اذنِ کلام

لگتا ہے الیکشن 2018 ’’عوامی انقلاب‘‘ کی بنیاد ثابت ہوںگے۔


Saeed Parvez July 02, 2018

الیکشن 2018 سر پر آگیا ہے اور سرپھرے عوام امیدواروں کا گھیراؤ کررہے ہیں۔ خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ، بلوچستان میں عوام صدیوں سے گھیراؤ میں تھے، آج بے بس و مجبور عوام ساری زنجیریں توڑ کر اپنے دشمنوں کے سامنے آگئے ہیں۔

وہ دشمن جنھوں نے ان کے حقوق غصب کیے ہوئے ہیں، وہ دشمن جن کے محل بنتے گئے اور غریب عوام جھونپڑوں میں پڑے رہے، وہ دشمن جو بیرون ملک رہے، علاج معالجے کراتے رہے اور عوام بغیر علاج کے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے رہے، وہ دشمن جن کے بچے اعلیٰ اسکولوں میں پڑھتے رہے اور غریبوں کے بچے گلیوں میں رُلتے رہے، وہ دشمن جو اعلیٰ صاف شفاف پانی پیتے رہے اور غریب گندا پانی پیتے رہے، وہ دشمن جو غریبوں کی عزت و عصمت سے کھیلتے رہے اور غریب خون کے آنسو پیٹتے رہے۔

مگر آج سہمے ہوئے لوگوں کو بولنے کا حوصلہ مل گیا ہے۔ اذن کلام مل گیا ہے، لاڑکانہ میں سابق وزیراعلیٰ سندھ کے گھر میں عوام کی آواز بلند ہوئی۔ ''ہم جیئیں یا مریں! آپ کو اس سے کیا غرض'' مراد علی شاہ ویڈیو فلم بنانے والے پر جھپٹے اور غیظ و غضب کے ساتھ اسے کہا ''ویڈیو کیمرا بند کرو''۔ ایسا ہی منظر سید نوید قمر کا بھی سامنے آیا، وڈیرا نوید قمر سفید بے داغ لباس پہنے کرسی پر بیٹھے ہیں اور سامنے غریب عورتیں مرد کھڑے ہیں، غریب احتجاج کررہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں ''تم نے ہمارا کیا خیال رکھا'' یہاں بھی سید نوید قمر نے ویڈیو فلم بنانے والوں کو روک دیا۔

''اے! یہ ویڈیو کمرے بند کرو''۔ سکھر میں سید خورشید شاہ اور ناصر علی شاہ کی گاڑی کے سامنے غریب عوام کھڑے ہوگئے، عوام کہہ رہے تھے ''ہم دھکے کھاتے رہے مگر ہماری داد فریاد کہیں بھی نہیں سنی گئی، ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ نوکریاں دیںگے، مگر ہمارے میٹرک پاس اور انٹر، بی اے پاس بچوں کو خاکروب کی نوکری کا کہا گیا''۔ کراچی میں تحریک انصاف کے امیدوار خرم شیر زمان کو عوام نے کھری کھری سنائیں۔

عارف علوی کے گھر پر بھی احتجاج کیا گیا، تحریک انصاف کو صرف خیبر پختونخوا کی حکومت ملی، مرکز اور دیگر صوبوں میں دوسری جماعتوں کی حکومتیں بنی لیکن عوام تحریک انصاف کو بھی لوگوں سے کیے وعدے یاد دلارہے ہیں۔ جمعہ 29 جون کے دن بھائی فاروق ستار اپنے حلقے کی بڑی مسجد میمن مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے گئے، بعد از نماز فاروق ستار بھائی کو بھی جلی کٹی باتیں سننے کو ملیں۔

''تم لوگ اسلحے کے زور پر کھالیں چھینتے رہے، ارے جاؤ، خدا سے معافی مانگو، مجھ سے بہادر آباد میں تم لوگوں نے زبردستی کھال چھیننے کی کوشش کی''۔ فاروق ستار بغیر جواب دیے مسجد میں واپس لوٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد بھائی فاروق ستار مسجد سے باہر آئے اور صحافیوں سے کہا ''جماعت اسلامی کے لوگ تھے، جنھوں نے کھالوں کا ذکر کیا اور میری الیکشن مہم کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی''۔

ادھر بلوچستان میں سرفراز بگٹی اپنے حلقے میں کارنر میٹنگ کرنے پہنچے تو عوام نے ان سے پانچ سال کا حساب مانگتے ہوئے پوچھا ''آپ ہمارے علاقے کو ایک لیڈی ڈاکٹر نہیں دے سکے، ہماری عورتیں مرتی رہیں آپ نے سوائے مایوسی کے اور کیا دیا''۔ یاد رہے کہ سرفراز بگٹی صوبائی وزیر داخلہ تھے۔

سرفراز بگٹی نے بھی اپنے گن مینوں کے ذریعے ویڈیو کیمرے بند کروادیے۔ اور پنجاب میں بھی بپھرے ہوئے عوام کسی کو معاف نہیں کررہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اپنے ساتھی راجہ اشفاق سرور کے ہمراہ کوٹلی ستیاں میں ایک الیکشن آفس کا افتتاح کرنے پہنچے تو ن لیگ یوتھ ونگ کے کارکنوں نے انھیں گھیر لیا۔ ان کے خلاف نعرے لگائے اور کہا ''بار بار وعدے کرتے ہو مگر نہ یونیورسٹی بنی اور نہ ہی علاقے میں ترقیاتی کام ہوئے۔''

ملتان شریف میں شاہ محمود قریشی عوام کے نرغے میں ہیں۔ سکندر بوسن پانچ سال خاموش ممبر اسمبلی رہے، اس بار پھر الیکشن لڑنے کے لیے گھر سے باہر نکلے تو شہر کے عوام نے کھری کھری سنائیں۔ سکندر بوسن سمجھ گئے کہ حالات بدل گئے ہیں۔ اب اپنی دال نہیں گلے گی اور وہ واپس گھر میں جا بیٹھے ہیں۔ علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال نے اپنی پارٹی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو غلط ٹکٹ جاری کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور لاہور کے پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کے ناموں پر نظر ثانی کرنے کے لیے کہا۔ عمران خان فوراً لاہور آئے اور ولید اقبال کو اعتماد میں لیا۔

لگتا ہے الیکشن 2018 ''عوامی انقلاب'' کی بنیاد ثابت ہوںگے۔ الیکشن کے بعد بھی عوام کا احتجاج شہر شہر، گاؤں گاؤں جاری رہے گا۔ جنرل ایوب کے خلاف مدر ملت فاطمہ جناح میدان میں نکلی تھیں، عوام کا غیظ و غضب، مجھے یاد ہے اس سے کہیں زیادہ غیظ و غضب کی فضا بن رہی ہے۔ فیصل آباد، ملتان، بہاولپور، لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، پشاور اور کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، نواب شاہ، سکھر سب جگہ سے جو آوازیں بلند ہورہی ہیں، کیا ہوگا۔ جالب نے مادر ملت کے میدان میں اترنے پر کہا تھا۔

ظلمتِ شب کے نگہبان لرز اٹھے ہیں

قصرِ افرنگ کے دربان لرز اٹھے ہیں

مشعلیں لے کے نکل آئے ہیں مظلوم عوام

غم و اندوہ میں ڈوبی ہے محلّات کی شام

یاس کا دور گیا خوف کی زنجیر کٹی

آج سہمے ہوئے لوگوں کو ملا اذنِ کلام

آج پورے ملک میں سہمے ہوئے مظلوم عوام کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ اب نتیجے کی گھڑی آنے والی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |