ن لیگ حکومت کے پانچ سال
ستم یہ ہے کہ ن لیگ کی یہ پانچ سالہ حکومت اس غریب قوم کو مزید پچاس ارب ڈالر کا مقروض کرکے گئی ہے۔
ن لیگ حکومت جیسے تیسے کرکے اپنے پانچ سال مکمل کرچکی اور یہ پہلی بار ہے کہ ن لیگ حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ ن لیگ کو 1997ء میں حکومت بنانے کو موقع ملا اور یہ حکومت دوتہائی اکثریت سے وجود میں آئی تھی۔ نوازشریف کی یہ حکومت صرف دو سال ہی نکال سکی تھی اور1999ء میں فوج کے ہاتھوں فارغ ہو گئی تھی۔یاد رہے کہ ن لیگ 1993ء میں نوازشریف حکومت کی برخاستگی کے بعد وجود میں آئی تھی۔
محمد خان جونیجو کی وفات کے بعد نوازشریف نے جونیجو کے حامی دھڑے سے اختلافات کی وجہ سے نئی مسلم لیگ بنائی تو ہمارے دوست مشاہد حسین سید کی تجویز پرکانگریس آئی (اندرا گاندھی) کی طرز پر نئی مسلم لیگ کا نام مسلم لیگ ن (نواز شریف) رکھا۔ نواز شریف ''سائیکل''کے انتخابی نشان کے تحت ہی الیکشن لڑنا چاہتے تھے، لیکن جب مسلم لیگ جو نیجو ''سائیکل'' کے نشان سے دستبردار ہونے پر تیار نہ ہوئی تو نوازشریف نے مسلم لیگ ن کے لیے ''شیر'' کا نشان چن لیا۔
اس سے پہلے1990ء میں جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو یہ اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت تھی۔ مسلم لیگ کے مرکزی صدراس وقت محمد خان جونیجو تھے۔ نوازشریف اس کے صوبائی صدر تھے، تاہم اسلامی جمہوری اتحاد کی صدارت ان ہی کے پاس تھی۔گویا، نواز شریف، وزیر اعظم اگرچہ تین بار بنے ہیں، لیکن ان کی حالیہ حکومت حقیقتاً ن لیگ کی دوسری حکومت تھی۔ بطور وزیراعظم، نوازشریف نے اپنی یہ روایت البتہ برقرار رکھی ہے کہ اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی اور آیندہ کے لیے تو ان کو الیکشن لڑنے کے لیے تاحیات نااہل قرار دیا جا چکا ہے۔
2013ء میں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو بلاشبہ یہ ان کی بہت بڑی سیاسی کامیابی تھی۔ تاہم پارلیمنٹ میں ان کی عددی پوزیشن وہ نہیں تھی، جو 1997ء میں تھی۔ کیونکہ اس مرتبہ ان کو پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی مضبوط اپوزیشن کا سامنا تھا۔ بعینہ اس بار نیچے وہ پنجاب میں ہی حکومت بنا سکے تھے، بلوچستان کی حکومت ہر وفاقی حکومت کو دم چھلے کے طور پر مل ہی جاتی ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی نے اپنی برتری قائم رکھی، بلکہ پہلی بار ایم کیوایم کی ساجھے داری کے بغیر صوبائی حکومت بنائی، جب کہ خیبر پختون خوا میں عمران خان بھی صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ یوں پارلیمنٹ میں دونوں اپوزیشن پارٹیوں کے پاس ایک ایک صوبائی حکومت بھی تھی، جو نوازشریف کے لیے اچھا شگون نہیں تھا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ 2013ء میں نواز شریف کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر 1990ء اور 1997 ء والی سیاسی برتری حاصل نہیں تھی۔ دوسرا مسئلہ ان کے ساتھ یہ ہوا کہ اب کی بار اپوزیشن صرف پیپلزپارٹی کی نہیں تھی، تحریک انصاف کی بھی تھی۔ لہذا نوازشریف کا تیسری بار وزیراعظم بننا اس لحاظ سے تو ان کی بہت بڑی کامیابی تھی کہ تمام تر سیاسی اور قانونی رکاوٹوں کے باوجود انھوں نے تیسری بار وزیراعظم بن کے دکھا دیا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اس کے آگے سب اچھا ہی رہے گا۔ حالات کی خرابی کے آثار ان کے وزیراعظم بننے کے بعد پہلے سال میں ہی نظر آنا شروع ہو گئے، جب تحریک انصاف نے 2013 ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر آناً فاناً پورے ملک میں ایک احتجاجی تحریک اٹھا دی۔
