انتخابی سیاست اور اسلامی نظام
آگے تشریح کرتے ہیں کہ گویا امت مسلمہ ایک عمارت ہے اس عمارت کی بنیاد شریعت اور دین کی تعلیمات پر ہے۔
ایک انگریز مصنف ڈبلیو ایم منٹگمری واٹ جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اسلام کا بڑا ہمدرد تھا، نے سیرت طیبہﷺ پر کئی کتابیں لکھیں، ان کتابوں میں ''محمد ایٹ مکہ'' اور ''محمد ایٹ مدینہ'' بہت مشہور ہوئیں۔ حال ہی میں راقم کی نظر سے ڈاکٹر محمود احمد غازی کی ایک تحریر گزری جس میں انھوں نے مذکورہ بالا کتابوں کے حوالے سے تنقید کی ہے کہ مصنف نے ان کتابوں میں جو بات اپنے قارئین تک ذہن نشین کرانا چاہی ہے وہ یہ ہے کہ مکہ میں اسلام کچھ اور تھا اور مدینے میں اسلام کچھ اور تھا، مکہ میں تو دین ابراہیمیؑ کے مطابق ان کے عقائد تھے اور عرب لوگوں کو وہ اسی کے مطابق تعلیم دینا چاہتے تھے لیکن جب اقتدار ملا اور مدینے میں انھیں قوت حاصل ہو گئی تو آپ ﷺ نے مکی دور کے اصول اور معیارات چھوڑ دیے، نیز حکومت اور اقتدار کے راستے پر چل پڑے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی آگے چل کر لکھتے ہیں کہ یہ بات شواہد اور واقعات کے اعتبار سے بالکل غلط ہے بلکہ عقیدے کے لحاظ سے کفر ہے۔ ایک روایت نقل کر کے بیان کرتے ہیں کہ ''دین (اسلام) ایک بنیاد یعنی عمارت ہے اور حکومت اس کی چوکیدار، جس عمارت کی کوئی بنیاد نہ ہو وہ گر جاتی ہے اور جس عمارت کا کوئی چوکیدار نہ ہو وہ ضایع ہو جاتی ہے۔'' آگے تشریح کرتے ہیں کہ گویا امت مسلمہ ایک عمارت ہے اس عمارت کی بنیاد شریعت اور دین کی تعلیمات پر ہے، سلطان اور حکومت اس کے نگہبان اور محافظ ہیں۔
یہ بات کہ ریاست کا قیام امت مسلمہ کے تحفظ کے لیے ضروری ہے پہلے دن سے ہی حضور ﷺ کے منصوبے میں شامل تھی۔ آگے مضمون میں ڈاکٹر محمود احمد غازی نے بے شمار دلائل اور اسلامی تاریخ کے واقعات بیان کیے ہیں مثلاً یہ کہ ایک جنگ میں قیدی بنائی جانے والی حاتم طائی کی بیٹی کو رہا کر دیا اور جب اس کا بھائی عدی بن حاتم شکریہ ادا کرنے آپ ﷺ کے پاس آیا تو اس موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا (مفہوم) عنقریب زمانہ آنے والا ہے جب ایک نوجوان خاتون سونے کے ہمراہ تن تنہا سفر کرے گی اور اسے اﷲ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہو گا۔ یعنی اقامت دین اور اسلامی نظام کے نفاذ کی برکت سے راستہ ایسا پر امن ہو گا۔
مندرجہ بالا تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں بھی درست طور پر اسلامی نظام کے قیام کے لیے روز اول ہی سے مختلف جماعتیں کوشاں رہی ہیں، ان میں جماعت اسلامی کا نام نمایاں ہے جو قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بھی اپنے ایک مخصوص نظریے پر کام کرتی رہی اور اس دوران اس میں طریقہ کار پر بڑے اختلافات بھی آئے یہاں تک کہ نمایاں شخصیات نے علیحدہ پلیٹ فارم بنا لیا تاہم ان تمام کی نیک نیتی کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر تھی۔
1955ء میں محسوس کیا گیا کہ جماعت اسلامی اب فرد کی اصلاح کے بجائے انتخابی سیاست کے ذریعے حکومتی تبدیلی پر زیادہ زور دے رہی ہے چنانچہ امیر جماعت سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تحقیق کے لیے عملی قدم بڑھایا۔ اس موقع پر ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے تحقیقی مقالے میں اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ جماعت اسلامی کی جو خصوصیت پہلے دور میں ''اصولی اسلامی تحریک'' کی تھی اب ''قومی جماعت'' کی خصوصیت میں ڈھل چکی ہے جس میں ایک خرابی یہ ہے کہ غیر اسلامی تصورات کے اثرات اس پر مرتب ہو گئے ہیں۔
چنانچہ اراکین شوریٰ میں سے کچھ لوگوں نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے رائے دی کہ جماعت اسلامی کو انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ اس مسئلے پر مولانا مودودی نے اختلاف کیا اور دلیل پیش کی کہ آپ لوگ چاہتے ہیں کہ امامت میں کروں لیکن رکوع اس وقت کروں جب شوریٰ اﷲ اکبر کہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے 1957ء میں جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی۔
تقریباً دس سال بعد بعض ناقدین نے اعتراض اٹھایا کہ ڈاکٹر اسرار احمد اور دیگر افراد جنہوں نے اپنے موقف پر جماعت کو خیرباد کیا تھا، کوئی پلیٹ فارم نہ بنایا جو اجتماعی ہوتا اور ان کے نصب العین کو لے کر آگے چلتا۔ چنانچہ اس طرف توجہ دلانے پر مولانا سمیت اہم شخصیات نے اس ضمن میں کوششیں شروع کر دیں لیکن یہ کوششیں جلد دم توڑ گئیں، بالآخر 1971ء میں ڈاکٹر اسرار احمد نے ایک علیحدہ جماعت ''تنظیم اسلامی'' کی بنیاد رکھ دی۔
یوں جماعت سے نکلنے والے افراد جو اپنے طور پر مضبوط اور وزنی دلائل رکھتے تھے اور نیک نیت بھی تھے لیکن جماعت اسلامی کی متوازی اور ہم پلہ جماعت اور پلیٖٹ فارم تشکیل نہ دے سکے جب کہ جماعت اسلامی اپنی ڈگر پر چلتی رہی اور انتخابی عمل میں آج بھی حصہ لے رہی ہے۔ قاضی حسین احمد کے امیر بننے کے بعد ایک نیا رنگ روپ اور ولولہ دیکھنے میں آیا جس پر تنقید بھی کی گئی۔ راقم کے ایک دوست کا جماعت اسلامی پر یہ اعتراض رہتا تھا کہ وہ عوام کے روز مرہ کے مسائل خصوصاً معاشی مسائل کے حوالے سے کوئی نمایاں منشور نہیں رکھتی جب کہ NGOs اور دیگر سیاسی جماعتیں عوامی مسائل سے زیادہ قریب نظر آتی ہیں۔
حقیقت اس کے برعکس ہے یا نہیں اس سے قطع نظر اس تاثر کو جماعت اسلامی نے بہت حد تک زائل کرنے کی کوشش کی ہے، خصوصاً جاری دہائی میں جس طرح عوام میں نچلی سطح پر کام کیا اور خاص کر حالیہ انتخابات کے لیے جو منشور پیش کیا وہ دیگر جماعتوں کے مقابلے میں عوامی مسائل پر انتہائی تفصیلی ہے اور دور رس نتائج کا حامل ہے۔ اس منشور میں صرف مدینے کی اسلامی ریاست کو بطور ماڈل کی بات ہی نہیں کی گئی بلکہ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے، زرعی اصلاحات، یکساں تعلیمی نظام، خواتین کے حقوق، معاشرتی مسائل پر بھی بات کی گئی ہے۔
اس جماعت کی یہ تبدیلی یا حکمت عملی، حکمت سے بھرپور ہے جس کا اثر انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں سے صحیح معنوں میں سامنے آئے گا۔
پاکستان میں صحیح اسلامی معاشرہ قائم کرنے اور عین اسلامی اقتدار اعلیٰ قائم کرنے کے لیے جماعت اسلامی اور اس سے نکلنے والے افراد خصوصاً ڈاکٹر اسرار احمد کی جماعت اپنے اپنے نقطہ نظر سے علیحدہ علیحدہ پلیٹ فارم سے کوششیں کر رہے ہیں، جماعت اسلامی نے اپنے اب تک مختلف رنگ و روپ کے ساتھ مولانا مودودی کی فکر میں سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اقتدار تک رسائی کا مرحلہ کب آتا ہے خصوصاً ایسے کٹھن اور آلودہ ماحول میں جہاں معاشرہ دینی تعلیمات سے دور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو اور ووٹ ڈالنے کے لیے امیدوار کا کردار دیکھنے کے بجائے دیگر خصوصیات دیکھی جاتی ہوں ۔