سو بار ان کے قدموں میں ہم نے سر جھکایا
اپوزیشن نے بھی، جو انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا رہی تھی، اب خاموشی اختیارکرلی ہے۔
اس سے قبل میرے کالموں میں میری یہ پیش گوئی غلط ثابت ہوئی کہ عمران خان کے لیے مخلوط حکومت بنانا مشکل ہوگا، وہ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے کثیرالجماعتی اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، مگر اکثریت حاصل کرنے کے لیے انھیں خود کوگرانا اور ان متعدد اصولوں کی پاسداری سے پیچھے ہٹنا پڑا، جن کو وہ اپنی مختلف تقریروں میں مقدم رکھتے تھے۔ وہ اپنی تقریروں میں آزاد امیدواروں کو بکائو مال قرار دے کر ان پر لعن طعن کرتے تھے اور اب انھیں اپنی مخلوط حکومت کے لیے انھی آزاد امیدواروں کو خریدنا پڑا۔
انھیں گجرات کے چوہدریوں کے معاملے میں بھی اپنی بات سے پیچھے ہٹنا اور ان کے ساتھ ہاتھ ملانا پڑا ، جنھیں قبول کرنے سے انھوں نے اس وقت انکار کر دیا تھا جب جنرل (ریٹائرڈ) مشرف نے انھیں چوہدری شجاعت کی قیادت میں مخلوط حکومت میں شامل ہونے کے لیے کہا تھا ۔انھوں نے ایم کیو ایم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے ہی الفاظ کو لات مار دی اور بھول گئے کہ وہ اسے جرائم پیشہ لوگوں کی جماعت کہتے تھے اور اپنی پارٹی کی لیڈر زہرہ شاہد کے قتل کا الزام انھی لوگوں پر لگایا تھا۔
انھوں نے2018 کے انتخابات کو انجنیئرڈ کرنے کے لیے اردگرد سے مدد بھی حاصل کی ۔ یہ سب کچھ ان کے ان جمہوری اصولوں کی خاطر کیا گیا جن کی تعریفوں کے پل اب میڈیا کے بعض افراد کی طرف سے باندھے جا رہے ہیں۔
اپوزیشن نے بھی، جو انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا رہی تھی، اب خاموشی اختیارکرلی ہے اور فیصلہ کرلیا ہے کہ جمہوریت کی کشتی کو ڈوبنے نہیں دیا جائے گا، جو اس مملکت خداداد پاکستان میں ہمیشہ ہچکولے کھاتی رہی ہے۔اس ملک میں جمہوریت ہمیشہ ایک نازک پودا رہا ہے۔
چونکہ پی ٹی آئی کی زیر قیادت مخلوط حکومت میں متعدد شراکت دار ہیں، اس لیے یہ ایک پابند جمہوریت (کنٹرولڈ ڈیموکریسی) کو چلانے کے لیے مقتدر دوستوں کو اپنی مرضی سے ڈور ہلانے کا موقع دے گی۔جیسے ہی عمران خان خود کو سنجیدگی سے وزیر اعظم سمجھنے لگیں گے اور ان معاملات میں مداخلت کریں گے ، جن کا فیصلہ صرف مقتدر دوست کرتے ہیں،انھیں اپنے اتحادی شراکت داروں کی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑے گا اور انھیں محسوس ہوگا کہ وہ ایک کمزور مخلوط حکومت کی سر براہی کررہے ہیں۔
پاکستان کے عوام، ملک کے وجود میںآنے کے وقت سے ہی غیر مستحکم سیاسی حالات میں رہے ہیں ۔ یہ صورت حال اس بنیادی سوال کو جنم دیتی ہے کہ '' پاکستان میں جمہوریت اتنی کمزورکیوں ہے؟''
ہم نے دیکھا کہ نواز حکومت حلف اٹھانے کے بعد15 مہینوں کے اندر حکومت کے خلاف عمران خان کی تحریک اور ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے انقلاب کی متوازی کال میں سول ملٹری تنائو پرقابو پانے کی کوشش میں الجھ گئی۔ یہ صورت حال اس سوال کو اور زیادہ قابل توجہ اور فوری نوعیت کا حامل بنا دیتی ہے۔
ہم یہاں ان کئی عوامل کا مختصر جائزہ لیتے ہیں جوکسی ملک کا سیاسی ، سماجی اور معاشی راستہ متعین کرتے ہیں ۔ دو قومی نظریہ جو بیسویں صدی میں ارتقا پذیر ہوا، ایک کمزور دلیل تھی ۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ مسلمانوں نے ہندوستان کی چھوٹی اقلیت ہونے کے باوجود برصغیر کے بیشتر حصے پر ساڑھے چھ سو سال تک حکمرانی کی اورکبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ ایک علیحدہ قوم ہیں، پھرکس طرح ہندوستانی مسلمانوں کی کھوئی ہوئی یاد داشت ٹھیک ہوگئی اور انھوں نے یہ سمجھنا شروع کردیا کہ وہ ایک الگ قوم ہیں؟
اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جب20 ویں صدی کے اوائل میں برطانیہ نے اقتدار مقامی لوگوں کو سونپنے کا سوچا ، جس کی بنیاد جمہوری اصولوں پر تھی تو مسلمانوں نے اقلیت ہونے کی حیثیت سے '' ہندو اکثریتی حکمرانی'' کا خوف محسوس کرنا شروع کر دیا۔
تحریک پاکستان کے دوران بنیادی مطالبات ، نوعیت کے اعتبار سے سیکولر تھے۔ یعنی، مسلم اقلیتی صوبوں میں ملازمتوں اور اسمبلیوں میں زیادہ حصہ اور مسلم اکثریتی علاقوں کے لیے زیادہ خود مختاری ۔ بعد میں یہ مطالبات بڑھ کر ''مسلمان قوم '' کے لیے علیحدہ وطن میں تبدیل ہوگئے۔جواہر لعل نہروکی قیادت میں کانگریس اس پر تیار نہیں تھی اور اپنی بھرپور اکثریتی طاقت کی بنیاد پر ایک مضبوط مرکزی حکومت چاہتی تھی ۔ چنانچہ غیر محفوظ مسلم اقلیت کو یقین نہیں تھا کہ جمہوری نظام ، جو سیکولر تھا ، ان کے مفادات کا تحفظ کرپائے گا۔
اس کے بعد1970-71 میں جب مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے جو ملک کی56 فیصد آبادی کی نمایندگی کرتی تھی،انتخابات میں بھرپورکامیابی حاصل کر لی اور اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی تو پاکستانی مقتدر طبقہ جمہوریت سے بھاگ گیا ۔ نیشنل عوامی پارٹی کی طرف سے بھی ، جسے شمال مغربی صوبہ سرحد( اب خیبر پختونخوا ) اور بلوچستان میں اکثریت حاصل تھی،عوامی لیگ کے مطالبات کی حمایت کی گئی ۔ مقتدر دوستوں نے اس بات کو قبول نہیں کیا کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کی حمایت سے ایک ایسا آئین بنانے کا حق حاصل ہے جس سے صوبوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خود مختاری کی راہ ہموار ہو۔
پہلے گیارہ سالوں میں سات حکومتیں آئیں، اس عرصے میں پہلے وزیر اعظم کا قتل ،گورنر جنرلز کے ہاتھوں حکومتوں کی برطرفی، جبری استعفیٰ اور سیاست دانوں کے خلاف بیوروکریسی کی لطیف بغاوت (soft coup) شامل ہے۔
قیام کے بعد 71 سالوں میں پاکستان پر 33 سال تک براہ راست تین غیر جمہوری حکومتیں حکمرانی کرتی رہیں ، جو لگ بھگ نصف عرصہ بنتا ہے۔میں ان نقلی جمہوری حکومتوں کو شمار نہیں کر رہا جو 1985 میں جنرل ضیا اور 2002 میں جنرل مشرف نے قائم کی تھیں،کیونکہ یہ'' ضیا حکومت'' اور'' مشرف'' حکومت کی حیثیت سے ریکارڈ پر ہیں۔
اگر ہم اس صورت حال کا تجزیہ کریں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں33 سال غیر جمہوری حکومتیں رہیں اور تقریباً دو سال تک کئی عبوری حکومتیں آتی جاتی رہیں۔ باقی36 سالوں میں ملک میں 14 سیاسی حکومتیں قائم ہوئیں،جن میں سے صرف ذوالفقار علی بھٹو،آصف زرداری اور پاکستان مسلم لیگ(ن)کی حکومتوں نے اپنی پانچ سال کی مدت پوری کی، مگر کوئی بھی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ میعاد پوری نہ کرسکا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ 11 سیاسی حکومتیں اوسطاً دو سال بھی قائم نہ رہیں۔ اس قسم کی غیر مستحکم صورت حال میں بھلا کون سا جمہوری نظام کام کرسکتا ہے؟