کر کراچی کے مینڈیٹ کو نشانہ تنقید بنایا جارہا ہے۔ پورے کراچی اور حیدر آباد میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو کراچی تو ان کے لیے اس لائق بھی نہ تھا کہ یہاں آکر ایک جلسہ یا کوئی کارنر میٹنگ ہی کرلی جاتی چند لمحوں کو آئے ضرور مگر فوراً ہی تشریف بھی لے گئے۔ کراچی کے نوجوانوں کو بے بنیاد اور غیر حقیقی خواب دکھا کر جنون پیدا کرنے میں کچھ کامیاب تو ہوئے لیکن کراچی کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ تک بنانا گوارہ نہ کیا۔

کراچی کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی... اگر باقی تمام سیاسی جماعتیں این اے 250 پر دوبارہ انتخابات کا بائیکاٹ کرتیں تو یہ سیٹ ان کو کبھی بھی نہ ملتی کیونکہ کسی کے بھی مقابلے پر نہ ہونے کے باوجود علوی صاحب نے جو ووٹ حاصل کیے ہیں اگر پنجاب میں ایم کیو ایم کے امیدواروں کے کل ووٹروں کو جمع کیا جائے تو کم و بیش اتنا مینڈیٹ تو انھوں نے بھی حاصل کرلیا ہے۔شکست خلاف توقع پی ٹی آئی کو پنجاب میں ہوئی ہے اور غصہ وہ کراچی پر نکال رہے ہیں۔ کچھ پانے کی خاطر وہ نواز لیگ سے تو سب گلے شکوے بھول گئے۔ جو جو تمسخر وہ ان کا اپنے خطابات میں اڑاتے رہے وہ بھی بھول گئے۔ اور جس پارٹی سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا اس کے خلاف اس حد تک پہنچ گئے کہ اپنی پارٹی کی ایک رکن کے قتل کا براہ راست الزام الطاف حسین پر بلاثبوت بلا تحقیق عائد کردیا۔ یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ عمران خان صرف اور صرف اقتدار چاہتے تھے جو نہ ملا تو آپے سے باہر ہوگئے۔ جب کہ ایم کیو ایم نے کبھی اقتدار کے لیے سیاست نہیں کی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