اس تحریک میں بعد ازاں چوہدری برادران کی ق لیگ اور طاہر القادری کی عوامی تحریک بھی شامل ہو گئیں۔ ماڈل ٹاون لاہور میں حکومت کی فائرنگ اور14 بے گناہ افراد کے قتل نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ احتجاجی جلسے جلوسوں کے بعد اسلام آباد کی طرف گرینڈ مارچ ہوا۔ پارلیمنٹ کے مقابل وہ تاریخی دھرنا دیا گیا کہ اس سے پہلے اسلام آباد کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر اس وقت پیپلزپارٹی مدد کو نہ پہنچتی تو نواز شریف حکومت پہلے سال ہی میں ڈھیر ہو گئی تھی۔ انتخابی دھاندلی کا یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں پہنچا۔ ن لیگ حکومت بچ تو گئی لیکن دھرنوں کے نتیجہ میں سیاسی طور پر اس کا انجر پنجر ہل چکا تھا۔ نوازشریف کے لیے اب یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ عمران خان کی شکل میں ان کو اپنی زندگی میں پہلی بار کسی حقیقی اپوزیشن سے واسطہ پڑا ہے۔ اسی دوران پانامہ لیکس آ گئیں۔
عمران خان کے لیے ن لیگی حکومت اور نوازشریف کے خلاف یہ ایک غیبی امداد تھی۔ شروع شروع میں ان کا نوازشریف سے صرف اتنا مطالبہ تھا کہ وہ استعفا دے دیں۔ اگر اس مرحلہ پر نوازشریف یہ مطالبہ تسلیم کر لیتے تو آگے ان کے پاس کئی آپشنز کھلے تھے۔ ہمیشہ کی طرح ان کی ہٹ دھرمی ان کے آڑے آ گئی یا تیسری بار وزیراعظم بن جانے کے بعد وہ ضرورت سے کچھ زیادہ خوداعتمادی کا شکار ہو گئے۔ وجوہات جو بھی ہوں، نوازشریف پانامہ لیکس پر استعفا نہ دے کر دلدل میں دھنستے چلے گئے، تاآنکہ عمران خان یہ کیس بھی سپریم کورٹ پہنچانے میں کامیاب ہو گئے،جہاں نوازشریف کی بطور وزیراعظم لکھ کر کی گئی تقریریں ہی ان کے خلاف شہادت بن گئیں۔
علاوہ اس کے، وہ اور ان کے بچے لندن فلیٹس کی منی ٹریل بھی پیش نہ کرسکے۔ مزید بدقسمتی یہ ہوئی کہ جے آئی ٹی انکوائری میں ان کا دوبئی کا اقامہ بھی نکل آیا۔ نوازشریف تاحیات نااہل قرار پا گئے۔ پانامہ لیکس کی بنیاد پران کے خلاف بننے والے ریفرنسز پر نیب میں جو کارروائی چل رہی ہے، ان کا فیصلہ بھی قریب آ لگا ہے۔ نوازشریف قانونی طور پر تاحیات نااہل قرار پا چکے ہیں، اور اب کسی آئینی ترمیم کے نتیجہ میں ہی ان کو کچھ آسانی میسر آ سکتی ہے۔ لیکن آئین پاکستان میں اس طرح کی بنیادی آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جس طرح کی اکثریت درکار ہے، ن لیگ کے لیے مستقبل قریب میں اس کا حصول قریب قریب ناممکن ہے۔ اس تناظر میں نوازشریف کی سیاست کاباب بظاہرختم ہو چکا ہے۔
نواز شریف چار سال سے کچھ اوپر وزیراعظم رہے ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد انھوں نے قوم کو جو سہانے خواب دکھائے، ان میں بڑے خواب دو ہی تھے؛۱، توانائی بحران کا خاتمہ ۔۲، قرضوں سے نجات ؛ اس زمانہ میں ٹی وی پر ان کا وہ ولولہ انگیز اشتہار دن رات چلتا رہتا تھا، جس کے آخر میں وہ دبنگ آواز میں علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر پڑھتے ہیں،
اے طاہر لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
لیکن ستم یہ ہے کہ ن لیگ کی یہ پانچ سالہ حکومت اس غریب قوم کو مزید پچاس ارب ڈالر کا مقروض کرکے گئی ہے۔ اسی طرح پانچ سال میں توانائی کا کوئی ایک منصوبہ بھی پوری طرح کام یاب نہیں ہو سکا۔ لوڈ شیڈنگ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ جوں کی توں ہے۔ سولر پراجیکٹ کا بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا، لیکن جاتے جاتے اس کو نیلامی پر لگا دیا گیا۔ پنجاب، جہاں شہبازشریف نے دس سال مسلسل حکومت کی ، یہاں تعلیم اور صحت کے شعبوںکو جو حال ہے، اس کا پول سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر کھول دیا ہے۔
خود نوازشریف نے 42 اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتال بنانے کا اعلان کیا، لیکن یہ بھی کاغذوں ہی میں بنے، عملی طورپر کچھ نہیں ہوا۔اس تناظر میں جب نواز شریف یہ کہتے ہیں کہ آیندہ الیکشن میں ان کاانتخابی منشور اور نعرہ'' ووٹ کو عزت دو'' ہو گا تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ ان کی پارٹی کی حکومت نے جیسے تیسے پانچ سال تو پورے کرلیے، لیکن اس دوران میں کوئی ایسی کارکردگی نہیں دکھا سکی، جسے وہ عوام کے سامنے پیش کرکے مزید خدمت کرنے کے لیے مزید پانچ سال مانگ سکے۔ لہذاایسے میں پھر '' ووٹ کو عزت دو'' کا جذباتی نعرہ ہی رہ جاتا ہے۔ شاعر نے کہا تھا۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لادوا نہ تھے