کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

ہم جب تک گروہوں میں بٹے رہیں گے، ایک دوسرے کے دکھوں اور تکالیف کو محسوس نہیں کریں گے


Nighat Farman April 30, 2013

معاشرتی رویوں پر تعلیم و تربیت گہرا اثر مرتب کرتی ہے۔ اسی تربیت کے زیر اثر کسی بھی معاشرے یا قوم کی تہذیب و ثقافت، مذہب اور اخلاقی اقدار و روایات کو سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ مثبت و حوصلہ افزا رویے صحت مند معاشرے کی تشکیل اور لوگوں کی فکری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

تعصب و تنگ نظری اور منافقت پر مبنی رویے کسی بھی ملک، قوم اور معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ بظاہر کوئی بھی معاشرہ یا تہذیب غیر اخلاقی رویوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا لیکن اگر غور کیا جائے تو ان کے ساتھ معاشی، معاشرتی معاملات استوار کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

ہم چاہے کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کر لیں کہ ہماری سماجی، معاشرتی تہذیب و روایات اعلیٰ اخلاقی اقدار پر مبنی ہیں اور ہمارے معاشرے میں انسانوں کا بڑا احترام کیا جاتا ہے، تاہم ہر نئی صبح کے ساتھ ہمارے ان دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے اور اخباروں کی شہ سرخیاں ہمارا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔

باہمی چپقلش و تنازعات، دھوکا دہی، لوٹ مار، بد دیانتی، مکر و فریب، بے راہ روی و قتل و غارت گری کے ایسے ایسے واقعات پڑھنے و سننے کو ملتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی اور دل دہل جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اتنا انتشار، بے چینی کیوں ہے؟ شاید اس لیے کہ ہم اپنا مقصد زندگی بھلا کر اپنی منزل کھو بیٹھے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں مذہبی و لسانی فرقہ واریت نے ایسے پنجے گاڑھے ہیں کہ ہم آپس ہی میں دست و گریباں ہیں۔ فرقوں کی اتنی تعداد ہو گئی ہے کہ نام بھی یاد رکھنا مشکل ہے اور ہر فرقہ دعویدار کہ بس وہ درست ہے باقی سب گمراہ۔ ہر کوئی دوسرے کو حقارت سے دیکھتا اور اسے خود سے کمتر سمجھتا ہے۔

ہر فرد یہ بھلا بیٹھا ہے کہ جو دنیا میں آتا ہے اسے اپنے رب کی طرف لوٹ جانا ہے، چاہے اس کا تعلق کسی فرقے، مسلک، رنگ و نسل سے ہو۔ سب کو اس اصل منزل کی طرف جانا ہے، جس کا معلوم نہیں کہ آخر میں حصے میں کیا آئے گا، شجر سایہ دار ملے گا یا انگاروں میں جگہ۔ سب کا دین ایک ہے، رب ایک ہے، قبلہ ایک ہے، پھر کیوں اتنا تضاد ہے؟ ایک دوسرے کی رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے، اور ہونا بھی چاہیے کہ صحیح و غلط، جھوٹ و سچ، سیا ہ و سفید کا فرق معلوم ہو، لیکن اس اختلاف کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں۔

ہم جب تک گروہوں میں بٹے رہیں گے، ایک دوسرے کے دکھوں اور تکالیف کو محسوس نہیں کریں گے، ہمارا یہی حال رہے گا۔ پیشہ ور سیاست دانوں کا تو کام ہی یہی ہے کہ کبھی مذہب، کبھی نسل و زبان کے نام پر لڑاتے رہیں، اسی تفرقہ کی وجہ سے تو یہ پھلتے پھولتے ہیں۔ لیکن ہمیں اپنے ہوش و حواس کو درست اور جذبات کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ دین میں جبر نہیں، انسان کی جان بچانا انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔

یہ تعلیمات بھی تو ہمارے ہی دین کی ہیں، ہم اپنے جذبات میں اسے کیوں بھول جاتے ہیں۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے کل عالم کے لیے رحمۃ اللعالمین بنا کر مبعوث فرمایا، ہم کیوں ان کی تعلیمات سے منکر ہیں۔ ہم نے کیوں اپنے دین کو جو دین کامل ہے، اپنی مرضی سے محدود کر لیا ہے؟ کیا ہم خود کو محدود کر کے ترقی کر سکتے اور اپنی اصلاح نہ کر کے اپنی گم گشتہ میراث پا سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔

افراد ہوں، ادارے ہوں یا قومیں، بہتری کی خواہش، جینے کا حوصلہ پیدا کرتی اور کوشش پر آمادہ کرتی ہیں۔ ہمیں اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے ہمہ وقت کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ جو لوگ غلامی و بے بسی کے طوق کو قبول کر کے اپنے حال پر قانع رہیں، انھیں تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمیں اپنی امیدوں کو جگا کر رکھنا اور آگے بڑھنے کی جدوجہد کرنا ہے۔

کیا دین اور عقیدے کی بنیاد پر تعلیم و تربیت کے زیر اثر کوئی بھی کوشش بار آور ثابت ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں معاشرتی و اخلاقی اقدار کو عروج حاصل ہو۔ ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔ وہ تعلیمات جو رب کائنات کی طرف سے نازل ہوئیں وہ پورے عالم انسانی کے لیے یکساں امن و آشتی کا پیغام لائیں۔ ان تعصب و تنگ نظری سے بالاتر، غیر متشدد رویوں کی عکاس تعلیمات کا نتیجہ تھا کہ لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں آتے گئے۔

عرب و عجم میں ایثار و قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہوئیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے، اخوت و محبت کے رشتے میں بندھ گئے۔ انھوں نے ایک دوسرے پر نہ تہمتیں لگائیں، نہ طعنے دیے۔ دھوکا دہی، جھوٹ اور بددیانتی جیسی برائیوں کو خود سے الگ کر لیا۔ صرف مسلمان نہیں بلکہ ہر انسان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ ہر محروم، مجبور و مظلوم کی مدد کے لیے کھڑے رہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ہم تو ان تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں اور مذہب کو اپنی زندگی کے ایک محدود دائرہ میں رکھ کر باقی تمام معاملات اپنی مرضی و خوشی سے طے کر رہے ہیں اور اسلام کا نام محض اپنی نیتوں کے فتور کو چھپانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

اور ترقی یافتہ اقوام اپنے معاشرے میں ان اخلاقی و معاشی اقدار و روایات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائے ہوئے ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں، جو اسلام کو تو نہیں مانتے البتہ اس کے دیے ہوئے ضابطہ حیات سے مکمل فیض یاب ہو رہے ہیں۔ جب تک ہم خود کو اس افراط و تفریط سے نہیں بچائیں گے جو کسی بھی سماج کے لیے زہر قاتل ہیں اور اصل اسلامی تعلیمات کو ان کی روح کے ساتھ سمجھتے ہوئے، اپنی علمی صلاحیتوں کو نہیں نکھاریں گے، اخلاقی اقدار کو اپنی زندگیوں میں نافذ نہیں کریں گے، ہم کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ صرف لسانی، مذہبی و نسلی مسائل ہمارے حقیقی مسائل نہیں۔ مسائل کا انبار ہے جو ہمارے سامنے کھڑا ہے اور ہم اس سے نظریں چراتے ہیں۔ ہمیں متحد ہو کر ان حقیقی مسائل کا مقابلہ کرنا ہے اور پیشہ ور و مفاد پرست ٹولوں کی سازشوں کو خاک میں ملاتے ہوئے نفرتوں کا خاتمہ کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں