زندگی کا احترام کیجیے

زندگی زندہ دلی کا نام ہے، اسے زندہ وباشعور انسانوں کی طرح بسر کیجیے۔ زندگی کا احترام کیجیے کہ شکرگزاری کا یہی تقاضا ہے


حرا احمد June 21, 2018
دہشت گردی اور خونریزی کے سائے میں پروان چڑھتی زندگی انسان کے کرتوتوں کو دیکھ کر ہر وقت ڈری اور سہمی رہتی ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

زندگی اس دنیا میں رہنے کا صرف ایک موقع ہی نہیں، بلکہ قدرت کا سب سے خوب صورت ترین اور عظیم ترین تحفہ ہے جو کسی بھی جاندار کو عطا کیا جاتا ہے۔ انسان کو تمام جانداروں میں اشرف المخلوقات اس لیے کہا گیا ہے کہ اسے صرف زندگی ہی عطا نہیں کی گئی بلکہ اسے احسن طریقے سے زندگی گرارنے کےلیے شعور جیسی نعمت سے بھی نوازا گیا ہے۔

زندگی صرف سانس لینے، کھانے پینے، سونے جاگنے کا نام نہیں۔ سانس تو ہم سب لیتے ہیں لیکن حقیقت میں زندگی صرف انہی کو ملتی ہے جنہیں زندگی جیسی انمول نعمت کو سلیقے اور قرینے سے بسر کرنے کا شعور بھی میسر آتا ہے۔ یہ زندگی کا شعور ہی ہے جو انسانوں کو فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دیتا ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہم مادہ پرستی میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں رہا کہ ہم زندگی جیسی عظیم نعمت کو کس قدر بے فکری اور کس قدر ناشکری سے اپنے ہاتھوں سے ضائع کیے جارہے ہیں۔ آج مال و دولت اور مادی اشیاء ہماری زندگی کا محور و مرکز ہیں اور ہم اپنے عقل اور شعور کو انسانیت کی تعمیر کی بجائے انسانیت کی تخریب پر استعمال کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔

زندگی کے بارے میں ہمارے رویّے اور ہماری سوچیں دن بہ دن کس قدر سفاکانہ اور ظالمانہ ہوتی جارہی ہیں اس کا اندازہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی بے حسی اور انتشار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ فطرت کے اصول اور تقاضوں سے روگردانی ہماری فطرت ثانیہ اور ہماری روزمرہ زندگی کا اسلوب بن چکی ہے۔ ہم سب ہمیشہ رہنے والی زندگی بھی چاہتے ہیں اور ہماری سب سے بڑی لڑائی بھی خود زندگی کے خلاف ہی ہے۔ ہم اپنی مادی ضرورتوں کی خاطر زندگی کو موت کے اندھیرے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ آلودگی، ملاوٹ، زہریلے کیمکلز، گولہ بارود، اور ہر روز جنم لیتی نت نئی بیماریاں وہ تحفے ہیں جو ہم نے زندگی کو دئیے ہیں۔ دہشت گردی، بم دھماکوں اور ایٹمی جنگوں کے سائے میں پروان چڑھتی زندگی انسان کے کرتوتوں اور ان کی حرکتیں دیکھ کر ہر وقت ڈری اور سہمی رہتی ہے۔

سیاست کا میدان ہو یا خونی رشتوں کی کہانی، جدھر دیکھو وہیں نفرتوں، عدواتوں، عدم برداشت اور ایک دوسرے کی ناقدری کا جذبہ شدت سے زور پکڑتا نظر آتا ہے۔ احساس، محبت، چاہت اور خلوص سے عاری کھوکھلے رویّے ہمیں نہ صرف خود سے، بلکہ زندگی سے بھی دور کرتے جا رہے ہیں۔ آج ہمار ی تمام بھاگ دوڑ اور کوششیں صرف روپے پیسے سے شروع ہوتی ہیں اور اسی پر ختم ہو جاتی ہیں۔ ہم دوستیوں اور رشتہ داریوں کی بنیاد بھی کسی نا کسی مفاد کی خاطر رکھتے ہیں۔ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو بدصورت اور تلخ بنانے پر ہمیں افسوس تک نہیں ہوتا۔ ہم ہر وقت دولت اور لالچ کی ہوس میں رہتے ہیں اور ان قمیتی لمحات سے لطف اندوز ہونے کے بجائے ان کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ضائع کردیتے ہیں جو قدرت نے ہمیں جینے کےلیے عطا کیے ہوتے ہیں۔ ہم لالچ میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ اپنے خوبصورت رشتوں کو بھی دولت کے ترازو میں تولتے ہیں۔ ہمارے سارے تعلقات اور رشتے احساس اور محبت کی بجائے مال و دولت اور مادی مفادات سے شروع ہوتے ہیں اور انہی پر ختم ہو جاتے ہیں۔

اپنی زندگی کو کیسے گزارنا چاہیے اور کیسے گزار رہے ہیں، یہ سراسر آپ کا ذاتی اختیار ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھیے کہ قدرت کا یہ خوب صورت اور عظیم ترین تحفہ ہمیں اس لیے عطا ہوا کہ ہم اپنے آپ کو ایک اچھا اور بہتر انسان بنا کر اس نعمت کے اہل ہونے کا ثبوت دے سکیں۔ زندگی زندہ دلی کا نام ہے، اسے زندہ اور باشعور انسانوں کی طرح بسر کیجیے۔ اس کےلیے ضروری ہے ہم اللہ تعالی کی اس لازوال اور بے مثال نعمت کو محبتوں، چاہتوں اور انسانیت کے نام کریں۔ زندگی کا احترام کیجیے کہ اس نعمت کی شکرگزاری کا یہی تقاضا ہے۔ اگر ایک باقار اور شاندار زندگی جینا چاہتے تو اپنی زندگی کو بامقصد بنائیے۔ اپنی ذات کو دوسرے انسانوں کےلیے رحمت ثابت کیجیے۔ دوسروں کا احترام کیجیے، دوسروں کے کام آئیے، آسانیاں پیدا کیجیے، لوگوں کی قدر کیجیے، برداشت کرنا سیکھیے، ہر ایک سے محبت کرنا سیکھیے۔ محبت ہی وہ طاقت ہے جس سے ہم اس کرہ ارض اور اس پر سانس لیتی زندگی کو خوب صورت بنا سکتے ہیں۔

یاد رکھیے! زندگی بڑی مختصر ہے، اس کا احترام کیجیے اس کی قدر کیجیے؛ یہ ہمیشہ آپ کے پاس نہیں رہے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں