نئے پاکستان کے جنم کی پہلی قسط
’’پرسوں ہماری مرکزی کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تھی‘ 2009 کے اوائل میں بھرے بھرے جسم کے گول۔۔۔
''پرسوں ہماری مرکزی کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تھی' 2009 کے اوائل میں بھرے بھرے جسم کے گول مٹول سیف اللہ نیازی نے عمران خان کے زمان پارک والے گھر کے ڈرائنگ روم میں مجھے بتایا تھا ''ہم نے پاکستان تحریک انصاف کا سواٹ (Wsot) تحریر کیا اور ہم ایک بڑے دلچسپ نتیجے پر پہنچے''۔ سیف اللہ کے چہرے پر ذو معنی سی مسکراہٹ آ گئی ''ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ پی ٹی آئی کی طاقت عمران خان ہے' کمزوری عمران خان ہے اور تھریٹ بھی عمران خان ہی ہے''۔
چار سال بعد 2013 کے الیکشن کے انتخابی نتائج سنتے ہوئے احساس ہوا کہ پلوں کے نیچے سے واقعی بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ کل کی ایک بے مایہ جماعت جسے ایک سابقہ کرکٹر کا فین کلب سمجھا جاتا تھا' آج دنیا کے چھٹے بڑے ملک اور پانچویں ایٹمی طاقت کی دوسری سب سے بڑی سیاسی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل ہو چکا ہے۔ گوکہ فیس بک اور سوشل نیٹ ورک پر کہرام مچا ہوا ہے' لیکن پاکستان تحریک انصاف کو اپنی الیکٹرول پرفارمنس پر فخر ہونا چاہیے کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے متبادل کے طور پر ابھر کر سامنے آ چکی ہے اور بہت امید کی جا سکتی ہے کہ وہ صوبہ خیبر پختون خوا میں حکومت بھی بنا لے گی۔ یہ ایک عظیم جست سے کم نہیں ہے۔ 11 مئی کا دن طلوع ہوا تو اس میں نئے پاکستان کے بہت سے اشارے چھپے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے تو ان دوستوں کی طرف سے قطاروں میں لگے اور ووٹ ڈالنے کی خبریں ملیں جن کی سات پشتوں میں سے آج تک کسی نے ووٹ نہیں ڈالا تھا جوش و خروش دیدنی تھا۔
مدتوں بعد قوم نیند سے کروٹ لے کر بیدار ہو رہی تھی اور ووٹ کاسٹ کرنے کا باقاعدہ مقابلہ چل رہا تھا ۔ سوشل میڈیا پر حسب دستور تحریک انصاف کی دھوم مچی رہی تھی تاہم سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ لب و لہجہ بدلنے سا لگا۔ نتائج آنے شروع ہوئے تو سیاست نے جوش و خروش کی جگہ لے لی۔ خیبر پختون خوا سے تحریک انصاف کامیاب ہو رہی تھی مگر پنجاب سے مسلم لیگ نون کا پلڑا بھاری تھا۔ جلد ہی نوجوانوں کی اکثریت سرنیچے ڈالے طعنہ زنی پر اتر آئی۔ ایک دوست نے تو خوب دلچسپ تبصرہ کیا انھوں نے کہا کہ جس طرح خیبر پختون خوا میں عید کا چاند پہلے نظر آتا ہے اسی طرح ہمارے پختون بھائیوں نے تبدیلی کا چاند پہلے دیکھ لیا اور پنجاب اس عید سے محروم ہو گیا۔ جذبات میں وہی ابال تھا ۔ نیا پاکستان ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس امر کا تجزیہ کیا جائے کہ کیا واقعی ''نیا پاکستان'' جنم لے چکا ہے یا خواب راکھ میں بدل چکے ہیں۔
تجزیہ کیا جائے تو احساس ہو گا کہ ہمارے رومانوی مزاج میں بہت اتھل پتھل ہوئی ہے۔ کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار جا کر ہم دم لیتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ امر ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان تقریباً 20کروڑ لوگوں کا ایک ملک ہے جس کی تقریباً 20 فیصد آبادی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سہولت مہیا ہے اور اس آبادی کا 7 فیصد سوشل نیٹ ورک پر پایا جاتا ہے' ابھی بھی ہماری کثیر آبادی دیہاتوں میں آباد ہے جہاں پر سیاسی کلچر پٹواری' پولیس اور چوہدری' سائیں یا خان کے گرد گھومتا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم دنیا کے دس ان پڑھ ملکوں میں شمار ہوتے ہیں جب کہ دنیا بھر میں ووٹ ڈالنے کی شرح کو دیکھا جائے تو ہم کم ترین شرح کے پانچ ممالک میں شامل ہوتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی اندرونی انتخابات میں ایک سال گنوانے کے بعد جب امیدواروں کے چناؤ میں بھی قدرے رسوا ہوئی اور بعدازاں سمندر پار پاکستانیوں کو بھی نظر انداز کر نے کی حماقت کر بیٹھی۔ تاہم اگر غیر جانبدارانہ نظر سے دیکھا جائے تو ایک سترہ سالہ سیاسی جماعت جس کی واحد سیاسی نمایندگی عمران خان کی سیٹ تھی۔ اگر آج پاکستان کی دوسری یا تیسری سیاسی جماعت کا درجہ اختیار کر جاتی ہے تو یہ کامیابی بذات خود مبارکباد کی مستحق ہے۔
موجودہ انتخابات میں بہت سے برج الٹے ہیں۔ عوام نے سابقہ پانچ برسوں سے سجائے ہوئے سرکس کا گن گن کر انتقام لیا ہے۔ سابقہ وزیراعظم گیلانی پر بھی الزامات لگے ۔ سابقہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور مرکزی حکومت کے دیگر نورتن بھی اپنی نشستیں گنوا بیٹھے۔ پیپلزپارٹی کا ووٹر جسے جیب کی گڈی سمجھا جاتا تھا۔ اس نے بھٹو کے نام پر کیے گئے ''فراڈ ''کو مسترد کر دیا یہ بات اس حوالے سے اہم ہے کہ اسے ہماری پارہ پارہ سیاسی تاریخ میں سیاسی حرکیات کے حوالے سے اہم تبدیلی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
پاکستن مسلم لیگ نون کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ''جنون'' اور ''انقلابی'' آنی جانیوں اور بھاری بھرکم منصوبوں اور بمقابلہ سندھ' خیبر پختون خوا ' بلوچستان گورنمنٹ قدرے شفاف ہونے کا فائدہ ملا ہے۔ تاہم یہ امر بھی سامنے آ چکا ہے کہ سخت روئیے اپنانے کی کوشش کی گئی تو اب وہ بہت مہنگی پڑے گی۔ عمران خان کی اٹھائی ہوئی تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے پی ایم ایل نون کو واقعی سخت کوشش کرنا پڑی۔ یہی نہیں پاکستان کی وزارت عظمی کا کانٹوں کا تاج تیار ہے۔ عسکریت پسندی زوروں پر ہے' ٹیکس چوری میں ہم دنیا بھر میں سرفہرست ہیں' ملکی اقتصادیات کا دیوالیہ نکل چکا ہے ۔ امریکا کا افغانستان سے انخلا خطے میں ہیجان برپا کرنے والا ہے۔ سچ پوچھیں تو اس نازک وقت میں یہ پہاڑ سا بوجھ آنے والا ہے جو وزیراعظم کے کاندھوں کی توانائی کا امتحان لینے کے لیے تیار ہے۔
میرے خیال میں تحریک انصاف کو ایک بھرپور موقع ملا ہے۔ مشہور و معروف ''سونامی'' ابھی نہیں تو اگلے آنے والے انتخابات میں برپا ہو سکتا ہے۔ مگر اس مقصد کے لیے پی ٹی آئی کو خیبر پختون خوا میں اپنا لوہا منوانا ہو گا۔ یاد رہے کہ ترکی میں وزیراعظم طیب اردگان کی پارٹی نے بھی صرف دارالخلافہ استنبول کی میئر شپ سے پورے ملک میں ''انقلاب'' برپا کیا تھا۔ پی ٹی آئی اگر کے پی کے کو ایک مثالی انداز میں چلا دکھائے تو اگلے انتخابات میں ملک بھر کے عوام کو ایک ماڈل مہیا ہو سکتا ہے۔ اب موقع نعرے لگانے کا نہیں۔ کچھ کر دکھانے کا ہے اور کے پی کے میں کامرانی' سونامی کا راستہ بھی ہموار کر سکتی ہے جو پہلے ہی پہاڑوں کو فتح کر چکا ہے۔
جو دوست احباب ''انقلاب'' نہ آنے پر دل گرفتہ ہیں ان سے عرض ہے کہ ہمیں اپنے ملکی' تہذیبی' لسانی اور ثقافتی ورثے کو دیکھتے ہوئے ہی ایسے اندازے لگانے چاہئیں۔ کیا یہ کم ہے کہ 66 برسوں میں ہم پہلی مرتبہ سویلین حکومت کے انتقال اقتدار کا مرحلہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آج کا پاکستان زیادہ باشعور ہے' وہ کسی کی جیب کی گھڑی نہیں ہے۔ وہ ووٹ کو برچھی بنانے کا فن سیکھ چکا ہے۔ وہ اپنے لیڈروں کے احتساب کا بھی قائل ہے اور اسے زیادہ دیر تک بے وقوف بنانا ممکن نہیں ہو گا۔ایک چینی دانشور سے کسی نے منصوبہ بنانے کے حوالے سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اگر سال بھر کا سوچنا ہے تو پھول اگاؤ' اگر دس سال کا سوچنا ہے تو درخت اگاؤ اور اگر قوم کے بارے میں منصوبہ بنانا ہے تو سو سال کی سوچو۔ یاد رہے کہ جو مشعل ہم نے 11 مئی کو جلائی ہے اسے اگلی نسلوں تک پہنچانا ہے۔ خان ساٹھ سال کا ہو گیا مگر بوڑھا نہیں ہوا۔ اس کے متوالوں کو عین شباب میں اپنے خواب جوان رکھنے ہوں گے ایک لیٹی ہوئی قوم کو اٹھانا' ٹوئنٹی ٹوئنٹی یا ون ڈے نہیں کم از کم ایک عشرے کا میچ ہے اور ابھی بہت سے اوور باقی ہیں۔
چلو اٹھو زمین کھودیں
اور اس میں اپنے دل بو دیں
کریں آباد پھر اس کو
محبت کے پسینے سے
کہ اس بے کار جینے سے
نا تم خوش ہو
نا میں خوش ہوں