غیرمعیاری ٹی وی ڈراموں کا عذاب

ہمارے ڈرامے ناصرف گھریلو عورتوں کے احساسات کو مجروح کر رہے ہیں بلکہ زندگیوں میں زہر گھولنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے


حرا احمد July 03, 2018
ان سب ڈراموں کا ایک ہی موضوع پر ایک جیسی کہانی ہوتی ہے، وہ بھی گھسی پٹی سی۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ڈرامہ بنیادی طور پر کہانی کی جدید شکل ہے جو واقعات اور کرداروں کے باہمی ربط سے تشکیل پاتی ہے۔ جس طرح ایک کہانی دوسری کہانی سے فنی اعتبار سے مختلف ہوتی ہے، اس طرح اس کا زندگی کے ساتھ رشتہ بھی جدا گانہ ہوتا ہے۔ ڈرامہ نگار کو اپنی تخلیق میں ہر مزاج کے ناظرین کے ذوق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے موضوعات کی طرف مائل ہونا پڑتا ہے جو اپنے تاثر کے اعتبار سے نہ صرف ہمہ گیر بلکہ اجتماعی مذاق، روایت اور جذبے کی ترجمانی اور عکاسی بھی کرتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرامہ کو ''جمہوری فن'' کہا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے آج جمہور کے اس فن کو اس قدر غیر جمہوری، غیر معیاری اور غیر سنجیدہ بنا دیا گیا ہے کہ عوام الناس اب اس ہر دل عزیز تفریح سے اچھے خاصے بے زار اور متنفر نظر آتے ہیں۔

ہمارے ٹی وی ڈرامے کا کبھی وہ بھی بامِ عروج تھا جب عوام پورے ذوق و شوق کے ساتھ ٹی وی ا سکرینوں کے آگے بیٹھ کر ان سے اچھا خاصا لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ناظرین اپنے پسندیدہ ڈرامے کا پورا پورا ہفتہ انتظار کیا کرتے تھے اور ان کی مقبولیت اور معیار کا یہ عالم تھا کہ ان ڈراموں کے آن آئیر ہوتے ہی گلیاں اور سڑکیں ویران ہو جایا کرتی تھیں۔ لیکن پھر کمرشل ازم کے نام پر ڈراموں کے ساتھ وہ ڈرامے بازی شروع ہوئی جس نے ڈرامے کو عوام الناس کی نظر میں بوریت اور یکسانیت کا استعارہ بنا دیا ہے۔ اس کے باوجود ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ تمام پرائیوٹ چینلز پر بے شمار ایسے ڈرامے دکھائے جارہے ہیں جن کو دیکھنے والے منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتے۔

عوام کے ان مسترد شدہ اور ناپسندیدہ ڈراموں کی سب سے بڑی خامی ان کے بوریت سے بھرپور موضوعات اور غیر معیاری کہانیاں ہیں۔ ان ڈراموں میں پرفارمنس کی بجائے صرف گلیمر ہی نظر آتا ہے۔ ان سب ڈراموں کا ایک ہی موضوع پر ایک جیسی کہانی ہوتی ہے، وہ بھی گھسی پٹی سی۔ تقریباً ہر ڈرامے میں ساس بہو، نند بھاوج، دیورانی اور جیٹھانی ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آتی ہیں۔ گھریلو جھگڑوں میں عورتوں کی عورتوں اور مردوں کی عورتوں کے خلاف سازشوں اور ظلم و ستم کو اس قدر مرچ مصالحہ لگا کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والوں کو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ دنیا کے سارے گھٹیا مرد اور ساری گھٹیا عورتیں خیر سے صرف ہمارے معاشرے میں ہی پائی جاتی ہیں۔ یہ ڈرامے صرف گھریلو لڑائی جھگڑوں کے بارے میں عوامی شعور میں اضافہ نہیں کرتے بلکہ ان میں عشق ومحبت کے مسائل کی بھی جامع تصویر کشی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ناظرین کو عشق و محبت کے متاثرین نوجوان عاشقوں کے مسائل اور مشکلات سے دل کھول کر روشناش کروایا جاتا ہے۔ میاں بیوی کے خوبصورت رشتے کی بے توقیری بھی ان ڈراموں کا خاصہ دکھائی دیتی ہے۔

زندگی کی حقیقی اور فطری جھلک دکھانے کی بجائے ان ڈراموں میں ایسے موضوعات کو پیش کیا جاتا جنہیں دیکھ کر عوام بوریت کے سواء کچھ حاصل نہیں کرپاتے۔ ایسے ایسے ٹی وی ڈرامے پیش کیے جارہے ہیں جن کے موضوعات عامیانہ اور کہانی غیرمعیاری ہوتی ہے۔ جیسے کہ ''میں ماں نہیں بننا چاہتی۔'' ایسے ڈرامے دکھا کر ناصرف گھریلو عورتوں کے احساسات کو مجروح کیاجا رہا ہے بلکہ ان کی زندگیوں میں زہر گھولنے میں یہ ڈرامے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔

ٹی وی ڈراموں سے ملنے والا شعور وہ شعور نہیں جو ہمارے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو نکھار کر ہمیں اپنی خامیوں پر نظر ثانی کروائے، بلکہ یہ اس گھٹیا شعور کی آبیاری کر رہا ہے جسے سیکھ کر بہت ساری لڑکیاں اپنے گھر خراب کر رہی ہیں۔ اپنے خیالوں میں امیر زادوں کے خواب بساکر اور انہی ڈراموں سے سیکھ کر اپنی عزتوں کو داؤ پر لگا رہی ہیں۔ ان ڈراموں میں زیادہ تر اپر کلاس اور الٹرا ماڈرن لوگوں کی کہانیا ں پیش کی جاتی ہیں۔ لوئر یا مڈل کلاس کی کہانیاں بہت کم دکھائی جاتی ہیں۔ اس طرح دکھایا جانے والا ڈرامہ کسی بھی طرح ہماری دھرتی کے کلچر کی نمائندگی نہیں کرتا۔

ایک وہ بھی وقت تھا جب ہمارا ٹی وی ڈرامہ اپنے موضوعات کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور تھا۔ ٹی وی ڈراموں کا ہماری زندگیوں میں بڑا اہم کردار ہوا کرتا تھا۔ زندگی کی حقیقی تصویر دکھانے والے ڈرامے اور سبق آموز کہانیاں دیکھ کر عوام کئی کئی دن کہانی کے ٹرانس سے نہیں نکل پاتے تھے۔ ہمارا ڈرامہ اپنے اندر ایک تہذیب سمائے ہوتا تھا جو نام نہاد تخلیق کاروں کے ہاتھوں آج دم توڑتی نظر آتی ہے۔

ڈرامے کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ڈرامے کے اسکرپٹ کا گرتا ہوا معیار ہے۔ آج ہمارے ملک کے نامور اور مشہور ڈرامہ نگار منظر سے غائب نظر آتے ہیں جو نئے اور اچھے اسکرپٹ رائٹرز ان حالات میں کوئی معیاری اور اچھا ڈرامہ لکھنے کی جرات دکھاتے ہیں، ان کو بھی نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ ڈرامہ پروڈکشن کے کرتا دھرتا نئے لکھنے والوں کے اسکرپٹ رائٹرز کی کہانیوں کو ہتھیانے کے بعد اپنے تنخواہ دار اور گھسے پٹے رائٹرز سے لکھوا کر ایک ہی طرح کے ڈرامے بار بار بنانے پر بضد دکھائی دیتے نظرآتے ہیں۔ اس طرح کی ناانصافی سے ناصرف اصل رائٹر کا حق مارا جاتا ہے بلکہ عوام ایک اچھے ڈرامے کو دیکھنے سے بھی محروم رہ جاتی ہے۔ عمدہ کام کےلیے قابل افراد کو چننا پڑتا ہے، اور قابل افراد کی پاکستان میں کوئی کمی نہیں، اور ایک قابل انسان ہی کسی دوسرے قابل انسان کی شناخت کر سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اصل ہیرے کی پہچان صرف جوہری کو ہی ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں اکثر ٹی وی چنیلز نہ صرف غیر معیاری ڈارمے بنانے اور دکھانے میں پیش پیش ہیں بلکہ رہی سہی کسر پوری کرنے کےلیے یہ انڈین ڈراموں کو آن ائیر کرنا بھی اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہماری ٹی وی اسکرینوں پر چلنے والے انڈین مواد سے ہماری قومی روایات اور نوجوان نسل کے ذہنوں پر پڑنے والے اثرات کے باعث ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

ایک فرد ٹی وی سیٹ کے سامنے روزانہ ایک گھنٹہ سے تین گھنٹے تک صَرف کرتا ہے تو اس کی معاشرتی زندگی کے رویوں میں ضرور تبدیلی آتی ہے۔ تفریح کے حصول کےلیے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ڈرامائی پرواگرم ہی ہوتے ہیں۔ ناظرین میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ان ڈراموں سے ملنے والے شعور کو اپنے تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اسے دوسروں تک بھی پہنچاتے ہیں۔ لگ بھگ اسی فیصد ناظرین ایسے ہیں جو ڈراموں سے ملنے والے پیغام یا سبق کو آگے بھی بڑھاتے ہیں۔ ٹی وی چینل کے کرتا دھرتا اگر ایسے ڈرامے بنا بنا کر عوام کو دکھاتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب لوگ ٹی وی کے آگے بیٹھنا ہی ہمیشہ کےلیے چھوڑ دیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں