کھیلوں کا فروغ حکومت کی ترجیحات میں ہونا چاہئے

 9گنیز ورلڈ ریکارڈ بنانے والے نوجوان فرحان ایوب سے گفتگو


ذیشان محمد بیگ August 26, 2018
 9گنیز ورلڈ ریکارڈ بنانے والے نوجوان فرحان ایوب سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

''میرے والد واپڈا میں تھے اور ان کی وفات اس وقت ہوگئی تھی جب میں دو ماہ کا تھا۔ مجھے اور میرے بڑے بھائی کو میری والدہ نے، جو ایک گھریلو خاتون تھیں، انتہائی نامساعد حالات میں پالا۔ ہم اپنے نانا کے ساتھ رہتے تھے جن کو ایک ہزار روپے پنشن ملتی تھی اور اس میں ہم چار لوگ گزارا کرتے تھے۔ میں نے بہت غربت دیکھی ہے اسی لیے میری زندگی کا یہ مشن ہے کہ میں اپنے ملک کے غریبوں کی غربت ختم کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کرکے ان کی زندگیوں کے اندھیرے اجالوں میں تبدیل کرنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کردوں''۔

اس نوجوان کی آنکھوں میں محرومی اور امید کا عجیب سا امتزاج دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن ان میں عزم و ہمت کا رنگ نمایاں تھا اور وہ چمک عیاں تھی جو سوچ کو عمل میں ڈھال دیتی ہے۔

یہ تذکرہ ہے یکم فروری 1993ء کو ملتان میں پیدا ہونے والے فرحان ایوب سے ملاقات کا جنھوں نے 9 ورلڈ ریکارڈز بناکر اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل کروایا اور دنیا میں پاکستان کا پرچم سربلند کیا۔

لاہور کی مقامی یونیورسٹی میں میڈیا اسٹڈیز کے B.S پروگرام کے طالب علم نے اپنی ابتدائی زندگی کے جو حالات بتائے انہیں سن کر ہی یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اس نوجوان کے اندر حالات میں تبدیلی لانے، ان سے لڑنے اور کچھ کر گزرنے کی ہمت اور جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ MBA پاس بڑے بھائی کی اپنے والد صاحب کی جگہ واپڈا میں نوکری کروانے اور پھر اپنی فیملی کو ملتان سے لاہور منتقل کرکے ان کے لیے سرکاری رہائش گاہ کے حصول جیسے کاموں کی ذمہ داری باحسن و خوبی نبھا کر اس نے ثابت کیا کہ وہ اپنی سوچوں کو عملی جامہ پہنانے کا اہل ہے۔

9 ورلڈ ریکارڈز بنانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے فرحان ماضی میں کھو سے گئے۔ یادوں کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ بچپن سے ہی اپنے اور اپنے ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ غربت نے ان کے ارادے کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی مگر شکست کھائی۔ محض سات سال کی عمر میں انہوں نے مارشل آرٹ کی تربیت شروع کی اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے ناکسی کو اپنا استاد بنایا اور نا ہی کوئی اکیڈمی جوائن کی۔ اس بارے میں ان کا ماننا یہ ہے کہ انسان کو خدا کی طرف سے جو صلاحتیں ودیعت کی جاتی ہیں ان کے بل بوتے پر وہ ان کو جلا بخشنے کا کام بھی از خود سرانجام دے سکتا ہے۔

ان کے خیال میں آج کے دور میں اچھا اور مخلص استاد ملنا بھی ایک کار دشوار ہے۔ جن لوگوں نے اکیڈمیاں بنائی ہوئی ہیں ان میں سے زیادہ تر کے نزدیک وہ بس پیسہ بنانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ فرحان چونکہ اپنے حالات کی وجہ سے ان اکیڈمیوں کی فیسیں دینے سے قاصر تھے اس لیے انہوں نے ابتدائی عمر سے ہی خود اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مارشل آرٹ کی پرکٹس شروع کردی۔ بعدازاں انہوں نے بروس لی، محمد علی اور ان جیسے دوسرے لیجنڈز کی تھیوریز اور فلاسفی کو بغور پڑھ اور سمجھ کر ان سے بھر پور استفادہ کیا اور فری سٹائل مارشل آرٹ میں دسترس حاصل کی، جو بقول ان کے، خود ان ہی کی ایجاد ہے۔ وہ بتانے لگے کہ جسمانی فٹنس کے لیے ''جم'' جوائن کرنے کی مالی استطاعت نہ ہونے کے سبب وہ گھر میں ہی چار پائیوں اور کرسیوں کو ورزش کی مشینوں کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے تھے اور لوگوں کے مذاق اڑانے کے باوجود اپنے جنون کو مہمیز کرتے رہے۔

2012ء میں انھوں نے اخبار میں پڑھا کہ پنجاب یوتھ فیسٹیول کے تحت لاہور میں گنیز بک ورلڈ ریکارڈز بریک کرنے کے مقابلے منعقد ہوں گے۔ ریکارڈز کی فہرست میں دیئے گئے ایک سٹیپ جسے ''ہینڈڈ کپ اپس'' (Handed Kip Ups)کہتے ہیں، کے بارے میں انھیں محسوس ہوا کہ یہ وہ بھی کر سکتے ہیں۔ سو انھوں نے اس میں اپلائی کر دیا۔ اس اسٹیپ کا سابقہ ریکارڈ 22 ''کپ اپس'' کا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ''مجھے اپنے اوپر اعتماد تھا کہ میں یہ ریکارڈ توڑ سکتا ہوں کیونکہ میںگھر میں، اپنے طور پر 30 تک ''کپ اپس'' کرچکا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت پنجاب نے مجھے اس ایونٹ میں موقع نہیں دیا اور جن لوگوں کو موقع دیا گیا وہ یہ ریکارڈ بریک نہ کرسکے۔

2013ء میں بھی مجھے حکومت کی طرف سے موقع نہ مل سکا۔ بالآخر 2014ء میں مجھے موقع دیا گیا اور میں ملتان سے پہلی بار لاہور آیا اور 26 فروری 2014ء کو میں نے ایک منٹ میں 34 ''کپ اپس'' کرکے یہ ریکارڈ بریک کردیا۔ اس سے قبل یہ اعزاز 2008ء سے انگلینڈ کے پاس تھا۔ اس کے بعد اگلے تین سال تک حکومت نے یوتھ فیسٹیول منعقد نہیں کروائے۔ اگر ان کا انعقاد تسلسل کے ساتھ کیا جاتا رہتا تو مجھے امید ہے کہ میں مزید بہت سے ریکارڈ بریک کرتا۔ ان تین سالوں میں مجھے کوئی اور ایسا پلیٹ فارم میسر نہ آسکا جہاں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرسکتا۔

اس دوران میں پیسے جمع کرتا رہا اور پھر 2017ء میں میں نے زمان پارک لاہور میں عمران خان کے بھانجوں اور ان کے والد جو عمران خان کے کزن بھی ہیں، سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس سلسلے میں میری مدد کریں۔ انہوں نے مہربانی کی اور تمام انتظامات کا اہتمام کرکے مجھے موقع مہیا کیا۔ وہاں 15 مارچ 2017ء کو میں نے ایک منٹ میں 25 ''نو ہینڈڈ کپ اپس'' (No Handed Kip Ups) کرکے 20 ''نو ہینڈڈ کپ اپس'' کا انگلینڈ کا سابقہ ریکارڈ توڑ دیا۔ اس سٹیپ میں زمین پر لیٹ کر محض اپنے سر کے زور پر اپنا جسم اچھال کر اٹھنا ہوتا ہے۔ اس ریکارڈ کو بریک کرنے کا ٹارگٹ گنیز ورلڈ ریکارڈ کے ذمہ داران کی جانب سے سیٹ کیا گیا تھا۔

اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور عمران خان فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام میں نے دو مزید گنیز ورلڈ ریکارڈ بریک کیے جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ایک سٹیپ میں گالف کی زیادہ سے زیادہ گیندیں ایک منٹ مین صرف ایک پاؤں سے 10 میٹرز کے فاصلے تک اٹھا کر ٹوکری میں ڈالنا ہوتی ہیں۔ میں نے جاپان کا 2013ء میں بنایا گیا اس کا ریکارڈ توڑا اور 11 کے مقابلے میں 12 گیندیں پاؤں سے ٹوکری میں ڈال کر 6 ستمبر 2017ء کو نیا ریکارڈ بنا دیا۔

اسی دن 2 افراد کی ٹیم ایونٹ کے طور پر پاؤں سے گالف کی گیندیں ٹوکری میں ڈالنے کا ریکارڈ جو گنیز ورلڈ ریکارڈ کے ذمہ داران کی طرف سے ٹارگٹ کے طور پر سیٹ کیا گیا تھا ، 5 کے مقابلے میں 7گیندیں ٹوکری میں ڈال کر بریک کیا۔ یہ ریکارڈ بھی پہلے جاپان کے پاس تھا۔ یہ مشکل کام بظاہر آسان لگتا ہے لیکن اس کے لیے بہت پریکٹس کرنی پڑتی ہے۔ ان ریکارڈز کو بریک کرنے کے بعد پھر کچھ عرصے کا گیپ آیا کیونکہ عمران خان فاؤنڈیشن کے پاس بھی فنڈ کی کمی تھی''۔

2018ء میں انھیں لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی نے ٹیلنٹ بیس پروگرام کے تحت داخلے کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول کرلی۔ اس وقت ان کے پاس گنیز ورلڈ کے 4 ریکارڈز موجود تھے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی آفر میں ناصرف انھیں مزید ریکارڈز بریک کرنے کی تیاریوں کے لیے تمام تر سہولیات کی فراہمی بلکہ ریکارڈ بریک کرنے کے لیے آنے والے تمام تر اخراجات بھی برداشت کرنے کی یقین دھانی شامل تھی۔ یوں ان کا داخلہ اس یونیورسٹی کے میڈیا اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں ہوگیا اور انھوں نے یونیورسٹی کے ''جم'' میں فٹنس اور دیگر ریکارڈز بریک کرنے کے لیے تیاریوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ اب وہ وہاں پڑھ بھی رہے ہیں اور اسی دوران اب تک انھوں نے 5 ریکارڈز بھی مزید بریک کیے ہیں۔

ان 5 ریکارڈز کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرا پانچواں ریکارڈ بھی ''ہینڈڈ کپ اپس'' کا ہی ہے جو 20 اکتوبر 2017ء کو ایک منٹ میں37 ''کپ اپس'' کے ساتھ بھارت کے پاس تھا (پہلے یہ ریکارڈ34 کے ساتھ میرا تھا، جسے بھارت نے 37 سے توڑا) اور پھر 22 فروری 2018ء کو جرمنی نے برابر کیا۔ وہ میں نے 2 اپریل 2018ء کو 39 ''کپ اپس'' کے ساتھ توڑ دیا۔ چھٹا ریکارڈ جو 30 سیکنڈز میں 32 ''ہیلی کاپٹر سپنز'' (Helicopter Spins)کا 15 جولائی 2016ء سے اٹلی کے پاس تھا، 1 اپریل 2010ء کو بھارت نے 34 کے ساتھ توڑا۔ اسے میں نے اگلے ہی دن یعنی 2 اپریل 2018ء کو 39 کے ساتھ بریک کیا۔ ''ہیلی کاپٹر سپنز'' میں ٹانگوں کو ہیلی کاپٹر کے پنکھوں کی طرح گھومانا ہوتا ہے۔

''سپون ٹوئسٹنگ'' (Spoon Twisting) کے مقابلے دیکھنے کے بعد مجھے لگا کہ یہ میں بھی کرسکتا ہوں۔ اس میں 9 انچ کے خاص قسم کے چمچے 180ڈگری تک موڑنے ہوتے ہیں۔ پہلی دفعہ جب میں نے چمچہ موڑا تو میرے ہاتھ میں درد ہوگیا مگر بعد میں مقابلے کی ویڈیوز دیکھ دیکھ کر میں نے اس کی تکنیک سمجھ لی اور پھر اس کی پریکٹس کی۔ جس شخص نے یہ ریکارڈ بنایا تھا اس کے دوسرے ریکارڈز کی تعداد 500 ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پانچ چھ ماہ تک پریکٹس کرنے اور بہت سے چمچے استعمال کرنے کے بعد میں نے یہ ریکارڈ بریک کیا۔ میرا ساتواں ریکارڈ اسی سے متعلق ہے۔

ایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ ''سپون ٹوئسٹنگ'' کا ریکارڈ 17جنوری 2013ء کو امریکہ کے پاس 14 چمچے موڑنے کا تھا جو میں نے 23 کے ساتھ 2 اپریل 2018ء کو بریک کیا۔ میرا آٹھواں ریکارڈ گالف کی گیندیں پاؤں کے ساتھ ٹوکری میں ڈالنے کا دو افراد کی ٹیم ایونٹ کے طور پر تھا۔ میں اور میرے بھائی، عثمان ایوب نے ہی قبل ازیں 6 ستمبر 2017ء کو یہ ریکارڈ بنایا تھا، جسے پھر 7 کے مقابلے میں 9 سے 2 اپریل 2018ء کو دوبارہ بریک کیا اور نواں ریکارڈ بھی ٹیم ایونٹ تھا جو میں نے اپنے بھائی کے ساتھ ہی مل کر کیا۔ یہ گنیز کا سیٹ ٹارگٹ تھا جس میں 3 منٹ میں پانی بھرے غباروں کو سر سے ہٹ کرنا تھا۔ یہ ریکارڈ 15 اپریل 2018 کو 60 کے مقابلے میں 88 سے بریک کیا۔ اب میرا ارادہ ہے کہ اگلے 5 تا 6 ماہ میں مزید 5 سے 6 ریکارڈ بریک کروں گا۔ انشاء اللہ

فرحان ایوب جو پڑھائی میں بھی میں ایک اچھے طالب علم ہیں، نے اپنے مستقبل کے عزائم کے حوالے سے سیاست میں آنے کے ارادے کا بھی اظہار کیا۔ ان کے خیال میںکیونکہ انھوں نے خود بچپن سے بہت غربت دیکھی ہے اس لیے وہ غریبوں کا دکھ درد صحیح طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ سیاست میں آنے کے لحاظ سے بھی وہ انفرادیت پسند ہیں اور کسی پارٹی کو سپورٹ نہیں کرتے۔ اپنی اکیڈمی بنانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ''اگر وسائل نے اجازت دی تو نوجوانوں کو مفت راہنمائی فراہم کروں گا۔ نوجوانوں کے لیے پیغام دیتے ہوئے انھوں نے کہا ''کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اندر صلاحیت ہے اور آپ اپنے ملک کے لیے کچھ کرسکتے ہیں تو پھر کسی تنقید اور حوصلہ شکنی کی پروا نہ کریں۔ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور اپنے اوپر بھروسہ کریں۔ کامیابی بالآخر آپ کے قدم چومے گی''

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں