چکری کے چوہدری کا معمہ
چوہدری نثار علی خاں کس طرح نوازشریف کے قریب آئے، اس کی بھی ایک کہانی ہے
چکری کے چوہدری نثار علی خاںکی سیاست ان دنوں معمہ بنی ہوئی ہے۔ ن لیگ کے ساتھ اپنے اختلافات پر ان کی پریس کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن''کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی'' کا معاملہ ہے۔ ایک طرف وہ نوازشریف اور ان کی جانشین مریم نواز کی حالیہ سیاست سے اظہار برات کرتے ہیں؛ دوسری طرف اس والہانہ انداز میں ن لیگ کے ساتھ اپنی 43سالہ رفاقت کا ذکر کرتے ہیں کہ سننے والوں کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، چوہدری نثار علی خان اس بارآزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں ۔1985ء کے بعد یہ دوسری بار ہے کہ وہ آزاد حیثیت میں انتخابی میدان میں اترے ہیں۔
چوہدری نثار علی خاں ایک پڑھے لکھے سیاست دان ہیں۔ ایچیسن کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہیں اور اس زمانہ ہی سے ان کی عمران خان سے بھی دوستی ہے۔ان کے والد فتح خاں فوج میں بریگیڈئرکے عہدے تک پہنچے، جب کہ ان کے بھائی افتخار علی خاں نے لیفٹینٹ جنرل کے عہدے تک ترقی پائی ۔ فتح خاں نے پہلی بار 1962ء میں الیکشن میں حصہ لیا تھا، تاہم ہار گئے تھے۔ وہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے اور آزاد حیثیت میں کھڑے ہوئے تھے۔ 1965ء میں وہ کنونش لیگ کے امیدوار تھے، اور حسب توقع جیت گئے۔
چوہدری نثار علی خاں نے اپنی سیاست کا آغاز بلدیاتی سطح سے کیا۔1980ء کے بلدیاتی الیکشن میں کونسلر منتخب ہوئے تو اس کے بعد چیئرمین ضلع کونسل بننے میں بھی کام یاب ہو گئے۔1981ء میں نواز شریف بھی پنجاب کے وزیرخزانہ بن گئے۔اس طرح سیاسی عہدے کے لحاظ سے چوہدری نثار، نوازشریف سے ایک سال سینئر قرار پاتے ہیں۔1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں چوہدری نثار پہلی بار قومی اسمبلی میں پہنچے۔
اس زمانہ میں وہ نوازشریف کے اتنے قریب نہیں تھے۔ 1988ء صدر غلام اسحق خان نے ان کو نگران حکومت میں وزیر بنایا۔ وہ واحد خوش قسمت وزیر تھے، جو پیپلزپارٹی کے خلاف الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔انھوں نے کرنل حبیب احمد کو شکست دی تھی، جو 1970ء اور 1977ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے تھے۔ 1990ء میں بھی چوہدری نثار نے اپنی جیت کا تسلسل برقرار رکھا، جس پر نوازشریف نے وزیراعظم بننے کے بعدان کو وزیر پیٹرولیم اور معدنیات مقرر کیا۔
چوہدری نثار علی خاں کس طرح نوازشریف کے قریب آئے، اس کی بھی ایک کہانی ہے۔ ہوا ۔ 1992ء میں سندھ میں جنرل آصف نواز نے فوجی آپریشن شروع کیا۔ ان دنوں نوازشریف کی الطاف حسین کے ساتھ گاڑھی چھنتی تھی۔ جنرل آصف نواز سے ان کی بالکل نہیں بنتی تھی۔کہنے والے کہتے ہیں کہ نواز شریف کے ایما پر وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کے ساتھ چوہدری نثار نے بھی یہ پوزیشن لی کہ سندھ آپریشن نوازشریف کو اعتماد میں لیے بغیر شروع کیا گیا ہے ۔اس کے ساتھ چوہدری نثار کا فوجی پس منظر بھی ان کے کام آیا اورنوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جنرل آصف نواز کی موت کے بعد جب نئے آرمی چیف کے تقرر کا مسئلہ درپیش ہوا تو صلاح مشورہ کے لیے ان کو بھی وزیراعظم ہاوس میں مدعو کیا گیا۔
چوہدری شجاعت حسین، جو ان دنوں و زیر دا خلہ تھے، اپنی کتاب''سچ تو یہ ہے'' میں اس کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں،'' انھی دنوں میں کسی ضروری کام سے وزیراعظم ہاوس گیا۔ دیکھا کہ جنرل عبدالمجید ملک بھی بیٹھے ہیں۔ پوچھنے لگے، چوہدری صاحب، کیا آپ کو علم ہے کہ صدر غلام اسحق کس کو نیا آرمی چیف لگا رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا، مجھے تو علم نہیں۔اس اثنا میں نواز شریف بھی اپنے کمرے سے باہر آ گئے اور کہا کہ آپ لوگ اندر آ جائیں۔ہم اندر پہنچے تو چوہدری نثار اور سعید مہدی پہلے سے بیٹھے تھے۔ معلوم ہواکہ چوہدری نثار اور عبدالمجید ملک نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے سلسلہ میں نوازشریف کو باقاعدہ مشورہ دینے آئے ہیں۔'' یہ واقعہ اس امر کا ثبوت ہے کہ سندھ آپریشن کے بعد چوہدری نثار، نوازشریف کی کچن کابینہ میں شامل ہو چکے تھے۔
19 اپریل 1993ء کو برطرفی کے بعد مسلم لیگ جنرل کونسل کے جس اجلاس میں نوازشریف کو صدر منتخب کیا گیا، اس میں ان کا نام بطور صدر، جنرل سیکریٹری غلام حیدر وائیں نے تجویز کیا تھا، جب کہ اس کی تائید چوہدری شجاعت حسین، شیخ رشید احمد، راجہ نادر پرویز، اعجاز الحق، اسلم خٹک، فدا محمد خان، مہتاب احمد عباسی، سید غوث علی شاہ، جام یوسف، یعقوب ناصر، سعید ہاشمی، حاجی نواز کھوکھر نے کی تھی۔ 1993ء میں چوہدری نثار ایک بار پھر اپنے حلقہ میں ناقابل تسخیر ثابت ہوئے اور یہ روایت انھوں نے 1997ء کے الیکشن میں بھی برقرار رکھی۔ نوازشریف نے و زیراعظم بنتے ہی چوہدری نثار کو ان کی پرانی وزارت دوبارہ سونپ دی۔ ان کے بھائی افتخار علی خان جنرل بن چکے تھے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد یہی جنرل افتخار سیکریٹری دفاع تھے، جب نوازشریف نے جنرل مشرف کو برخاست کرکے جنرل ضیاالدین کو نیا آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا۔
12 اکتوبر 1999ء کو ٹیک اوور کے بعد ن لیگ کے جن رہ نماوں پر بہت ہلکا ہاتھ رکھا گیا، ان میں چوہدری نثار بھی شامل تھے، ان کو بڑے احترام کے ساتھ ان کے گھر میں ہی نظر بند کرنے پر اکتفا کیاگیا۔ بیگم کلـثوم نواز کے ساتھ مل کر مشر ف حکومت کو چیلنج کرنے کی ضرورت بھی انھوں نے نہیں سمجھی۔ ن لیگ کو مگر چھوڑا بھی نہیں اور 2002ء میں منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے تو اسمبلی کے اندر ن لیگ کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس وقت تک چوہدری شجاعت حسین سمیت ساری سینئر قیادت ن لیگ کو خیر باد کہہ چکی تھی۔چوہدری نثارخود بخود درجہ اول میں پہنچ گئے۔
2008ء میں نوازشریف کی وطن واپسی پر چوہدری نثار عملی طورپر ن لیگ میں نمبر2 بن گئے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا سیاسی اتحاد ختم ہوا، تو چوہدری نثارکو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا۔ نواز شریف اور ان کی جانشین مریم نواز کے خلاف تندوتیز پریس کانفرنسیں کیں اور آخر میں یہ اعلان بھی کردیا کہ الیکشن لڑنے کے لیے وہ ن لیگ کے ٹکٹ کے محتاج نہیں، حالانکہ ذرا سی لچک ظاہر کرنے پر بھی ن لیگ ان کو ٹکٹ دینے پر راضی تھی۔ چوہدری نثار کی مگر اپنی پریس کانفرنسیں ہی ان کے آڑے آ گئیں، لہذا اب ن لیگ میں اگر ان کی واپسی ہوئی تو الیکشن کے بعد ہی ہوگی، کیونکہ باعزت واپسی کا راستہ تو یہی ہے۔
چوہدری نثار، جن حلقوں میں کھڑے ہیں، کیا ان میں ن لیگ اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے باوجود جیت سکیں گے، اس بارے میں فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے، کیونکہ ہار اور جیت دونوں کا امکان برابر برابر ہے۔ حقیقتاً چکری کا چوہدری اپنی 34 سالہ سیاست میں پہلی بارمشکل ، بلکہ انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ شاعر نے کہا تھا،
ہے دل شوریدہ ء غالبؔ طلسم ِ پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنا پرکہ کس مشکل میں ہے