پُرانے چہروں کے درمیان جیت کا عزم لیے نوجوان

نئی نسل کے نمائندے اپنے اپنے حلقے کی نمائندگی کے لیے میدان میں


نئی نسل کے نمائندے اپنے اپنے حلقے کی نمائندگی کے لیے میدان میں ۔ فوٹو : فائل

KARACHI: ہمیشہ کی طرح ان انتخابات میں بھی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد حصہ لے رہی ہے۔ تاہم بڑے بڑے دعوؤں اور خود کو نوجوانوں کی نمائندہ قرار دینے کے باوجود کسی سیاسی جماعت نے اپنے امیدواروں کی فہرست میں چند ہی نوجوانوں کو رکھا، چناں چہ ان جماعتوں کے امیدواروں میں نوجوانوں کا تناسب بس ایک سے چار فی صد تک ہے۔

ان میں سے بھی کئی وہ ہیں جنھیں سیاست ورثے میں ملی اور اب ٹکٹ بھی بہ طور ورثہ حاصل ہوا ہے۔ دوسری طرف ایسے نوجوان بھی میدان میں ہیں جو اپنے بَل بوتے پر سیاست میں آئے اور اب خاندانی اثرورسوخ اور دولت کے ہتھیاروں کے بغیر الیکشن کے میدان میں اُترے ہیں۔ یہاں ہم ملک بھر سے الیکشن لڑنے والے نوجوان امیدواروں کا تعارف پیش کر رہے ہیں۔

ضلع لاہور کے حلقہ پی پی 146 سے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لینے والے نوجوان امیدوار کا نام ملک زمان نصیب ہے، جو پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے انتخابی معرکہ لڑنے جا رہے ہیں۔ پیشہ کے اعتبار سے تاجر ملک زمان نصیب انجمن تاجران آدم مارکیٹ کے صدر ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے والے ملک زمان کا مقابلہ مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہبازشریف کے صاحبزادے میاں حمزہ شہباز سے ہے۔ 31 سالہ ملک زمان نصیب کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ 15سال سے پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ یہ ان کا پہلا الیکشن ضرور ہے، لیکن وہ انتخابی رموز سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔

پی پی 153 سے پی ٹی آئی کی طرف سے ایک اور نوجوان امیدوار خالد محمود گُھرکی ہیں، جو پیپلزپارٹی کی معروف راہ نما ثمینہ گُھرکی کے بھتیجے ہیں۔ ایف سی کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے والے پی ٹی آئی کے امیدوار اور وائس چیئرمین انجمن تاجران لاہور پہلی بار عام انتخابات میں حصے لے رہے ہیں۔ ان کے مقابل مضبوط امیدوار ن لیگ کی طرف سے خواجہ عمران نذیر ہیں، جنہوں نے کونسلر سے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور گذشتہ دور حکومت تک وہ وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے عہدے تک پہنچے۔

ضلع شیخوپورہ کے حلقہ پی پی 140 سے 28 سالہ طیاب راشد سندھو آزاد حیثیت میں پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ایل ایل بی آنرز کی ڈگری رکھنے والے اس امیدوار کا انتخابی نشان جیپ اور منشور کا اہم ترین جزو شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی ہے۔ طیاب راشد سندھو کے مقابل مسلم لیگ نواز کے منجھے ہوئے امیدوار یاسر گجر اور پی ٹی آئی کے مضبوط میاں خالد ہیں۔ اسی حلقے سے پہلی بار الیکشن لڑنے والے ایک اور نوجوان امیدوار رائے قیصر عباس ہیں، جو گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ رائے قیصر پرانے سیاسی ورکر ہیں، جن کا پہلے پیپلزپارٹی سے تعلق تھا۔

اوکاڑہ کے حلقہ پی پی 189 سے چوہدری منیب الحق پہلی بار ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ایم اے، ایل ایل بی کی اسناد کے حامل اس امیدوار کے مدمقابل تحریک انصاف کے سلیم صادق ہیں، جو انڈر میٹرک اور مرکزی انجمن تاجران اوکاڑہ کے صدر ہیں۔ پی پی 186 (اوکاڑہ) سے میاں نورالامین ناصر وٹو ن لیگ کے پلیٹ فارم سے عام انتخابات کا حصہ بن چکے ہیں۔ بی اے آنرز کی ڈگری رکھنے والے میاں نورالامین وٹو کے مقابل امیدوار میاں خرم جہانگیر وٹو ہیں، جو تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اوکاڑہ سٹی کے حلقہ این اے 144 سے راؤ حسن سکندر پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ وہ سابق وزیردفاع راؤ سکندر مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ ان کا مقابلہ مسلم لیگ نواز کے مضبوط امیدوار ریاض الحق جج سے ہے، جو پچھلے الیکشن میں یہاں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

فیصل آباد کے شہری حلقے پی پی 115سے رانا علی عباس ایڈووکیٹ پہلی بار ن لیگ کے پلیٹ فارم سے عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ 2017ء میں صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن فیصل آباد اور2010ء میں سیکرٹری ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن رہ چکے ہیں۔ ان کے مقابل پی ٹی آئی کی طرف سے ڈاکٹر اسد معظم جب کہ پی پی پی کی جانب سے نجف ضیاء وڑائچ امیدوار ہیں۔

عدنان انور رحمانی پی پی 112 سے الیکشن لڑ کر اپنی انتخابی سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار بنیادی طور پر بزنس مین ہیں اور ان کا مقابلہ ن لیگ کے میاں طاہرجمیل اور پیپلزپارٹی کے عدیل تاج سے ہے۔ علی افضل ساہی پی پی97چک جھمرہ سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر ہیں۔ علی افضل ساہی 5 بار ممبر صوبائی اسمبلی رہنے والے سابق اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری محمد افضل ساہی کے صاحبزادے ہیں، انہوں نے ایچی سن کالج سے اولیول اور ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے بی اے ایل ایل بی بھی کیا۔

ان کا مقابلہ ن لیگ کے آزاد علی تبسم اور پیپلزپارٹی کے طارق باجوہ سے ہے۔ پی پی106ڈجکوٹ سے چوہدری دلنوازچیمہ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے پہلی بار جنرل الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے والد سردار دلدار احمد چیمہ تین بار ممبر قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ ان کا مقابلہ ن لیگ کے خالد پرویز گل سے ہوگا۔ پی پی105سمندری سے نوجوان امیدوار کا نام حافظ ممتاز احمد اور ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ ان کا مقابلہ منجھے ہوئے ن لیگ کے راؤ کاشف رحیم اور پیپلزپارٹی کے رانا فاروق سعید خاں سے ہے۔ حافظ ممتاز احمد ایک تاجر ہیں۔

گوجرانوالہ کے حلقہ پی پی 53 سے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر بلال فاروق تارڑ پہلی بار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ سابق صدر محمد رفیق تارڑ کے پوتے ہیں۔ لندن سے ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کرنے والے اس امیدوار کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ناصر چیمہ سے ہے، جو قبل ازیں ایم پی اے رہ چکے ہیں۔ این اے 68 گوجرانوالہ سے چوہدری شجاعت حسین کے 26 سالہ بھتیجے چوہدری حسین الہی ق لیگ کے امیدوار ہیں۔ تحریک انصاف سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بعد انہیں دونوں جماعتوں کا مشترکہ امیدوار کہا جاسکتا ہے۔ اس حلقے میں ان کا مقابلہ ن لیگ کے سابق ایم این اے چودھری غضنفر علی گل سے ہوگا۔

رحیم یار خان کے شہری حلقہ پی پی 262سے ن لیگ کے راہ نما سینیٹر چوہدری جعفر گجر کے صاحبزادے چوہدری عمر جعفر ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ میٹروپولیٹن یونیورسٹی آف لندن سے بزنس اینڈ فنانس میں ڈگری حاصل کرنے والے عمرجعفر کا مقابلہ تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری آصف مجید اور پیپلزپارٹی کے صفدر کانجو سے ہے۔ پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر اور سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے خود الیکشن لڑنے کے بجائے اپنے نوجوان صاحبزادوں مخدوم سیدمصطفی محمود اور مخدوم مرتضی محمود کو میدان میں اتارا ہے۔

این اے 178 سے اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان مخدوم مصطفی محمود الیکشن لڑ رہے ہیں، جن کا مقابلہ پی ٹی آئی کے امیدوار رئیس محبوب سے ہو گا۔ مخدوم مرتضی محمود نے یوکے کی یونیورسٹی ESSexسے پولیٹیکل سائیس میں بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اب قومی حلقہ 180 سے پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں، ان کے مقابل ن لیگ کے سابق ایم این اے سردار ارشد خان لغاری اور پی ٹی آئی سے سردار رفیق حیدر لغاری ہیں۔ مخدوم احمد محمود نے اپنے بھتیجے مخدوم عثمان محمود کو صوبائی حلقے 263سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر میدان میں اتارا ہے۔

ان کے والد مخدوم علی اکبر محمود دو بار ممبر صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں ۔ مخدوم سید عثمان محمود نے یونیورسٹی آف اسکاٹ لینڈ سے بی ایس ای اکنامکس اینڈ سائنس اور یونیورسٹی آف لندن سے ایم اے اکنامکس اینڈ پراپرٹی ڈویلپمنٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، ان کے مقابل ن لیگ سے سابق ایم پی اے سے چوہدری محمود الحسن چیمہ اور تحریک انصاف سے چوہدری محمود شفیق ہیں۔ صوبائی حلقہ پی پی 266 سے سابق وفاقی وزیرمملکت رئیس منیر کے صاحبزادے رئیس نبیل احمد پیپلزپارٹی کی طرف سے انتخابی میدان میں ہیں، جو اس سے قبل اپنے آبائی علاقہ بھونگ سے بلامقابلہ چیئرمین ضلع کونسل منتخب ہوچکے ہیں۔

احمد پور شرقیہ کے حلقہ پی پی 253 سے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی پلیٹ فارم سے نوجوان امیدوار حسین علی درانی پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات محمد علی درانی کے صاحبزادے حسین علی درانی نے لاہور کی ایک معروف یونیورسٹی سے ہیومن ریسورس میں ماسٹرز کرنے کے بعد کینیڈا کی ایک بڑی جامعہ سے امتیازی حیثیت میں ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مقابل ن لیگ کے امیدوار قاضی عدنان فرید اور پی ٹی آئی کے صاحبزادہ زین عباسی اور ق لیگ کے سجاد الہی سندھو ہیں۔

تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کے فرزند زین قریشی ملتان کے حلقہ این اے 157سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ برطانیہ سے گریجویشن کرنے والے 33 سالہ امیدوار کے مقابل پیپلزپارٹی سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی اور ن لیگ کے عبدالغفار ڈوگر ہیں۔ سرگودھا کے حلقہ این اے 89 سے سابق وفاقی وزیر چوہدری غیاث میلہ کے صاحبزادے اسامہ غیاث میلہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں، جن کا مقابلہ ن لیگ کے سابق ایم این اے محسن شاہنواز سے ہے۔ این اے 91 میں متحدہ مجلس عمل کے نوجوان امیدوار حافظ فرحان احمد گجر الیکشن لڑ رہے ہیں، جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔

ان کا مقابلہ سابق ن لیگی ایم پی اے اور موجودہ پی ٹی آئی کے امیدوار عامر سلطان چیمہ اور ن لیگ کے ذوالفقار بھٹی سے ہے۔ این اے 91 سے ایک اور نوجوان امیدوار کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کے صاحبزادے حافظ طلحہ سعید بھی پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ پی پی 75 سے تحریک انصاف کے نوجوان امیدوار منیب سلطان چیمہ ہیں، جو عامر سلطان چیمہ کے بیٹے اور علاقے کے معروف سیاسی راہ نما انور چیمہ مرحوم کے پوتے ہیں۔ منیب چیمہ نے برطانیہ سے اعلٰی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ ان کے مقابل ن لیگ کے محمد عمر کلیار ہیں۔ انصر مجید نیازی پی پی 78 سے تحریک انصاف کے امیدوار ہیں، جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ اس حلقے میں ان کا مضبوط حریف سابق ایم پی اے رضوان گل کی اہلیہ عمارہ رضوان گل ہیں۔

عبیداﷲعابد، اسلام آباد
این اے 53 سے عوامی نیشنل پارٹی کے نام زد کردہ ندیم سرور قومی اسمبلی کی نشست کے لیے سب سے کم عمر امیدوار ہیں۔ ان کی عمر 25 سال آٹھ ماہ ہے، وفاقی اردو یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ کرچکے، اب کیپیٹل یونیورسٹی میں ایم فل کے طالب علم ہیں۔ بنیادی طور پر صوابی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اے این پی کی طلبہ تنظیم پختون اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے صوبۂ پنجاب کے صدر ہیں۔ اپنے اثاثوں کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان کے اکاؤنٹ میں صرف دوہزار روپے ہیں۔ ان کے ساتھی چندہ کرکے انتخابی مہم چلارہے ہیں۔

این اے 53 ہی سے 29 سالہ امیدوار شماخ حسن خان میدان میں ہیں۔ ن لیگ سے تعلق ہے۔ پارٹی نے احتیاطاً ان کے بھی کاغذات جمع کرائے تھے، کیوںکہ سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کو نااہلی کے خطرے کا سامنا تھا، جو عارضی طور پر ٹل چکا ہے، تاہم شماخ حسن خان تادم تحریر میدان میں ہیں کہ شاید شاہدخاقان عباسی کا راستہ پھر روک دیا جائے۔

عارف عزیز، سندھ

کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست 247 پر ن لیگ ن نے ڈاکٹر افنان خان کو امیدوار نام زد کیا ہے۔ ڈاکٹر افنان خان ن لیگ کے مرکزی راہ نما سینیٹر مشاہد اللہ خان کے صاحب زادے ہیں اور پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہیں۔ اسی نشست پر جبران ناصر نے آزاد حیثیت میں اپنی انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے۔31 سالہ جبران ناصر 1987 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ قانون کی تعلیم مکمل کرنے والے جبران ناصر ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم شخصیات میں سے ایک ہیں۔

اس نشست پر متحدہ قومی موومنٹ، تحریک انصاف، پی پی پی اور ایم ایم اے کے امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں۔ مذکورہ نوجوان امیدواروں کا مقابلہ عارف علوی، محمد حسین محنتی، فاروق ستار اور عبدالعزیز میمن سے ہوگا۔ دینی جماعتوں پر مشتمل انتخابی پلیٹ فارم سے پہلی بار قومی انتخابات میں حصّہ لینے والوں میں مدثر حسین انصاری بھی شامل ہیں جو کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن کے رہائشی ہیں اور عام الیکشن میں پی ایس 117 سے انتخابی میدان میں اترے ہیں۔ جماعتِ اسلامی سے وابستہ مدثر حسین 1981 میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور درس و تدریس سے منسلک ہیں۔

ان کا مقابلہ متحدہ قومی موومنٹ کے صداقت حسین اور دیگر بڑی جماعتوں کے امیدواروں سے ہو گا۔ حافظ حمد اللہ حقانی کراچی میں مقیم ہیں، مگر ان کا آبائی علاقہ گھوٹکی ہے جہاں وہ 1981 میں پیدا ہوئے۔ کراچی منتقل ہونے کے بعد سماجی خدمات کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام (ف) سے وابستگی اختیار کی اور مقامی امیر کی حیثیت سے سرگرم ہیں۔ انہیں پی ایس 87 پر انتخابی ٹکٹ دیا گیا ہے۔ جے یو آئی (ف) کے ایک اور رکن محمد فاروق خلیل صوبائی نشست 92 پر انتخابی امیدوار ہیں۔ ان کا سن پیدائش 1986ہے۔ ایم اے اسلامیات کرنے کے بعد درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوئے۔

کراچی کے علاقے لیاری کی نشست این اے 246 پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین نوجوان بلاول بھٹو سمیت 26 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ بلاول پہلی بار انتخابی اکھاڑے میں اترے ہیں۔ ان کے مقابلے پر ن لیگ کے سلیم ضیا، ایم ایم اے کے مولانا نور الحق، پی ایس پی کے اعجاز احمد بلوچ و دیگر امیدوار موجود ہیں۔

کراچی میں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 238 ملیر بھی اہمیت رکھتا ہے۔ اس حلقے پر پی ٹی آئی نے اپنے نوجوان راہ نما نعیم عادل شیخ کو نام زد کیا ہے۔ اس حلقے میں کُل بیس امیدوار میدان میں ہیں۔ پیپلز پارٹی کا مقابلہ دو بڑی جماعتوں کے صوبائی صدور اور پی ٹی آئی سے ہے۔ اس حلقے سے عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر شاہی سید، مسلم لیگ (ن) کے صدر شاہ محمد شاہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔

کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 256 میں پاک سرزمین پارٹی کے امیدوار تیس سالہ عادل صدیقی ہیں۔ وہ ایم بی اے کی تعلیم مکمل کرچکے ہیں اور لیکچرر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔ انہیں ن لیگ کے دوست محمد، متحدہ مجلس عمل کے ڈاکٹر معراج الہدیٰ، پی پی پی کے امیدوار ساجد حسن اور ایم کیو ایم کے عامر چشتی کا سامنا کرنا ہے۔

قومی اسمبلی کی نشست 238 کے لیے راؤ محمد زبیر کو پی ایس پی نے انتخابی ٹکٹ دیا ہے۔ 32 سالہ راؤ زبیر پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ پی ایس 87 ملیر سے زبیر جان بروہی پاک سَرزمین پارٹی کے نوجوان امیدوار ہیں۔ ان کی عمر 29 سال ہے۔ اسی طرح صوبائی نشست88 پر پی ایس پی نے فرحان جاوید کو ٹکٹ دیا ہے۔ 31 سالہ فرحان جاوید نے بی کام تک تعلیم حاصل کی ہے اور سیلز کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ پی ایس 96 میں سید فیضان یاسر پی ایس پی کے امیدوار ہیں۔ 32 سالہ سید فیضان یاسر نے ایم بی اے کیا ہے۔ پی ایس 100 میں 29 سالہ شہزاد رضا پی ایس پی کے امیدوار ہیں۔ وہ انجینئر ہیں۔

کراچی کی صوبائی نشست 102پر 32 سالہ محمد ارسلان علی خان ایم کیوایم پاکستان کے امیدوار ہیں۔ وہ قومی اسمبلی کے لیے تو پہلی مرتبہ انتخابی اکھاڑے میں اترے ہیں، تاہم بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔ ان کا مقابلہ پی پی پی کے ریاض بلوچ اور ارسلان گھمن سے ہے۔ صوبائی حلقۂ انتخاب 129 پر متحدہ نے 28 سالہ معاذ مقدم کو میدان میں اتارا ہے۔

یہ ان کا پہلا انتخابی معرکہ ہے۔ وہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان کے مقابل پی پی پی کے دل محمد خان، پی ٹی آئی کے نادر اور پی ایس پی کے فیصل معیز خان ہیں۔ خرم شہزاد پی ایس 104 پر الیکشن لڑیں گے۔ اس گریجویٹ امیدوار کی عمر 36سال ہے، جسے ایم کیوایم نے امیدوار نام زد کیا ہے۔ خرم شہزاد بلدیاتی انتخاب میں یوسی 5 محمود آباد سے منتخب ہوچکے ہیں۔ مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والے اس امیدوار کا مقابلہ پی پی پی کے سعید غنی اور عرفان اﷲ مروت سے ہوگا۔

سالہ31 علی خورشیدی ملازمت پیشہ ہیں۔ انہوں نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کررکھی ہے۔ وہ پی ایس 119 پر متحدہ کے امیدوار ہیں۔ تحریک انصاف نے حلقہ این اے 238 سے زارا خان کو ٹکٹ دیا ہے۔ زارا خان سوشل ورکر ہیں اور پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

سندھ کے مختلف اضلاع میں کشمور کندھ کوٹ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس ضلع سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے راہ نما سلیم جان مزاری کے بھانجے احسان رحمٰن مزاری این اے 197سے میدان میں اترے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا یہ نوجوان امیدوار 2013 میں ایم این اے رہ چکا ہے۔ 1981 میں پیدا ہونے والے احسان مزاری پچھلے الیکشن میں حلقہ 210 سے جیتے تھے۔

کنب اور کوٹ ڈیجی کی سیاست سرگرم اور پیپلز پارٹی سے وابستہ منور علی وسان شاہ نے عبداللطیف یونیورسٹی سے بی اے کیا اور بعد میں وکالت کی طرف آگئے۔ وہ پی پی پی کے راہ نما اور سابق صوبائی وزیر منظور حسین وسان کے بھتیجے ہیں۔38 سالہ منور علی وسان کوٹ ڈیجی تحصیل کے ناظم رہ چکے ہیں۔ پی پی پی کی قیادت نے ان کو کوٹ ڈیجی تحصیل سے پی ایس 27 پر انتخابی اکھاڑے میں اتارا ہے۔ ان کا اصل مقابلہ پی پی پی مخالف اتحاد گریٹ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) سے ہے۔

شہداد کوٹ کی طرف چلیں تو یہاں31 سالہ نوابزادہ ریحان خان چانڈیو میدان میں ہیں۔ ان کے والد مرحوم نواب شبیر احمد خان چانڈیو رکن قومی اسمبلی اور ضلع ناظم رہے، جب کہ بڑے بھائی سردار خان چانڈیو ایم پی اے اور نوابزادہ برہان خان چانڈیو صوبائی مشیر بھی رہے ہیں اور اب بھی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں جب کہ ریحان خان آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ 29 سالہ مظفر علی بروہی پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں جب کہ ان کا آبائی پیشہ زمیں داری ہے۔ وہ پہلی بار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے مخالف اتحاد جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے پی ایس 14 اور این اے 202 پر نام زد ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے پی ایس 14شہدادکوٹ پر 37 سالہ ناہید کھاوڑ میدان میں ہیں۔ انہوں نے گذشتہ عام انتخابات میں اسی حلقے سے سے فنکشنل لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا۔ وہ شہداد کوٹ سے پہلی خاتون ہیں جو براہِ راست پارلیمانی سیاست میں حصہ لے رہی ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے راہ نما ڈاکٹر خالد محمود سومرو (مرحوم) کے صاحب زادے33 سالہ ناصر محمود سومرو بھی اس بار متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر میدان میں ہیں۔ ان کا حلقہ این اے 202 شہدادکوٹ ہے جہاں وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار آفتاب شعبان میرانی سمیت 10 امیدواروں کے مقابلے پر میدان میں ہیں۔ بیرسٹر اختر حسین شیخ 30 سال کے ہیں اور آزاد حیثیت سے پی ایس 14 سے انتخابی اکھاڑے میں اترے ہیں۔ ان کا اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے نام زد امیدوار میر نادر علی خان مگسی سے ہے۔ اختر حسین شیخ لندن سے قانون کی تعلیم حاصل کر کے وطن لوٹے ہیں اور مختلف اداروں میں لیکچرر کی حیثیت سے ذمہ داری نبھاتے ہیں۔

صوبائی اسمبلی کی نشست 24 پر متحدہ مجلس عمل کے امیدوار زبیرحفیظ شیخ ہیں جو 1983ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حفیظ شیخ معروف تاجر ہیں اور جماعت اسلامی سے وابستہ رہے ہیں۔ زبیر حفیظ شیخ وکالت کی ڈگری حاصل کی ہے۔

خیرپور کی صوبائی نشست 29 پر پیپلزپارٹی نے شیراز راجپر کو ٹکٹ دیا ہے جو سنیئر سیاست دان اور سابق رکن اسمبلی شوکت خان راجپر کے صاحب زادے ہیں۔ ان کی عمر 35 سال ہے۔ انہوں نے بیرون ملک سے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے۔ ضلع مٹیاری کی نشست پی ایس 58 پر پی پی پی نے مخدوم محبوب زمان کو انتخابی اکھاڑے میں اتارا ہے۔ انہوں نے ماسٹرز تک تعلیم حاصل کی ہے اور وہ مخدوم خاندان کے فرزند ہیں۔

سکھر سے شہری نشست پی ایس 24پر خورشید شاہ کے بیٹے سید فرخ شاہ میدان میں ہیں۔ ان کے مقابل کوئی مضبوط امیدوار نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے ان کی کام یابی کے امکانات روشن ہیں۔

روخان یوسف زئی، نویدجان، خیبرپختون خوا

ایمل ولی خان 1988ء میں اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان کے ہاں ولی باغ چارسدہ میں پیدا ہوئے۔ تیس سالہ ایمل ولی خان اے این پی کے صوبائی ڈپٹی جنرل سیکرٹری، ممبر پارلیمانی بورڈ اور باچاخان مرکز کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہیں پارٹی کی جانب سے پی کے 18 چارسدہ سے الیکشن لڑنے کے لیے نام زد کیا گیا۔ وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اپنی انتخابی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے دادا خان عبدالولی خان کی طرح شعلہ بیاں مقرر بھی ہیں اور ملک کی سیاسی صورت حال پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ عام انتخابات میں ایک منظم سازش اور منصوبے کے تحت اے این پی کو پارلیمان سے باہر رکھا گیا، تاہم آنے والا وقت پھر اے این پی کا ہے۔

نوجوان امیدوار فیصل خان اے این پی کے ٹکٹ پر پی کے 43صوابی سے پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ تحصیل ٹوپی کے ایک قوم پرست خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے چچا نابات خان اس وقت اے این پی تحصیل ٹوپی کے صدر ہیں۔ فیصل خان نے گریجویشن کیا ہے اور حلقے میں اپنی انتخابی مہم زورشور سے چلارہے ہیں۔

ضلع صوابی کے مشہور گاؤں کرن شیرخان کلے سے تعلق رکھنے والے نوجوان امیدوار عمران اللہ ولد ذاکرخان این اے 19صوابی سے ن لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات میں پہلی بار حصہ لے رہے ہیں۔ وہ ن لیگ تحصیل رزڑ کے صدر بھی ہیں اور ایک بااثر اور دولت مند گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے 2015ء میں انسٹی ٹیوٹ آف منیجمینٹ سائنس حیات آباد سے مارکیٹینگ میں ماسٹرز کیا ہے۔

پی کے 46 صوابی سے قومی وطن پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابی دنگل میں پہلی بار اترنے والے نوجوان امیدوار برہان اللہ موضع جلسئی صوابی کے حاجی شیرگل دکاندار کے ہاں 3مارچ1997ء کو پیدا ہوئے۔ وہ بی اے پاس ہیں۔ انہوں نے گذشتہ بلدیاتی انتخابات میں بھی قومی وطن پارٹی کے ٹکٹ پر ضلع کونسلر کا الیکشن لڑا تھا، مگر ناکام رہے۔ وہ عام انتخابات میں پہلی بار قسمت آزما رہے ہیں۔ وہ ایک عام غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اگر حلقے کے عوام نے مجھ پر اعتماد کیا تو چاہتا ہوں کہ بلا رنگ ونسل ہر کسی کی خدمت کروں اور حلقے پر کئی دہائیوں سے قابض سرمایہ داروں، کارخانہ داروں اور خوانین کے چنگل سے لوگوں کو آزاد کراؤں۔ ان کے مطابق ملک کا سب سے بڑا مسئلہ طبقاتی نظام ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر ضلع نوشہرہ کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 26 پر الیکشن لڑنے والے جمال خان خٹک کی عمر تقریباً 25سال ہے۔ جمال خان خٹک سابق ممبر صوبائی اسمبلی طارق حمید مرحوم کے فرزند ہیں، جنہوں نے ماضی میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو دو دفعہ شکست سے دوچار کیا تھا۔ یہاں دل چسپ امر یہ بھی ہے کہ دونوں کا تعلق نوشہرہ کے ایک ہی گاؤں مانکی شریف سے ہے اور اب کی بار مذکورہ قومی حلقے سے جمال خان خٹک کا مقابلہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے داماد اور سابق ایم این اے ڈاکٹر عمران خٹک سے ہے۔

عارف محمود،بلوچستان

کوئٹہ کے حلقے پی بی29 سے الیکشن لڑنے والے میراسداﷲ جان کا تعلق ن لیگ سے ہے، مگر وہ آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔ 35 سالہ میر اسد اﷲ جان مینگل آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہم عوام کے ساتھ رہنے والے لوگ ہیں اور عوام کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مجھے گذشتہ الیکشن میں بھی نظرانداز کردیا گیا تھا اور اس مرتبہ بھی میرے ساتھ یہی کچھ ہوا تو میں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے مسائل حل کرنا ہی منشور ہوتا ہے۔ یہاں پر شہریوں کو ڈومیسائل اور سرٹیفکیٹس کے حصول میں مشکلات پیش آتی ہیں ، بے روزگاری، قلت آب، بجلی کی لوڈشیڈنگ، صحت اور تعلیم سے متعلق مسائل کا سامنا ہے، ان کو حل کرنے کے لیے مجھ سے زیادہ بہتر انداز میں کوئی کام نہیں کرسکتا۔

کوئٹہ کے حلقے پی بی25 سے نوجوان اُمیدوار ملک فیصل خان کاکڑ حلقے کے نوجوانوں میں مقبول ہیں۔ 1990میں کوئٹہ میں پیدا ہونے والے ملک فیصل خان کاکڑ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ انہوں کہا کہ بلوچستان کے نوجوان پڑھے لکھے ہیں۔ سابق وفاقی حکومت نے نوجوانوں کے لیے جو پیکیج دیا صوبے کے نمائندوں نے اسے نظرانداز کردیا۔ پی ٹی آئی کے پاس نوجوانوں کے لیے پروگرام ہے اور ہماری جماعت کو نوجوانوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں