انتخابات میں دھاندلی کے الزامات
سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ اس بار پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر ہے۔
تاریخی طور پر، انتخابات کے بعد سیاسی جماعتیں نتائج سے اختلاف کرتی رہی ہیں ۔ ماضی میں ان سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے، جوانتخابات ہار گئیں ۔ زیادہ دور کیوں جائیں ؟ عمران خان کی زیر قیادت ، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کا سارا دھرنا، اس وجہ سے تھا کہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی ) نے بھی دعویٰ کیا تھاکہ بعض حلقوں میں ریٹرنگ افسروں کی طرف سے انتخابی نتائج کو تبدیل کیا گیا۔
مگر اس بار، دو بڑی جماعتیں، پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ، نواز (پی ایم ایل ن)کھل کر یہ کہہ رہی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پورے زورو شورکے ساتھ قبل از انتخابات دھاندلی کی جا رہی ہے۔ سول سوسائٹی کی سب سے معتبر تنظیم، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان(HRCP) نے بھی اسی قسم کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ پنجاب میں جو طاقت کا قلعہ ہے، ن لیگ کے ایسے امیدواروں پر جو منتخب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ۔ ان کے لیے یہ آپشن ہے کہ یا تو وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں یا پھرآزاد حیثیت سے انتخاب لڑیں، ورنہ انھیں قومی احتساب بیورو (نیب)کی طرف سے کرپشن کے مقدمات میں پھنسا دیا جائے گا۔
سندھ میں الیکٹ ایبلز سے کہا جا رہا ہے کہ وہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) میں شامل ہو جائیں۔ان کے اس شبہے کو دور کرنے کے لیے کہ آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی ڈیل کر لی ہے۔ زرداری اور ان کی بہن کے خلاف نئے کیس کھول دیے گئے ہیں۔ ان نئے کیسوں کا تعلق 35 بلین روپے کے کالے دھن کو سفید کرنے سے ہے۔ مجھے بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ یہ فلکیاتی اعداد وشمار کہاں سے آئے،کیونکہ کسی رپورٹر نے وفاقی تحقیقاتی ادارے یا نیب سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کیسے ان مبینہ اعداد وشمار تک پہنچے۔اب تک یہ کیس منی لانڈرنگ سے زیادہ بے نامی اکاؤنٹس کھولنے کا معاملہ نظر آتا ہے تاکہ ٹیکس نیٹ میں آنے سے بچا جا سکے۔
پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر نے بعض ایسے حاضر سروس انٹیلجنس حکام کے نام بھی بتائے ہیں،جو پی پی پی کے امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے انھیں ہراساں کر نے اور ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن نے بھی ایک جنرل کا نام لیا ہے۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کو ایک پریس کانفرنس کرکے ان الزامات کی تردید کرنا پڑی۔ پاکستان میں جو لوگ ماضی میں بھی اس طرح کی قبل از انتخاب دھاندلی دیکھ چکے ہیں،ان میں سے کتنے لوگ اس تردیدکو مانیں گے؟
پولیٹیکل انجنیئرنگ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے دوسرے ملکوں کی اسٹیبلشمنٹس بھی تواتر کے ساتھ اسے استعمال کرتی ہیں۔ وہ اس احمقانہ کہاوت پر پختہ یقین رکھتی ہیں کہ ''مقصد طریقوں کا جواز ہوتا ہے۔'' وہ اس بات کو بہت کم سمجھتی ہیں کہ اپنی پسند کا مقصد حاصل کرنے کے لیے جو طریقے اختیارکیے جاتے ہیں، ان کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں جو بعد میں دیگر تباہ کن نتائج کو جنم دیتی ہیں۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے بارہا پولیٹیکل انجنیئرنگ کی۔ ہم نے60ء اور 80ء کے عشروں میں بہت قریب سے دیکھا کہ اُس وقت بر سر اقتدار فوجی آمروںکے خلاف جمہوری تحریک کوکمزور کرنے کی غرض سے سندھ کی سندھی اور اردو بولنے والی آبادی کو تقسیم کرنے کے لیے پولیٹیکل انجنیئرنگ نے کس طرح کام کیا۔ صوبے میں رہنے والے آبادی کے دو طبقوں میں نفرت پیدا کرنے کی اس قسم کی پالیسیوں کے سنگین نتائج برآمد ہو چکے ہیں۔80ء کی دہائی میں، جنرل ضیاء حکومت کی حمایت نے کراچی میں مہاجر طلبہ کی ایک چھوٹی سی تنظیم کو ایک فسطائی سیاسی جماعت بننے میں مدد دی۔
اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان پر اس کے قیام کے بعدکم وبیش نصف عرصے تک براہ راست حکومت کی اور باقی عرصے کے دوران درپردہ طریقے سے اس پر بالواسطہ حکمرانی کی۔ اُس نے اِس یقین کے ساتھ جمہوری عمل کی افزائش میں رکاوٹیں ڈالیں کہ مقصد طریقوں کا جواز ہوتا ہے، تاہم زیادہ تر صورتوں میں وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
حکمران جنتا نے1970ء کے انتخابات میں ایک معلق پارلیمان لانے کے لیے پولیٹیکل انجنیئرنگ کی تاکہ جنرل یحییٰ خان کو صدر منتخب کرانے کی راہ ہموارکی جا سکے۔جب عوامی لیگ نے غیر متوقع طور پر انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کر لی تو اُن کی حکومت اور ذوالفقار علی بھٹو نے، مستقبل کے آئین کی جزئیات پرآئین ساز اسمبلی سے باہر بات چیت کی کوشش کی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی بنگال میں مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت شروع ہو گئی۔
بھٹو نے،1977ء میں قومی اسمبلی کی 36 نشستوں پر دھاندلی کی تھی۔ پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی قیادت میں ایک بڑی احتجاجی تحریک نے، چالاک جنرل ضیاء الحق کو حکومت کا تختہ الٹنے، ملک میں مارشل لگانے اور11 سال تک حکومت کرنے کا موقع دیا۔ جنرل ضیاء کو سیاسی حمایت درکار تھی،اس لیے انھوں نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے لیے انجنیئرنگ کی۔ ایک تابعدار وزیر اعظم کو یقینی بنانے کے لیے انھوں نے اس عہدے کے لیے اپنی مرضی سے محمد خان جونیجو کو چنا۔ تاہم، جونیجو نے اس جنرل سے انحراف کرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ جنیوا معاہدے پر دستخط کر دیے۔ فوجی آمرکی پولیٹیکل انجنیئرنگ ناکام ہوگئی جس کے بعد انھوں نے1988ء میں جونیجو حکومت اور پارلیمنٹ کو بر طرف کر دیا۔ بالآخر جنرل ضیاء، جنھوں نے اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ،خود اپنے حلقے کی حمایت کھو بیٹھے اور قتل کر دیے گئے۔
1988ء میں،دائیں بازو کی جماعتوں کے سیاسی اتحاد،اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آئی)کی پولیٹیکل انجنیئرنگ کے ذریعے اپنی پسند کے نتائج حاصل کرنے کی اسٹیبلشمنٹ کی کوشش صرف جزوی طور پرکامیاب ہو سکی۔ پی پی پی کو حکومت کی تشکیل سے روکنے کا اس کا مقصد پورا نہ ہو سکا،کیونکہ انتخابات میں یہ ایک بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی، مگر اسٹیبلشمنٹ نے پی پی پی کی حکومت کو بمشکل ڈیڑھ سال تک برداشت کیا اور آئین کے بد نام آرٹیکل58(2b) کے ذریعے اسے نکال باہرکیا۔
اسٹیبلشمنٹ کی پولیٹیکل انجنیئرنگ کو واحد بڑی کامیابی 1990ء کے انتخابات میں ملی،جب انتخابی نتائج نے آئی جے آئی کو حکومت بنانے کے قابل کر دیا تھا۔
سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ اس بار پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر ہے۔امکان ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت میں بننے والے اتحاد میں آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد شامل ہو جائے گی۔اس وقت جو صورت حال ہے اس میں یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ پی ٹی آئی مرکز میں حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ نشستیں حاصل کر پائے گی۔ عمران خان کے بعض کٹر حامیوں کو بھی امید نہیں ہے کہ وہ اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کر لیں گے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان جو جلد باز اور اپنی ہی ضد پر قائم رہنے والے انسان ہیں،کولیشن کے ساتھ چل پائیں گے ، جس میں بہت سے معاملات پر سودے بازی کرنی پڑتی ہے؟
اگر چہ پی ٹی آئی کے منشور میں خارجہ پالیسی کو چلانے کے لیے ایک اداراتی فریم ورک بنانے کا ذکرکیا گیا ہے مگر عمران خان عام طور سے بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات سے متعلق معاملات پر بات نہیں کرتے۔
دوسری طرف، نواز شریف کا بیانیہ یہ ہے کہ سیاسی حکومت کو بھارت، افغانستان اور امریکا کے ساتھ تعلقات جیسے خارجہ پالیسی کے انتہائی اہم معاملات پر فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ انھوں نے اپنی یہ بات آگے پہنچانے کے لیے انتہائی موقر اخبار ڈان کے ساتھ بات چیت کے موقعے کو استعمال کیا۔ نواز شریف کے نکتہ نظر کے ابلاغ پر، اس ذمے دار اخبار کو اسٹیبلشمنٹ کے جس غیظ وغضب کا سامنا کرنا پڑا، وہ ایک الگ کہانی ہے۔
بحیثیت مجموعی، میڈیا یہ شکایت کر رہا ہے کہ نواز شریف اور مریم صفدر کی کوریج کے معاملے میں اس پر غیر اعلانیہ سنسر شپ عائد ہے۔بہرحال، اب جب کہ پی ایم ایل این کے یہ دونوں رہنما خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر چکے ہیں، میڈیا میں ان کو زیادہ کوریج نہیں ملے گی۔ یہاں میں مریم کو پورے نمبر دینا چاہوں گا، جنھوں نے اپنی مسکراہٹ کے ساتھ جو ان کے مزاج کا خاصہ ہے، حوصلہ کے ساتھ خود کو گرفتاری کے لیے پیش کیا۔