حلال فوڈ اتھارٹی چیف جسٹس صاحب کے ایک اور ازخود نوٹس کی منتظر

پاکستان میں حلال فوڈ اتھارٹی قائم ہوجانے کے دو سال بعد بھی ڈی جی اور ضروری عملے سے یکسر محروم ہے


حلال فوڈ کے بڑے بڑے ایکسپورٹر ممالک میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، برازیل، انڈیا، فلپائن، تھائی لینڈ، اور امریکا شامل ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

محترم جناب چیف جسٹس، اور خاتون اول صاحبہ، زیر نظر تحریر آپ تک پہنچانے کا مقصد تاجدار مدینہ، امام الانبیاء، وجہ وجودِ کائنات، آقائے دوجہاں حضرت محمد ﷺ کی اس حدیث پر عمل کرنا ہے: (مفہوم) ''حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئےسنا کہ جو شخص تم میں سے کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر (ہاتھ سے بدلنے کی) طاقت نہ ہو تو زبان سے بدل دے؛ اور اگر زبان سے بدلنے کی طاقت نہ ہوتو دل سے اسے برا جانے (یعنی اس برائی کا دل میں غم ہو) اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے (مسلم)۔

جنابِ والا! واقعہ یہ ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس سینیٹر مشتاق احمد کی سربراہی میں گزشتہ ماہ ہوا۔

اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے وزارت کے حکام نے انکشاف کیا کہ ملک میں غذائی اجناس میں حرام چیزوں کی شناخت کا کوئی نظام نہیں۔ ملک میں حرام اجزاء سے بنی چاکلیٹ، لپ اسٹک، ٹوتھ پیسٹ، اور برگرز وغیرہ سرعام فروخت ہو رہے ہیں جن پر کوئی سرکاری کنٹرول نہیں۔ حلال فوڈ اتھارٹی کے قیام کے دو سال بعد بھی نہ ڈی جی ہے اور نہ ہی کوئی عملہ، جس کی وجہ سے مشکوک چیزوں کی شناخت اور روک تھام ممکن نہیں۔

دنیا بھر میں اس وقت 7.9 فیصد حلال غذا استعمال ہورہی ہے جس میں پاکستان کا حصہ 0.5 فیصد ہے۔ یعنی آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت 92 فیصد سے زیادہ حرام غذا استعمال ہورہی ہے۔ حلال و حرام کا فرق مٹانے کےلیے دنیا بھر میں 1600 کوڈز وضع کیے گئے ہیں جنہیں ڈی کوڈ کرکے معلوم ہوسکتا ہے کہ متعلقہ غذا حلال ہے یا حرام۔ سؤر کے گوشت اور چربی سے 375 آئٹم بنے ہوئے ہیں۔ لپ اسٹک، ٹوتھ پیسٹ، برگرز اور پیزا وغیرہ حرام اشیاء سے بنے ہوئے ہیں جنہیں ملک بھر میں کھایا جارہا ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون میں 25 فروری 2016 کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عبدالرؤف عالم کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں حلال فوڈ کے بڑے بڑے ایکسپورٹر غیر مسلم ممالک ہیں جن میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، برازیل، انڈیا، فلپائن، تھائی لینڈ، اور امریکا وغیرہ شامل ہیں۔ امریکا اور آسٹریلیا حلال بیف کے بڑے ایکسپورٹر ہیں جبکہ برازیل اور فرانس ہلال چکن کے بڑے ایکسپورٹر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ یعنی

میر کے سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں


مذکورہ بالا خبر کی روشنی میں جب مستند مفتی صاحب سے رجوع کیا گیا اور ان کی رائے معلوم کی گئی کہ اب جبکہ ریاست اپنی ذمہ داری ادا نہیں کررہی تو ایسے میں کون ذمہ دار ہے؟ تو مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ ہر بندہ انفرادی طور پر اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ کوئی بھی چیز کھانے یا استعمال کرنے سے پہلے تحقیق کرے کہ آیا یہ حلال ہے کہ حرام۔ اگرچہ یہ ایک محنت طلب کام ہے مگر ضروری ہے، کیونکہ لقمہ حرام جب ہمارے پیٹ کے اند رجاتا ہے تو دعائیں قبول نہیں ہوتیں، اولاد ماں باپ کی نافرمان ہوتی ہے، نیک اعمال قبول نہیں ہوتے، دیگر بے شمار نقصانات کے علاوہ آخرت بھی خراب ہوجاتی ہے۔

قرآن مجید میں بھی اللہ رب العزت نے حلال چیزوں کو کھانے کا حکم دیا ہے۔

میں اپنے بلاگ کے ذریعے چیف جسٹس صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اس معاملے کا ازخود نوٹس لیں، اور اس سلسلے میں ایک اعلی عدالتی بینچ یا اعلی اختیاراتی کمیشن تشکیل دیا جائےجو ان ذمہ داران کا تعین کرے جن کی غفلت کے باعث اب تک دو سال گزر جانے کے باوجود حلال فوڈ اتھارٹی کے ڈی جی اور عملے کی تعیناتی ممکن نہیں ہوسکی۔ اور ممکنہ خاتون اول صاحبہ سے میرا عاجزانہ التماس ہے کہ وہ بھی ذاتی دلچسپی لےکر حلال فوڈ اتھارٹی کی تشکیل نو ممکن بنائیں تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حلال و حرام کی تمیز ممکن ہو۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ذمہ دار اور باشعور شہریوں سے بھی میری درخواست ہے کہ کوئی بھی خوردنی چیز (فوڈ آئٹم) خریدتے وقت اس کے اجزائے ترکیبی کا بغور مطالعہ کرلیں۔ اگر اس میں ای کوڈ یا مشکوک آئٹم استعمال ہو تو تحقیق کرلیں؛ اور نہیں تو کم از کم ''گوگل ای کوڈ ویریفائر'' ایپ کی مدد سے چیک کرلیں کہ یہ حلا ل یا حرام۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اپنی حلال کی کمائی سے اپنی اور اپنے بچوں کی دنیا اور آخرت خراب کرلیں۔ شرعی طور پر یہ بہرحال آپ کی اپنی ذمہ داری ہے کہ آپ جو چیز استعمال کریں وہ حلال ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں