’عیدالاضحی‘ ُسنت ابراہیمی ؑ سے سماجی روایات کی تبدیلی تک

ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو اپنے بچوں کو عید کی خوشیاں بھی نہیں دے سکتے۔


احمد رضوان August 19, 2018
ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو اپنے بچوں کو عید کی خوشیاں بھی نہیں دے سکتے۔ فوٹو: فائل

تہواروں سے انسانی وابستگی قدیم عہد سے چلی آرہی ہے، کسی بھی قوم کی زندگی میں تہواروں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے، تاریخ میں بہت سی اقوام اپنے منفرد اور عظیم الشان تہواروں کی وجہ سے ہی پہچانی جاتی رہی ہیں۔

نئے موسموں کی آمد یا مخصوص مہینوں سے جڑے تہوار اپنے دامن میں اتنی خوشیاں اور مسرتیں لیے ہوتے ہیں کہ لوگ سال بھر ان کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ یوں بھی تہوار کا دن کسی بھی سماج کیلئے وہ تحفہ ہوتا ہے جو سال بھر کی روکھی پھیکی مصروفیات کے بعد میسر آتا ہے، خوشی لوگوں کے چہروں سے پھوٹ رہی ہوتی ہے' ہر چہرہ گلنار اور دمکتا ہوا نظر آتا ہے، گھر، گلیاں اور بازار لوگوں کی مترنم اور مسرت آمیز آوازوں سے گونج اٹھتے ہیں، بچے اپنے معصوم چہروں کے ساتھ اٹھلاتے پھرتے ہیں، تہواروں کے دن کی دھوپ دیر تک یادداشتوں میں سائے کی طرح چپکتی رہتی ہے، خوشی اور مسرت سے ہمکنار تہواروں سے انسانی وابستگی آج بھی اسی طرح ہے، جیسے قدیم ادوار میں ہوا کرتی تھی۔

دیگر اقوام عالم کی طرح مسلمان بھی اپنے تمام تر اسلامی تہوار انتہائی جوش و جذبے سے مناتے ہیں، عیدالفطر اور عیدالاضحی مسلم امہ کے دو بڑے تہوار ہیں، ان دونوں تہواروں کا تعلق اسلام کے بنیادی ارکان روزہ اور حج سے ہے، ماہ رمضان کے بعد مسلمانوں کو عیدالفطر کا تحفہ ملتا ہے اور اسی طرح اسلام کے ایک بڑے رکن حج کے بعد دنیا بھر کے مسلمان عیدالاضحی کا تہوار مناتے ہیں۔

یہ تہوار اپنے دامن میں ایک عظیم قربانی اور ایثار کی یاد لئے ہوئے ہے، رضائے الٰہی کیلئے یوں تو دنیا کے تمام مذاہب میں قربانی کی اہمیت رہی ہے لیکن اسلام میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی یہ روایت ایک وسیع تر آگہی اور پیغام سے ہم کنار ہوئی ہے، حضرت ابراہیمؑ کا اپنے خواب کی تعبیر پانے کیلئے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو راہ خدا میں قربان کرنے کا عمل تسلیم و رضا کے نئے جہان وا کرتا ہے۔ ذبح عظیم کے اس واقعہ سے نہ صرف اقوام عالم کی تہذیب اور ادب متاثر ہوا ہے، بلکہ اس سے ہر عہد کے انسان کو ایک سماجی شعور بھی عطاء ہوا ہے، ذبح عظیم کی اسی روایت کو زندہ رکھنے کیلئے پوری دنیا کے مسلمان عیدالاضحی مناتے ہیں۔

حضور اکرم ﷺ نے اپنے دور نبوت میں حضرت ابراہیم ؑ سے وابستہ اس روایت کا ازسر نو احیاء کیا اور خدا کی راہ میں جانوروں کی قربانی کا حکم دیا، قربانی کے حوالے سے اسلام نے کچھ اصول و ضوابط بھی مرتب کئے، انہی اصول و ضوابط کی روشنی میں مسلمانان عالم صدیوں سے قربانی کرتے چلے آرہے ہیں، اسلامی روایات کے ساتھ ساتھ قربانی کے حوالے سے کچھ سماجی اقدار بھی اس تہوار کے پہلو بہ پہلو چلتی رہتی ہے۔

عیدالاضحی کے قریب آتے ہی لوگ اس کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں، قربانی کے جانور کا انتخاب بڑی تگ و دو کے بعد کیا جاتا ہے اور تمام تر شرعی تقاضے پورے کرنے والا جانور ہی قربانی کیلئے منتخب کیا جاتا ہے، قربانی کیلئے مخصوص جانور ایک خاص قسم کے تقدس سے بھی ہمکنار ہوجاتا ہے، عیدالاضحی کے دن لوگ نماز ادا کرنے کے بعد اپنے اپنے جانور ذبح کرتے ہیں اور اس کیلئے ایک ماہر قصاب کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

بعض لوگ خود بھی اپنے جانور ذبح کرتے ہیں اور ہمسایوں کو بھی اپنے ماہرانہ مشوروں سے نوازتے ہیں، جن گھروں میں قربانی ہوتی ہے، وہاں گھر کے تمام افراد جمع ہوتے ہیں، قریبی اعزاء کو بھی اس خوشی کے موقع پر مدعو کیا جاتا ہے، یوں گھروں میں ایک میلے کا سماں بن جاتا ہے، جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد گوشت کی تیاری شروع ہو جاتی ہے، قصاب جانور کا گوشت اہل خانہ کے سپرد کردیتا ہے اور مزدوری لے کر کسی دوسرے گھر میں ''کھال'' اتارنے کیلئے چلا جاتا ہے۔

قربانی کا گوشت تیار ہونے کے بعد اب گوشت کی تقسیم کا اہم ترین مرحلہ شروع ہوتا ہے، دیکھا جائے تو تہواروں کا تمام تر حسن اجتماعیت میں پوشیدہ ہے، اسلام انسانی سماج کو باہمی محبت اور تعلق کے ایک رشتے میں پروکے رکھتا ہے، جس سے فرد کی خوشیاں انفرادی نہیں اجتماعی ہوا کرتی ہیں ۔ ایک گھر میں قربانی کے جانور کا آنا اور ذبح ہونا، اس گھر کی انفرادی خوشی ہے لیکن اسلام کے زریں اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو جب کسی گھر میں قربانی کا گوشت تیار ہوجاتا ہے تو اس گھر کی انفرادی خوشی اجتماعی خوشی کی طرف بھی ایک در وا کرتی ہے، کیونکہ قربانی کے اس گوشت میں دوسرے لوگوں کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے، قربانی کا گوشت تیار ہونے کے بعد تین حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔

ایک حصہ اہلخانہ، دوسرا رشتہ داروں اور اعزاء جبکہ تیسرا حصہ غرباء و مساکین کیلئے ہوتا ہے، صدیوں سے یہی روایات مسلم امہ میں چلی آرہی ہیں، دیکھا جائے تو قربانی کے گوشت کے حوالے سے بھی اسلام کی اجتماعی زندگی کا پہلو نظر آتا ہے کہ خوشی سب کی سانجھی ہے، جیسے اسلام نے زکوٰۃ کا حکم دیا کہ اپنی ضرورت سے زیادہ غرباء میں تقسیم کردو، چاہے وہ جنس ہو یا مال، دنیا کے دیگر مذاہب کے برعکس اسلام تمام انسانوں کو برابری کا درس دیتا ہے۔

یہی برابری اور مساوات ایک خوبصورت سماج کی تشکیل میں معاون ہوتی ہے لیکن قربانی کے گوشت کی تقسیم کے حوالے سے اب ہماری صدیوں پرانی روایات بھی تبدیلی کی زد میں آرہی ہیں، گزشتہ دہائیوں سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ لوگوں نے اب گوشت کی تقسیم کا وہ معیار فراموش کردیا ہے جس کا اسلام نے حکم دے رکھا ہے۔ قربانی کے تہوار کی گوشت کے تہوار میں تبدیلی اور کمرشل ذہنیت نے بھی ہمارے سماج کی مثبت اور روشن اقدار پر کاری ضرب لگائی ہے، اب عیدالاضحی اسلامی تہوار سے ہٹ کر گوشت کے تہوار میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔

جدید کلچر نے جہاں لوگوں کو بہت سے نئے ذائقوں سے آشنا کیا ہے وہاں بہت سی سادہ اور روشن روایات چھین بھی لی ہیں، اب صورتحال یہ ہے کہ لوگ قربانی کے گوشت کی تقسیم شرعی احکام کے مطابق نہیں کرتے، لوگوں کی گوشت خوری کے حوالے سے بڑھتی ہوئی ہوس نے ہمیں اپنی بہت سی اقدار سے دور کردیا ہے، اس ضمن میں ہوٹل مالکان کی کمرشل ذہنیت نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے جس کے تحت قربانی کے ایام قریب آتے ہی شہر بھر میں یہ بینرز آویزاں کردئیے جاتے ہیں کہ ''سالم ران ہم سے روسٹ کرائیں'' گوشت آپ کا پکائی ہماری'' قربانی کے گوشت کے تکے اور کباب بنوائیں''۔ قربانی کے گوشت کی تقسیم کے حوالے سے گھروں میں رکھے فریج اور ڈیپ فریزرز کی موجودگی نے بھی گوشت کی تقسیم کا پیمانہ تبدیل کردیا ہے۔

اب گھروں میں عید کے مہینے کے بعد بھی فریزر گوشت سے بھرے رہتے ہیں حالانکہ طبی حوالے سے قربانی کا گوشت صرف ایک عشرے تک کھانے کی اجازت ہے، اس کے بعد گوشت اپنی تازگی کھو دیتا ہے، یہ انہی روایات کا شاخسانہ ہے کہ عید کے روز دروازے پر آنے والے فقیر کا حصہ بھی ''سرد خانے'' کی نذر ہو جاتا ہے، عید کے روز ہر طرف گوشت کی بھرمار ہوتی ہے۔

