سٹی کورٹ مال خانہ آتشزدگی تخریب کاری قرار

آگ تخریب کاری، دہشت گردی پھیلانے اور ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے لیے لگائی گئی تھی، تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف


Arshad Baig August 05, 2018
جنوبی ، شرقی اور ضلع وسطی کے انچارجز نے لاپروائی وغفلت کامظاہرہ کیا،تینوں کومقد مے میں نامزد کیا گیا۔ فوٹو: ایکسپریس

سٹی کورٹ مال خانے میں آتشزدگی کے 4 ماہ کے بعد واقعے کو تخریب کاری قرار دے دیاگیا۔

9 اپریل کو سٹی کورٹ کے مال خانے میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے نتیجے میں 3اضلاع ضلع شرقی ، وسطی اورجنوبی کی تمام کیس پراپرٹیز جل گئی تھیں، عدالتی ذرائع کے مطابق ضلع جنوبی کی صرف ایک عدالت میں زیر سماعت مقدمات کیس پراپرٹی جو جل گئی تھی اس کی مالیت 30لاکھ سے زاید ہے ،واقعے کے بعدسیشن جج جنوبی کے حکم پر جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کو انکوئری افسر مقرر کیا گیا تھا۔

فاضل جج نے انکوائری کی اور موقع پر موجود سیکیورٹی اہلکاروں چوکیداروں و دیگر افراد کے بیانات قلمبند کیے ،محکمہ داخلہ کی جانب سے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں خفیہ اداروں،رینجرزاورپولیس کے اعلیٰ افسران شامل تھے ،آئی جی سندھ نے ایس ایس پیز کی سربراہی میں 2 الگ تحقیقاتی ٹیمیں بھی تشکیل دیں لیکن پولیس کی تحقیقاتی ٹیم اصل حقائق معلوم کرنے میں نا کام رہی،جے آئی ٹی مکمل ہوتے ہی پولیس کے اعلیٰ افسران کا تبادلہ کردیا گیا۔

سیشن جج جنوبی کی جانب سے پولیس کے اعلیٰ افسران کومکتوب جاری کیے گئے اورتحقیقات میں تاخیر سے متعلق جواب طلب کیاگیا جس پر 4 ماہ کے بعد پولیس نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے واقعے کوتخریب کاری قراردے دیا۔

رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ مال خانے میں آگ تخریب کاری ودہشت گردی پھیلانے اور ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے لیے لگائی گئی تھی ،رپورٹ میں مال خانے کے تینوں انچارجز جس میں ضلع جنوبی کے انچارج محمد شکیل ،ضلع شرقی کے عبدالستار گوپانگ اور ضلع وسطی کے تراب علی مری شامل ہیں اور انھیں غفلت لاپروائی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے مقدمے میں نامزد کیاگیا،تخریب کاری نامعلوم ملزمان پر عایدکی گئی ہے۔

ملزمان نے گرفتاری سے بچنے کیلیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی کی عدالت سے رجوع کیا اور عبوری ضمانت کی درخواست دائرکی، فاضل عدالت نے تینوں کی فی کس50ہزار روپے کی عبوری ضمانت قبل ازگرفتاری منظور کرلی، عدالت تینوں ملزمان کو شامل تفتیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سرکار اورتفتیشی افسر کو بھی طلب کرلیا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں