الیکشن والا دن

واقعی یہ عید ہی کا دن تھا۔ اس دن کا لوگ بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔


Saeed Parvez May 17, 2013

الیکشن سے ایک دن پہلے فجرکی نماز پڑھ کے مسجد سے نکلا تو سامنے ہی وہ اسکول تھا جہاں کل مجھے ووٹ ڈالنا تھا۔میرے بچے الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق ووٹ اورپولنگ اسٹیشن کے بارے میں ضروری معلومات بذریعہ موبائل فون لے چکے تھے، پھر بھی میں نے اسکول کا دروازہ کھٹکھٹادیا۔تھوڑی دیر میں چوکیدار نے دروازہ کھولا تو میں نے اس سے پوچھا ''کل پولنگ یہیں ہوگی؟'' چوکیدار نے ہاں کہا اور میں گھر کی طرف چل دیا۔

الیکشن والے دن میں فجر کی نمازکے بعد مسجد سے نکلا تو صبح کے سوا چھ بج رہے تھے پولنگ اسٹیشن والے اسکول کے سامنے پولیس انسپکٹر اپنے چارساتھیوں کے ساتھ موجود تھا۔ میں نے ان سے دعا سلام کے بعد پوچھا کہ تمام انتظامات مکمل ہیں؟ انھوں نے میری بزرگی کا خیال کرتے ہوئے بڑی محبت سے میرے سوال کا جواب ہاں میں دیا۔

میں لمبے لمبے قدم اٹھاتا تیزی سے گھر کی جانب چل دیا۔ گھر میں سب جاگ رہے تھے ہلکا پھلکا ناشتہ اور چائے پی کر میں اور میرے دو بیٹے ڈاکٹر ذیشان اور نعمان گھر سے نکلے اس وقت صبح کے ساڑھے سات بج رہے تھے۔ پولنگ اسٹیشن والی سڑک پر بڑی چہل پہل تھی پولنگ کے باہرعورتیں اورمرد قطار بنائے کھڑے تھے میں بھی قطار میں کھڑا ہوگیا۔ محلے کے لوگ، روز کے ملنے والے سبھی قطار میں کھڑے تھے اور میرے سامنے یہ منظر تھا کہ پولنگ اسٹیشن والی لمبی سڑک پر عورتیں مرد، بوڑھے، جوان، لڑکے لڑکیاں اپنے اپنے پولنگ اسٹیشنوں کی طرف رواں دواں تھے، ان کے چہرے روشن تھے وہ بہت خوش نظر آرہے تھے میرے ساتھ قطار میں کھڑا نوجوان وسیم بولا ''انکل! ایسا لگ رہا ہے جیسے آج عید کا دن ہے اور لوگ گھروں سے نکل کر عیدگاہ کی طرف جا رہے ہیں''۔

واقعی یہ عید ہی کا دن تھا۔ اس دن کا لوگ بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ یہ ''تبدیلی'' کا دن تھا۔ روشن مستقبل کا دن تھا۔

حقیقی آزادی کا سورج طلوع ہوکر پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ آج سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ لوگ بے خوف و خطر گھروں سے نکل آئے تھے۔ ظلم کے پہرے خوف کے سائے لوگوں نے دفن کر دیے تھے جیسے ''آج سہمے ہوئے لوگوں کو ملا اذن کلام'' اس دن کی صداقت کو جھٹلانے والے منہ چھپائے پھر رہے تھے۔ ستارہ شناس شرمندہ شرمندہ تھے سب ستارے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے اور لوگ ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی طرف بڑھ رہے تھے اور ان کے لبوں پر تھا کہ ''ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔''

میں اپنے وطن پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں رہتا ہوں، میرا شہر جو پچھلے کئی سال سے ''شیطانوں '' کے نرغے میں ہے اور اس شہر کے رہنے والوں پر کون سا ظلم نہیں ہوا۔ اور آج اپنے ووٹ کے ذریعے اس شہر خرابی کے لوگ بھی حساب کتاب چکانے نکلے تھے۔

اب صبح کے آٹھ بج رہے تھے ووٹ ڈالنے کا وقت شروع ہوچکا تھا، مگر ابھی الیکشن کے انتظامات مکمل نہیں ہوئے تھے۔ 11 مئی کا سورج خوب چمک رہا تھا۔ بوڑھے، بچے، جوان، مرد، عورتیں سبھی سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے کھڑے تھے نوجوان ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے تھے، ووٹ ڈالنے کے عمل میں تاخیر ہورہی تھی، مگر آج ہر کوئی ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیے گھر سے نکلا تھا، میں اپنی 67 سالہ زندگی کا ایک انوکھا دن دیکھ رہا تھا، میرے شہر کراچی میں بڑی دہشت کی داستانیں ہیں، بم دھماکے ہیں، خودکش بمبار ہیں ''نامعلوم'' قاتل ہیں، اغواء برائے تاوان ہیں، بھتے کی پرچیاں ہیں مگر آج اس شہر کے ''نہتے لوگ'' بے خوف و خطر گھروں کو چھوڑ کر باہر نکل آئے تھے۔

ووٹ ڈالنے والوں کی قطاریں لمبی ہورہی تھیں اور اضافہ مسلسل ہورہا تھا۔ آخر ایک گھنٹے کی تاخیر کے بعد ٹھیک نو بجے صبح پولنگ اسٹیشن کا دروازہ کھلا اور ووٹنگ کے عمل کا آغاز ہوگیا۔

میں الیکشن سے پہلے ہر واقف کار، ملنے جلنے والے سے بس یہی کہتا تھا کہ ''اس بار ووٹ ضرور ڈالیے گا، خواہ کسی کو ووٹ ڈالیں، مگر ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے ضرور نکلیے گا، اس لیے کہ ہمارے ''دشمن'' کی موت واقع ہوجائے گی، اگر ووٹ ڈالنے کا تناسب زیادہ سے زیادہ ہوگیا'' میں پولنگ اسٹیشن کے باہر لمبی لمبی قطاریں دیکھ کر دل ہی دل میں بہت زیادہ خوش ہورہا تھا کہ میرے سارے شہر کے لوگ میری طرح سوچ رہے تھے اور وہ ہر خطرے سے لڑنے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گھروں سے باہر نکل آئے تھے بعض ماؤں کی گودوں میں معصوم بچے بھی تھے جن کو سنہرا مستقبل دینے کا پکا ارادہ لیے مائیں ووٹ ڈالنے آئی تھیں۔

میں نے اپنی زندگی میں ایسا الیکشن نہیں دیکھا، ایسا جذبہ نہیں دیکھا اور مجھے یقین ہے کہ اب خوف کا دور گیا اور یاس کی زنجیر کٹ گئی۔ نوجوانوں کو متحرک کرنے اور ان میں جوش و جذبہ پید اکرنے میں ہمارے کپتان عمران خان نے بنیادی کردار ادا کیا۔ عمران خان نے کمال مہارت کے ساتھ اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو انصاف کے اصولوں کے ساتھ چلایا اور بالآخر معاشرے کے ہراول دستے یعنی نوجوانوں کے ہاتھوں میں انصاف کے پرچم بلند کردیے۔ الیکشن والے دن نوجوان لڑکے لڑکیاں دیکھ کر بڑا حوصلہ مل رہا تھا۔ محفوظ پناہ گاہوں کا احساس ہورہا تھا۔ جیسے ہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں آگیا ہو۔

ایک گھنٹہ تاخیر سے یعنی صبح نو بجے پولنگ شروع ہوئی تھی۔ میں صبح دس بجے اپنا ووٹ ڈال کر گھر آگیا تھا۔ اب میں ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھا اپنے وطن کے شہروں، قصبوں، گاؤں گوٹھوں کو دیکھ رہا تھا۔ میرے شہر کراچی کی طرح ہر جگہ لوگ گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشنوں پر جمع تھے۔ لوگوں کا جوش و ولولہ دیدنی تھا۔ یقینا پچھلے سارے الیکشنوں کے ریکارڈ آج ٹوٹ رہے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے کبھی ووٹ نہیں ڈالے تھے۔ یہ رجحان بڑا طاقتور ہے اس رجحان کی طاقت کا دھیان رکھنا!! میں خود کلامی کررہا تھا۔

الیکشن کی رات دس بجے تک پورے ملک کی صورت حال واضح ہوچکی تھی۔ مسلم لیگ (ن) اکثریتی جماعت بن چکی تھی۔ دوسرے نمبر پر عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف تھی اور پانچ سال حکمرانی کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر چلی گئی تھی۔ عمران خان ـصوبہ خیبر پختونخوا میں واضح اکثریت حاصل کرگیا تھا یقینا پاکستان تحریک انصاف پاکستان کا تابناک مستقبل ہے۔ میرے شہر کراچی کا حال ابھی خراب ہے۔ الیکشن والے دن یہاں بڑی بربادیاں ہوئیں، شہرکے پرامن ترین اور پوش علاقے کلفٹن ڈیفنس پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقے250 میں متعین انتخابی عملہ اور سامان دونوں غائب کردیے گئے اور دن گزر گیا، رات آگئی، مگر نہ انتخابی عملہ آیا اور نہ ہی سامان آیا، حلقے میں رہائش پذیر نازک مزاج، اپنے گھروں کے ایئرکنڈیشنوں کو چھوڑ کر تمام بوڑھے عورتیں، مرد ،جوان لڑکے لڑکیاں دن بھر گرمی میں پولنگ اسٹیشنوں کے باہر جمع رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ووٹ ڈالے بغیر نہیں جائیں گے۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم صاحب بھی ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کے بعد بغیر ووٹ ڈالے واپس چلے گئے۔ آخر رات نو بجے کے بعد اسلام آباد سے مرکزی الیکشن کمیشن کے دفتر سے اعلان کیا گیا کہ کراچی کے حلقہ 250 کے 42 پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ میرے شہر کراچی کے سارے علاقے ، لیاری کا حال بھی بہت خراب ہے۔ شہر کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو لیاری میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ اور بالآخر متحدہ قومی موومنٹ نے لیاری کے حلقے کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ میرے شہر کراچی کی ایک اور اہم جماعت جماعت اسلامی نے بھی دوپہر میں ڈیفنس کے حلقہ 250 اور دیگر حلقوں میں مسلح افراد کی دھاندلی کے خلاف شہر کے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا۔ تحریک انصاف کی امیدوار ناز بلوچ بھی بلدیہ ٹاؤن کے حلقے 240 میں بدترین مسلح دھاندلی کا واویلا کرتی نظر آئیں۔ اور بالآخر مجلس وحدت المسلمین، جماعت اہل سنت، جمعیت علمائے پاکستان اور مہاجر قومی موومنٹ نے بھی بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔

پورا ملک الیکشن 2013 میں سرخرو ہوا، مگر میرا شہر کراچی اس سرخروئی سے محروم رہا اور متعدد سیاسی جماعتوں نے الیکشن کا جزوی یا مکمل بائیکاٹ کردیا ہے الیکشن والے دن جو جو شیطانی حرکتیں یہاں ہوئیں ان سے حالات کی سنگینی کا اندازہ لگالیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