لوگ صبح سے شام تک گوشت خوری میں مصروف رہتے ہیں، یہ غرباء کی بھی مصروفیت کا دن ہوتا ہے جو اپنے چیتھڑوں میں اجلے لباس والوں سے اپنا حق مانگنے نکلتے ہیں لیکن عید کے روز بھی بعض کشکول شام تک خالی ہی رہتے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ حق داروں کا حق ان کے دروازے تک خود پہنچا دیا جائے۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔

ہم عید کے دن بھی غرباء اور فقراء کو دھتکار دیتے ہیں یا اپنی ''سخاوت'' کا مظاہرہ کرتے ہوئے گوشت کا کوئی ایسا ٹکڑا اٹھا کر دے دیتے ہیں جو ہمیں خود پسند نہیں ہوتا، اسلامی تعلیمات یہ بتاتی ہیں آپ پیٹ بھر کر سونے سے پہلے اپنے ہمسائے کی بھوک کا بھی احساس کریں، جدید دور میں ٹیکنالوجی اتنی جدید ہو گئی ہے کہ دنیا کے دوسرے کونے میں ہونے والا واقعہ ہمیں پلک جھپکنے سے پہلے معلوم ہو جاتا ہے لیکن ہمیں اس بات کی خبر نہیں ہوتی، ہمارے ہمسائے نے نان شبینہ کھایا ہے یا نہیں...؟

عید قرباں... یا گوشت کا تہوار
وقت کے ساتھ ساتھ ہماری سماجی روایات بدلتی چلتی جا رہی ہیں، مسلم امہ میں قربانی کا تہوار اپنے پس منظر میں ایثار و قربانی کا ایک عظیم واقعہ بھی رکھتا ہے، ہمارے سماج میں ان روایات اور اقدار کی بجا آوری تو بڑے جوش و خروش سے کی جاتی ہے لیکن ان روایات کے پس منظر میں جو فلسفہ اور تربیت ہوتی ہے اسے یکسر فراموش کردیا جاتا ہے، حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ سے وابستہ ایثار و قربانی کے اس جذبہ کو پوری انسانی زندگی پر محیط کردیا جائے تو اسلامی سماج ایک لازوال خوبصورتی سے ہمکنار ہو سکتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے...!! آج عید قرباں محض گوشت کا تہوار بنتا جا رہا ہے۔

اب عیدالاضحی قریب آتے ہی گھروں میں گوشت خوری کے نئے نئے انداز اپنانے کی باتیں ہوتی ہیں دوستوں کے ساتھ باربی کیو کی محافل ترتیب دی جاتی ہیں، اور گوشت کے مخصوص حصوں کو ہوٹلز سے روسٹ کرانے کیلئے بھی ایڈوانس بکنگ کرائی جاتی ہے، عید آتے ہی بازاروں میں مصالحوں کی خرید و فروخت میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے، نت نئی ڈشوں اور ذائقوں تک رسائی کے پروگرام ترتیب دئیے جاتے ہیں، گلیوں، محلوں اور بازاروں میں کہیں سری پائے تیار کرنے والے بیٹھے ہوئے ہیں، کہیں گوشت کا قیمہ بنایا جارہا ہوتا ہے، غرض اس موقع پر ہر طرف گوشت اور گوشت خوری بھی نظر آتی ہے لیکن اس تہوار کے پس منظر میں موجود ایثار و قربانی کا فلسفہ پورے سماج میں کہیں دور تک بھی دکھائی نہیں دیتا۔

غریبوں کی عید...!
مہنگائی اور زندگی کی خود غرضانہ روایات نے سماج کے پسے ہوئے اور غریب طبقات سے تمام تر خوشیوں کو دور کردیا ہے، تہواروں کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہوتا ہے لیکن دکھ تو ہمیشہ انفرادی ہوتے ہیں، ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو اپنے بچوں کو سالانہ خوشیاں بھی نہیں دے سکتے، عید قرباں جہاں طبقے کی خوشیوں کو دوبالا کرتی ہے وہاں غریبوں کے احساس محرومی کو بھی بڑھا دیتی ہے۔

اب کسی مزدور یا ریڑھی بان یا کم آمدنی والے آدمی کے بس میں نہیں رہا کہ وہ عید پر قربانی کا جانور اپنی آمدنی سے خرید لے، ایسے میں محرومی کا ایک احساس ذہن و دل پر چھایا رہتا ہے، بچوں کی آنکھوں سے اٹھنے والے سوالات بالآخر آنسوئوں کی جھڑی کی صورت رخساروں تک آجاتے ہیں۔ اپنے اپنے جانوروں کی رسی ہاتھ میں تھامے گلیوں سے چھن چھن کرتے گزرتے لوگ اتنا جانتے ہی نہیں کہ تہوار خوشی اور مسرت کے بغیر کیسے گزارے جاتے ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں