ہر ظالم نے شور مچایا

قومی اسمبلی سے باہر پورے ملک میں کہیں بھی ایک ٹائر جلا کر چند لوگ احتجاج کرتے نظر نہیں آئے۔


Saeed Parvez August 20, 2018

عمران خان وزیراعظم پاکستان منتخب ہوگئے، قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے جونہی نتیجے کا اعلان کیا، مسلم لیگ (ن) کے ممبران قومی اسمبلی، اسپیکر ڈیسک کے سامنے آگئے اور نعرے بازی شروع کردی۔ قواعد کے مطابق نو منتخب وزیراعظم کو اسمبلی سے خطاب کرنا تھا، مگر شدید نعرے بازی، ہڑبونگ کے باعث ایسا نہیں ہو رہا تھا۔ شہباز شریف، خواجہ آصف، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق و دیگر یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اور خوش تھے۔

قومی اسمبلی سے باہر پورے ملک میں کہیں بھی ایک ٹائر جلا کر چند لوگ احتجاج کرتے نظر نہیں آئے۔ البتہ لنڈی کوتل سے کراچی اور کوئٹہ تک عوام نئے منتخب وزیراعظم کے لیے خوشیاں مناتے نظر آئے۔ مٹھائیاں بٹ رہی تھیں اور ڈھول کی تھاپ پر لوگ بھنگڑے ڈال رہے تھے۔ ادھر قومی اسمبلی میں منتخب وزیراعظم عمران خان نے شوروغل، نعرے بازی، ایجنڈے کے پھاڑے گئے پرزوں تلے اپنا تاریخی خطاب شروع کیا۔ عمران خان نے وہی کچھ کہا جو اس نے بطور وزیراعظم کرنا ہے۔

عمران خان نے کہا ''کوئی ڈاکو نہیں بچ پائے گا، جنھوں نے غریبوں کا پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بھیجا، انھیں میں نہیں چھوڑوں گا۔ غریبوں کا لوٹا گیا پیسہ واپس لاؤں گا۔'' عمران خان نے نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ''میں ملک بھر کے ان نوجوانوں کو نہیں بھولوں گا جن کی وجہ سے میں آج یہاں کھڑا ہوں۔'' اب ذرا سنیں، مہذب، پڑھے لکھے جو دانشور کہلاتے ہیں انھیں عمران خان کی تقریر پر بڑے اعتراضات تھے، وہ کہہ رہے تھے ''موقع محل کے مطابق ایسی تقریر نہیں ہونی چاہیے تھی۔'' غریب تباہ و برباد کر دیے گئے، غریبوں کا پیسہ لوٹ مار کرکے ڈاکو، چور، لٹیرے باہر لے گئے، پلازے، امپائر، بلڈنگیں، اعلیٰ اپارٹمنٹ خرید لیے اور بھی بہت کچھ کر ڈالا اور دانشوری کا تڑکا لگے، ظالموں، لٹیروں کے حاشیہ بردار، کاسہ لیس دانشور کہتے ہیں ''موقع نہیں تھا۔''

ایک جوشیلا ہمت والا، بہادر، نڈر، سر پر کفن باندھے رہنما 1967 میں نمودار ہوا تھا، اس کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا، وہ بھی کہتا تھا ''سب کو فکس کردوں گا۔'' اس نے سہمے ہوئے عوام کو بولنے کا حوصلہ دیا۔ یہ بات درست ہے کہ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہوا۔ ''دشمن'' زیادہ طاقتور نکلا مگر ذوالفقار علی بھٹو کا تاریخی کردار یہ ہے کہ وہ دشمنوں کے سامنے جھکا نہیں اور اس نے پھانسی کے پھندے کو چومتے ہوئے موت کو گلے لگا لیا۔ اپنے اسی لازوال کردار کی وجہ سے بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ عظیم باپ کے رستے پر چلتے ہوئے بے نظیر بھٹو بھی تاریک راہوں میں ماری گئی، بے نظیر نے بھی جان دے دی اور زندگی کو ٹھکرادیا، ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے جیسے آنے والوں کے لیے راستہ آسان کردیتے ہیں، جالب نے کہا تھا:

سچ کی راہوں میں جو مر گئے ہیں

فاصلے مختصر کر گئے ہیں

اور یہ جو ''دانشور'' ٹیلی ویژن میں بیٹھ کر تبصرہ کر رہے ہیں کہ ''موقع نہیں تھا'' تو مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ہے۔ صدر ایوب کا زمانہ تھا، جشن مری کے سالانہ مشاعرے میں، مزاحیہ شاعر شوکت تھانوی، ظریف جبل پوری اپنے کلام سے ''اشرافیہ'' کا دل لبھا چکے، جالب کو اس بات کا غصہ تھا کہ ملک پر اندھیروں کا راج ہے اور شاعر اپنے مزاحیہ، طربیہ، عشقیہ کلام سے اس طبقے کا دل بہلا رہے ہیں، جو غاصب ہیں، تو جالب نے اپنا فیصلہ بدلا اور غزل کے بجائے نظم سنانے کا فیصلہ کرلیا، نظم دستور ہوچکی تھی، جالب نے مائیک پر آکر کہا ''میں نظم دستور پیش کرتا ہوں'' اور جالب شروع ہوگئے، ''دیپ جس کا محلات میں جلے/ چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے/ وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے/ ایسے دستور کو صبح بے نور کو/ میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا''۔

مزاحیہ شاعری کے بعد کوئی بھی شاعر عموماً ٹکتا نہیں اور فیل ہوجاتا ہے۔ اس مشاعرے میں قصداً سازشیوں نے جالب کو مزاحیہ شاعروں کے فوری بعد بلوایا تھا اور جالب نے اپنے عوامی امنگوں والے کلام سے مشاعرہ لوٹ لیا۔ ایک شاعر نے کہا یہ نظم سنانے کا موقع نہیں تھا۔ جالب نے جواب دیا ''میں موقع پرست نہیں ہوں''۔

ایسا ہی سازشانہ ماحول وزیراعظم کے چناؤ والے دن بنایا گیا تھا، عمران خان کی تقریر سے پہلے ایک سو ممبران اسمبلی نے شور شرابا شروع کردیا۔ تب عمران نے اپنی تقریر اور لب و لہجہ بدل لیا مگر عمران نے جو کہا اپنا کہا، وہی کہا جو بطور وزیراعظم وہ کرنے کا پکا ارادہ رکھتا ہے۔

عمران خان کی بطور منتخب وزیراعظم قومی اسمبلی میں تقریر یہی ہونا چاہیے تھی اور اس انقلابی تقریر کا جواز اپوزیشن نے خود فراہم کیا۔ قومی اسمبلی کی تقریر کے بعد عمران نے بنی گالہ سے اعلان کیا ''پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے لیے تحریک انصاف کا امیدوار تونسہ شریف کا عثمان بزدار ہوگا۔ عمران خان کے عہدیداروں پر ذرا غور فرمائیں۔ قومی اسمبلی کا اسپیکر صوابی کا اسد قیصر، ڈپٹی اسپیکر بلوچستان کا قاسم سوری، خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ مانسہرہ، سوات کا محمود خان، خیبرپختونخوا کا گورنر فرمان خان، سندھ کا گورنر عمران اسماعیل اور یقیناً صدر پاکستان کے لیے نامزدگی بھی عوامی ہوئی ہے۔

بات کچھ بھی نہیں ہے۔ ہماری (غریب عوام) منزل بھی ابھی دور ہے، بس عمران خان کی باتوں سے ہم غریب ہاری، مزدور، کسان، متوسط طبقے کے لوگ ذرا دل کو بہلا لیتے ہیں۔ ''کسی ڈاکو کو نہیں چھوڑوں گا، غریبوں کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لاؤں گا'' عمران شاہ نے ایک عام شہری کو مارا پیٹا، تو صوبہ سندھ اسمبلی کے منتخب عمران شاہ کی پارٹی سے بنیادی رکنیت معطل اور انضباطی کمیٹی کا فیصلہ ایک ماہ میں کرنے کا اعلان۔ بس ان باتوں سے ہم غریبوں کا دل بہل جاتا ہے۔ باقی ہم غریب، ہاری، مزدور، کسان، کلرک، چپراسی، ریڑھی بان، تانگہ کوچوان، چھابڑی بان، گٹروں کی صفائی کرنے والے جمعدار، ہماری منزل ابھی دور ہے۔ عمران خان جو باتیں کر رہا ہے، جو اس کے ارادے ہیں وہ ضرور پورے ہوں گے۔ ہم غریب تو چاہیں گے کہ عمران خان ہی اپنے ارادوں میں کامیاب ہوجائے۔ اب تو ہوائیں، فضائیں ہر ایک سے پوچھ رہی ہیں، وہی فیصل آباد کے شاعر نصرت صدیقی کا شعر:

ایک ظلم کرتا ہے، ایک ظلم سہتا ہے

آپ کا تعلق ہے کون سے گھرانے سے

اب تو فیصلہ کن جنگ ہوگی۔ جالب نے بھٹو کے عوامی پروگرام پر کہا تھا:

صدیوں سے گھیراؤ میں ہم تھے

ہمیں بچانے کوئی نہ آیا

کچھ دن ہم نے گھیرا ڈالا

ہر ظالم نے شور مچایا

پھر توڑیں گے ہم زنجیریں

ہر لب کو آزاد کریں گے

آخر کب تک چند گھرانے

لوگوں پر بے داد کریں گے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں