الیکشن 2018 سے میں نے کیا سیکھا

میں نے سیکھا کہ پاکستانی عوام کی پہلی ترجیح ذاتی انا کی تسکین، دوسری سیاسی پارٹی اور آخری ترجیح پاکستان ہے


اس الیکشن سے میں نے سیکھا کہ پاکستانی عوام کی پہلی ترجیح ذاتی انا کی تسکین، دوسری سیاسی پارٹی اور آخری ترجیح پاکستان ہے۔ (فوٹو: فائل)

الیکشن 2018 مکمل ہوگیا ہے لیکن جاتے جاتے بہت سے سبق دے کر گیا ہے۔ اس الیکشن نے مجھے کیا کچھ سکھایا ہے۔ آئیے ایک نظر اس پر ڈالتے ہیں۔

اس الیکشن سے میں نے سیکھا ہے کہ ملک پاکستان کی عوام کی پہلی ترجیح ذاتی انا کی تسکین ہے، دوسری ترجیح سیاسی پارٹی ہے اور آخری ترجیح ملک پاکستان ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص آپ کو ناپسند ہے اور وہ ن لیگ یا تحریک انصاف کو پسند کرتا ہے تو آپ ذاتی انا کی تسکین کےلیے ن لیگ یا تحریک انصاف کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ اور، اس حقیقت سے قطعہ نظر کہ ن لیگ یا تحریک انصاف اچھی ہے یا بری، آپ اسے ہر لحاظ سے برا ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ برا ثابت کرنے کے عمل میں ملک کے فائدے اور نقصان کا رتی برابر بھی خیال نہیں آتا اور آپ کو اس عمل سے جو واحد فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ ہے آپ کی جھوٹی انا کی تسکین۔

میں نے سیکھا کہ سیاسی پارٹیوں کے اکثر سپورٹر اپنی پارٹی اور پارٹی رہنماؤں کے صحیح فیصلوں کے ساتھ غلط فیصلوں کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔ چاہے وہ فیصلے ملک پاکستان کےلیے کتنے ہی نقصان دہ کیوں نہ ہوں۔ اس سپورٹ کی وجہ ان کی پارٹی رہنماؤں سے محبت نہیں بلکہ محالف سپورٹروں کے سامنے خود کو سچا، ذہین، سمجھدار اور اعلی ترین ثابت کرنا ہے تاکہ ذاتی انا کو تسکین مل سکے۔

میں نے سیکھا کہ ملک پاکستان میں پارٹی رہنماؤں کی تقلید کرنے کے پیچھے ان کے کام یا پالیسی کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تر ورکرز پیسوں اور چند معمولی فائدوں کے عوض کسی پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ جب وہ ایک مرتبہ کسی پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں تو دوسرے پارٹی کے سپورٹر ان کے حریف بن جاتے ہیں۔ جب دونوں پارٹیوں کے سپورٹر آمنے سامنے ہوتے ہیں تو ہر کوئی اپنی پارٹی کے رہنما کو ہیرو اور دوسری پارٹی کے رہنما کو زیرو ثابت کرنے میں لگ جاتا ہے اور اس امر کی تکمیل کےلیے وہ تمام اخلاقی حدیں بھی پار کرجانے کو اپنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ لیکن اس سپورٹ کرنے کی وجہ ان کی پارٹی رہنماؤں سے محبت نہیں ہوتی بلکہ ذاتی انا کی تسکین ہوتی ہے۔

میں نے یہ بھی سیکھا کہ ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے ملک کے ان پڑھ، جاہل، مزدور، بھکاری، ماشکی، ہوٹلوں کے چھوٹے، ویگنوں کے کنڈکٹر، ریلوے کے قلی، دفتروں کے چپڑاسی، ورکشاپوں کے مُنے، چوہدریوں کے کامے، وڈیروں کے مزارع اور ٹرک ڈرائیور جیسے طبقے کے لوگ تعصب کا شکار ہیں؛ بلکہ اصل مسئلہ ہمارے ملک کے پڑھے لکھے، سمجھ بوجھ رکھنے والے، دین اور دنیا کا ادراک کرنے والے، مثبت سوچ رکھنے کا درس دینے والے، صحیح اور غلط کی تمیز رکھنے والے، دوسروں کو ہر وقت نصیحت کرنے والے، صبر اور شکر کا بھاشن دینے والے، متوازن سوچ کی تلقین کرنے والے، دوسروں کی برائیوں کو نظر انداز کرکے ان کی اچھائیوں کی طرف دیکھنے کی تبلیغ کرنے والے، دو دو حج اور چار چار عمرے کرنے والے اور خود کو اللہ اور اللہ کے رسول کے دین کا ٹھیکیدار سمجھنے والے لوگوں میں کسی مخصوص گروپ، پارٹی یا شخص کے متعلق تعصب کی نظر کا موجود ہونا ہے۔

یہ لوگ خود کو نیوٹرل کہتے ہیں لیکن آپ جیسے ہی ان کے پسندیدہ سیاسی لیڈر یا شخص کے متعلق کوئی اعتراض اٹھائیں گے تو ان کا سارا گیان، علم، نیوٹرل ہونے کا دعوی، صبر کرنے کی نصیحتیں اور مثبت سوچ رکھنے کا دعوی سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہوا میں اڑ جاتا ہے اور وہ آنکھیں پھاڑ کر، اپنی جگہ سے اچھل کر، دونوں ہاتھوں اور پیروں کا استعمال کرکے اپنے پسندیدہ شخص اور پارٹی کو ہیرو اور اپنے ناپسندیدہ شخص اور پارٹی کو زیرو ثابت کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ اور پھر سینہ تان کر یہ جھوٹ بھی بولتے ہیں کہ ہم تو کسی پارٹی یا شخص کو سپورٹ نہیں کرتے اور یہاں تک کہ یہ جھوٹا دعوی بھی کر جاتے ہیں کہ ہم تو کسی سے بھی تعصب نہیں رکھتے۔

اپنے مؤقف کی حمایت میں ایسی دلیلیلں دیتے ہیں کہ جن کا کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر، اور جب انہیں ٹوک کر وزن دار دلائل دے کر لاجواب کر دیاجاتا ہے تو وہ شرمندہ ہونے کے بجائے فورا اگلا الزام پیش کردیتے ہیں اور جب اس الزام کا جواب بھی دلائل کے ساتھ دے دیا جاتا ہے تو وہ تیسرا الزام پیش کر دیتے ہیں۔ اور جب تمام الزامات کے جوابات سن کر ان کے دماغ سے الزامات کا خزانہ خالی ہوجاتا ہے تو جواب دینے والے کو یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ چونکہ مخصوص پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں اس لیے آپ سے بات کرنا بیکار ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جناب اگر آپ کے پاس دلائل ہیں تو وہ دلائل دیجیے تاکہ آپ کے الزامات درست اور ہم غلط ثابت ہوسکیں، تو وہ آئیں بائیں اور شائیں کرنے لگتے ہیں۔ جب وہ یہ محسوس کرلیتے ہیں کہ وہ ہر بات پر غلط ثابت ہو رہے ہیں تو یہ کہہ کر محفل سے بھاگ جاتے ہیں کہ چھوڑیں جی سیاست میں کیا رکھا ہے۔

میں نے سیکھا کہ ملک میں حقیقی تبدیلی لانے کےلیے اس پڑھے لکھے اور مہذب طبقے کو اپنی سوچ میں اعتدال لانا ہو گا اور اپنے اندر سے بغض کو نکالنا ہو گا۔ یہی اصل تبدیلی ہے۔

میں نے سیکھا کہ ہمیں تنقید برائے تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ تنقید اس طرح کی جانی چاہیے کہ اس میں اصلاح کا پہلو ہو۔ تنقید برائے اصلاح قوموں کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لاسکتی ہے۔ لیکن اگر آپ تنقید صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ آپ کو اپنی نفرت اور بغض کا اظہار کرنا ہے تو وہ تنقید آپ کو بھی برباد کر دے گی اور آپ سے محبت کرنے والوں اور آپ کی عزت کرنے والوں کو بھی آپ سے دور کر دے گی۔ آپ کی پسند یا ناپسند کا معیار کسی کی شکل یا سنی سنائی باتیں نہیں ہونا چاہیے بلکہ کسی سیاسی جماعت یا سیاسی شخص کو پسند یا ناپسند کرنے کےلیے اس کی اچھائیاں اور برائیاں ایک مرتبہ ضرور دیکھ لینی چاہئیں۔ اگر آپ کسی جماعت یا شخص کو اس کی برے کاموں یا عادتوں کی وجہ سے آپ ناپسند کرتے ہیں تو اس کی چند اچھی عادتوں اور کاموں کی تعریف بھی ضرور کیجیے۔ اگر آپ کسی کی برائی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں تو اس کی اچھائی کا ذکر کرنا بھی آپ پر واجب ہو جاتا ہے۔

آپ بغض میں اتنے آگے نہ بڑھ جائیے کہ کوئی آپ سے کہے کہ سعد رفیق ہار گیا ہے تو آپ بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے کہہ دیں کہ مجھے معلوم ہے وہ کس طرح ہارا ہے۔ فوج نے اسے ہرایا ہے۔ اس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی کی ہے۔ بلکہ آپ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغض کو اپنے اندر سے نکالیے اور وہ بات کیجیے جس کے آپ کے پاس ثبوت موجود ہوں۔ صرف ذاتی رنجش اور بغض عمران میں کسی پر الزام نہ لگادیجیے۔ آپ کا یہ عمل جہاں آپ کی رائے کو محترم کرے گا وہاں آپ کے اندر نفرت کے جراثیم ختم کرنے میں بھی مدد دے گا۔

میں نے یہ سیکھا کہ آپ نئی سیاسی قیادت کو وقت دیجیے، اسے اپنی خواہشوں کا شکار نہ بنائیں۔ اگر آپ کی سوچ کے مخالف پارٹی الیکشن جیت گئی ہے تو آپ اگلے ہی لمحے یہ کہنا شروع نہ کردیجیے کہ آپ نے تو مدینہ کی ریاست بنانے کا دعوی کیا تھا تو بتائیے کتنے دنوں میں مدینہ کی ریاست بنا کردیں گے؟ آپ فوراً ہی یہ مطالبہ نہ کیجیے کہ تین سو ڈیم کب بنائیں گے؟ آپ اگلے ہی لمحے یہ نہ کہنا شروع کردیجیے کہ آپ تو بڑی بڑی باتیں کرتے تھے، اب دیکھتے ہیں کہ آپ کتنے پانی میں ہیں؟ آپ یہ نہ کہیے کہ اس قیادت کو کچھ نہیں کرنا، اسے تو ناکام ہی ہونا ہے۔ آپ یہ نہ کہیے کہ یہ امریکا اور روس کے ایجنٹ ہیں، انہیں بھلا مدینہ کی ریاست کہاں بنانی ہے بلکہ اپنے بنی گالہ کے محل میں سوئمنگ پول بنا کر عیاشی کریں گے۔

آپ کی اس طرح کی باتیں جہاں سیاسی قیادت کو دل برداشتہ اور مایوس کرتی ہیں وہیں آپ کے امیج کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔ آپ کی رائے محترم ہونے کے بجائے متنازعہ ہوجاتی ہے۔

میں نے سیکھا کہ سیاسی قیادت کو وقت دینا چاہیے۔ ان کی کارکردگی کو مانیٹر کیجیے۔ ان کے مسائل اور وسائل، دونوں کو سامنے رکھیے۔ اگر انہوں نے کچھ دعوے کیے ہیں تو آپ ان دعووں کی تکمیل کےلیے انہیں سپورٹ کیجیے۔ انہیں ہمت دیجیے کہ آپ قدم بڑھائیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ ہر وقت اپنی مخالف سیاسی قیادت کے خلاف تنقید کےلیے مواد اکٹھا کرنے کے بجائے اپنی طاقت ان ہی مسائل کے حل کےلیے تجاویز دینے پر لگائیے اور آپ کے ارد گرد جو لوگ ہیں انہیں بھی ملکی مسائل کے حل کےلیے اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی تلقین کیجیے۔ آپ انہیں پانچ سال تو دیجیے۔ اگر آپ پانچ سال میں ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوتے تو آپ ان پر مثبت تنقید کیجیے اور ان کے خلاف ووٹ ڈال دیجیے جو آپ کا جمہوری حق ہے۔

میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ بزرگوں کو بچوں سے سیاسی اختلاف کرتے وقت الفاظ اور باڈی لینگویج کا خیال کرنا چاہیے۔ اگر آپ اپنے ہم عمر سے سیاسی اختلاف کرتے وقت کچھ سخت الفاظ بول جائیں اور وہ بھی جواب میں آپ کو سخت الفاظ سنا دے تو آپ کی عزت میں اتنا فرق نہیں پڑے گا لیکن اگر بچوں سے سیاسی اختلاف کرتے وقت آپ کے الفاظ اور باڈی لینگویج نامناسب ہوں گے تو آج کے بچوں کا ری ایکشن آپ سے برداشت نہیں ہوگا۔ آپ کے اور بچوں کے درمیان عزت کا رشتہ ختم ہوجائے گا۔ وہ آپ کے ساتھ بھی ایسی ہی بدتمیزی کریں گے جیسی وہ اپنے ہم عمر یا چھوٹے بچوں سے کرتے ہیں۔ کیونکہ میں نے اس الیکشن میں بہت سے بڑوں کو بچوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھا ہے۔

اس طرح کے عمل سے ہی ہم اپنے معاشرے میں مثبت تبدیلی لاسکیں گے ورنہ جانوروں کی طرح لڑتے اور کتوں کی طرح بھونکتے ملک پاکستان کی عوام کو ستر سال ہو گئے ہیں۔ ہم آج بھی بے چین اور مضطرب ہیں۔ ہم آج بھی بے صبرے ہیں۔ ہم آج بھی ایک ہی لمحے میں بغیر کسی وجہ کے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ہم آج بھی چھوٹی سی بات پر ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ ہم آج بھی جھوٹی اناؤں کی حفاظت کےلیے ملک کا نقصان کردیتے ہیں۔ گویا ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں زمانہ جاہلیت میں لوگ کھڑے تھے۔ گویا ہم نے چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ اور ستر سال آزادی کے بعد بھی کچھ نہیں سیکھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں