کراچی صوبہ نہیں میگا سٹی چاہیے

شہر کے مسائل کا حل اس کے وسائل سے بااختیارفائدہ اٹھانے میں ہے نہ کہ اس کی لسانی بنیاد پر تقسیم میں


رضوانہ قائد July 07, 2018
میگا سٹی ایک کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والا عالمی شہر ہوتا ہے جو ملک کا معاشی، سیاسی و ثقافتی مرکز ہوتا ہے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

عام انتخابات کی گہماگہمی بتدریج اپنے عروج کی جانب بڑھ رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور و منصوبوں کے ساتھ قیادت کےلیے ایک بار پھر کوشاں ہیں۔ ایسے میں شہرِقائد کی تعمیر کا ایک اور عزم ایک مباحثے کی صورت میں کیا گیا۔ مباحثے کی قرارداد ہی اس کا عنوان تھی: ''ہمیں صوبہ نہیں، میگا سٹی چاہیے۔'' مباحثے کا انعقاد ملک کی معروف سماجی و سیاسی تنظیم پاسبان کی جانب سے مقامی آڈیٹوریم میں کیا گیا تھا۔ شہر کی معروف جامعات کے طلبا مقررین و سامعین کی صورت میں رونق افروز تھے۔

قائدِ ایوان محمد اطیب نے قرارداد کو تفصیلی مدلل تعارف ساتھ ایوان کے سامنے پیش کیا اور مقررین کو بحث کی دعوت دی۔ قائد ایوان کے مطابق میگا سٹی دس مِلین (ایک کروڑ) سے زائد آبادی رکھنے والا عالمی شہر ہوتا ہے جو ملک کا معاشی، سیاسی و ثقافتی مرکز ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے کراچی کی خصوصیات کے باعث اسے میگا سٹی قرار دیا گیا۔ ساتھ ہی شہر کے سلگتے ہوئے مسائل کے حل اور حقوق کےلیے میگا سٹی کی آئینی حیثیت کا پُرزور مطالبہ کیا گیا۔ ان کے مطابق کراچی، سترہ ملین سے زائد آبادی کی افرادی قوت، قومی اسمبلی اکیس سیٹوں، وفاق کو ستر ملین ڈالر ریوینیو کی فراہمی اور سب سے بڑی بندرگاہ کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا اقتصادی مرکز ہے۔



ملک کی تمام قومیتوں کے ساتھ منی پاکستان اور سب سے زیادہ تعلیم یافتہ شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مگر جب یہاں کے مسائل کو دیکھا جائے تو انتظامی اداروں کی بدعنوانی اور ذمہ داروں کی نااہلی نے عالمی معیار کے اس شہر کی تباہی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، بجلی، پانی، سیوریج، غرض ہر ادارے میں سہولیات کے فقدان کے ساتھ مسائل کا انبار ہے۔ ان کے حل کےلیے میگا سٹی کے مطالبے کو آگے بڑھاتے ہوئے الگ صوبے کی مکمل طور پر نفی کی گئی۔ ان کے مطابق صوبہ انتظامی یا لسانی دونوں صورتوں میں ناقابل عمل ہے۔ انتظامی لحاظ سے اضافی بلدیاتی اداروں اور عملے سے معیشت پر اضافی بوجھ جب کہ لسانی بنیاد پر صوبہ تعصب کے باعث خوں ریزی کا سبب ہے۔ لہذا کراچی کے مسائل حل کرنے کےلیے الگ صوبے کا غیر حقیقی مطالبہ کرنے کے بجائے اسے میگا سٹی کا درجہ دے کر اس کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔



قرارداد کی وضاحت کے بعد قائد ایوان نے اسے بحث کےلیے پیش کیا۔ قائد حزب اختلاف، این ای ڈی یونیورسٹی کے نعمان علی نے جارحانہ انداز سے قائد ایوان کی پیش کردہ قرارداد کو مسترد کیا۔ انہوں نے اگرچہ کراچی کی میگا سٹی کی حیثیت کو تسلیم کیا مگر اس کے مسائل حل کرنے کےلیے الگ صوبے پر زور دیا۔ ان کے خیال میں کراچی کے میگا سٹی ہوتے ہوئے مسائل کا جوں کا توں رہنا الگ صوبے کی ضرورت کی دلیل ہے۔ ایوان باشعور میں موجود مخالفت اور حمایت کے مقررین کے فریقین نے قرارداد کی حمایت اور مخالفت میں اپنے اپنے قائد کی بھرپور پیروی کی۔ مقررین کی حاضرجوابی اور مباحثی قابلیت کے باعث ڈھائی گھنٹے کی اس نشست میں نوجوانوں اور حاضرین کا جوش تھوڑے سے وقت کےلیے بھی ٹھنڈا نہ پڑنے پایا۔

قرارداد کے مخالف مقررین اپنے زور خطابت اور قومیت و لسانیت پر مبنی دلائل کے ساتھ حاوی رہے۔ ان کے مطابق دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آبادی کے مطابق زیادہ صوبے ہیں۔ مثلاً انڈیا، چائنہ اور ترکی وغیرہ۔ (یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ وہاں صوبے کا قیام لسانیت یا قومیت پر مبنی نہیں۔) بعض کا خیال تھا کہ الگ صوبہ نہ ہونے کے باعث انتظامی اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں ہوپاتے۔ ان کے الگ صوبے کے دلائل محرومیوں اور احساس کمتری کا نتیجہ بھی نظر آئے۔ ان کے مطابق تمام بڑی زبانیں بولنے والوں کے الگ صوبے ہیں مگر قومی زبان بولنے والوں کا کوئی صوبہ نہیں۔ (ہمارے خیال میں تعصب کی عینک ہٹا کر دیکھا جائے تو صوبوں کی زبانیں اپنے علاقوں اور قوموں تک محدود ہیں جبکہ قومی زبان اردو تمام قوموں اور ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس اعزاز کو تعصب کی بھینٹ چڑھانا کہاں کی دانشمندی ہے؟)



قرارداد کے حمایتی مقررین بھی اپنی عملی استعداد کی دھاک بٹھانے میں پیچھے نہ رہے۔ ان کے مدلل اور متوازن تجزیے قرارداد کو منظور کروانے کا سبب بنے۔ ان کے دلائل عالمی بینک کی رپورٹ، ٹرانسفارمنگ کراچی ان ٹو کمپیٹی ٹیو میگا سٹی سے بھی مربوط تھے۔ ان کے مطابق کراچی میں موجود وسائل کو مسائل سے نکالنے کےلیے بااختیار منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ مثلاً پانی کی ضرورت حب ڈیم اور کینجھر جھیل ملکر پوری کر سکتے ہیں۔ واٹر سپلائی کمپنیاں اس کام کو بہ آسانی کر سکتی ہیں۔

سالڈ ویسٹ کو کارآمد بنانے کا کام کے الیکٹرک کی منصوبہ بندی میں شامل ہے۔ انٹرنیشنل الائنس فار انجینئیرنگ نے پاکستان کے انجینئیرز کو باقاعدہ لائسنس جاری کیے ہیں۔ یہ ہمارے انجینئرز کے عالمی معیار کے مطابق ہونے کی دلیل ہے۔ ہمارے یہ انجینئرز اختیارات ملنے پر شہر کو میگا سٹی کی حیثیت پر ترقی دینے کو یقیناً فخر محسوس کریں گے۔ شہر کے ادارے باہمی تعاون سے ہی شہر کی ترقی کا سبب بنتے ہیں، لیکن اگر کراچی سندھ سے ٹوٹ جائے تو ادارے بھی تقسیم ہوجائیں گے اور تاریخ کے مطابق تقسیم کے ساتھ خوں ریزی لازمی ہے۔ شہر کے مسائل کا حل اس کے وسائل سے بااختیارفائدہ اٹھانا ہے نہ کہ اس کی لسانی بنیاد پر تقسیم۔

میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا
اِک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہیے


مباحثے کے اختتام پر جنرل سیکرٹری پاسبان عثمان معظم نے دونوں فریقوں کے دلائل کی روشنی میں قرارداد پر ایوان سے رائے مانگی۔ اکثریت نے قرارداد کے حق میں فیصلہ دیا۔

اس طرح پاسبان کے تحت ہونے والا یہ مباحثہ میگا سٹی کی جدوجہد کا پرعزم آغاز بنا۔ میگا سٹی پروجیکٹ ہیڈ اقبال ہاشمی نے میگا سٹی پروگرام کو مظلوم طبقے کی ترجمانی قرار دیا۔ منصفین نے اول، دوم اور سوم آنے والوں کا اعلان کیا اور ان میں انعامات تقسیم کیے گئے۔

اول تا آخر مسلسل توجہ کا مرکز رہنے والا یہ مباحثہ دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ میزبان ہادی فاروقی کی حاضر جوابی اور سامعین کی وقتاً فوقتاً شگفتہ ہوٹنگ نے ماحول کو بوجھل ہونے سے بچائے رکھا۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ دونوں فریقین میں ایک سو اسی ڈگری کے اختلاف کے باوجود ماحول تلخی سے پاک بلکہ ہشاش بشاش رہا۔ کراچی کے تعلق سے مخالفین کے شکوے اور متعصب احساس کمتری ان کے دلائل کا حصہ تھے، یہ ان کے بڑوں کے تیس سالہ دور کے آئینہ دار تھے۔

اس سب کے باوجود خیر سے شر اور شر سے خیر کو نکالنے والے رب نے ان نوجوانوں کے دلوں کو بغض سے پاک رکھا ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پورے جزب کے عالم میں کراچی کے سلگتے مسائل سے متعلق تلخ حقائق بیان کرتے ہوئے بھی ان کے چہرے نفرت سے پاک تھے۔ اپنے مخالف دوستوں کی محبت ان نوجوانوں کے چہروں پر بار بار مسکراہٹ بن کر دمک رہی تھی۔ میزبانوں کو انتخابات کے مفاد پرستی کے دور میں اس سچائی کا ادراک کرنا ہوگا۔ شہر قائد کی ترقی کے جدوجہد میں بھی مستقبل کے ان قائدین کو بھی اپنا سمجھنا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں