نظریہ پاکستان اور تاریخی حقائق
اس ملک میں خوشی کے لمحات بہت کم آتے ہیں اور طویل وقفے کے بعد آتے ہیں۔
KARACHI:
اس ملک میں خوشی کے لمحات بہت کم آتے ہیں اور طویل وقفے کے بعد آتے ہیں۔ اگرچہ جمہوریت پسند اس بات پر خوش ہیں کہ پہلی بار منصفانہ انتخابات کے ذریعے اقتدار پُرسکون طریقے سے منتقل ہوتا نظر آرہا ہے، مگر اس ملک کے مقدس جنگی جنونیوں کی وجہ سے ان کی خوشیوں کا چاند گہنا رہا ہے۔ اس بار اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کی تشکیل کی حمایت کے ذریعے بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی شکست کا انتظام کرنے کے لیے کوئی گل، بیگ یا دُرانی موجود نہیں ہے بلکہ یہ کام طالبان نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔
طالبان پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو دی جانے والی اس دھمکی پر عمل کر رہے ہیں کہ ان کے امیدواروں اور انتخابی جلسوں پر حملہ کیا جائے گا۔ اس دھمکی سے پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں اور جماعت اسلامی جیسی دائیں بازو کی جماعتوں اور دوسری مذہبی پارٹیوں کے لیے، اُن جماعتوں کے مقابلے میں آسانی پیدا ہو گئی ہے جن کو طالبان اور ان کے ساتھی عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے خطرات کا سامنا ہے۔
ان میں سب سے اہم کیس، صحافی و سیاستدان ایاز امیر کا تھا۔ انھیں بتایا گیا کہ وہ پاکستان کے اسلامی نظریے پر یقین نہیں رکھتے اور یہ کہ اپنی بعض ذاتی عادات کی وجہ سے وہ ایک اچھے مسلمان کی شرائط پر پورا نہیں اترتے۔ ریٹرننگ افسر نے یہ اختیار کہاں سے حاصل کیا؟ جیسا کہ میں نے چند ہفتے قبل اپنے کالم میں عرض کیا تھا اس ساری مسئلے کی وجہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی بعض شقیں ہیں۔
جنرل ضیاء کی طرف سے آئین میں شامل کیے جانے کے بعد سے یہ شقیں جوں کی توںموجود ہیں، مگر 1988 کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں سے کسی بھی الیکشن میں امیدواروں کی تطہیر کے لیے انھیں پوری قوت سے حرکت میں نہیں لایا گیا۔
تحریک پاکستان کی تاریخ کا سرسری جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے جتنی بھی اہم نوعیت کی دستاویزات پیش کی گئیں ان میں سے کسی میں بھی پاکستان کے اسلامی نظریے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ 1906 میں مسلم لیگ کے مطالبات یہ تھے: (1 مسلمانوں میں حکومت کے ساتھ وفادار رہنے کا احساس پیدا کرنا اور حکومت کے اقدامات اور ارادوں کے بارے میں ان کے ذہنوں سے غلط فہمیوں اور بدگمانی کو دور کرنا۔ (2 مسلمانان ہند کے سیاسی حقوق و مفادات کا تحفظ اور فروغ اور وقتاً فوقتاً حکومت کے سامنے ان کی ضروریات اور امنگوں کی نمایندگی کرنا۔ (3 اپنے مقاصد پرکوئی سودے بازی کیے بغیر، مسلمانوں اور دوسری قومیتوں کے درمیان منافرت کو روکنا۔''
جناح صاحب نے 1927 میں مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے درج ذیل چار نکات کی توثیق کی؛ (1 سندھ کی علیحدہ صوبے کی حیثیت سے تشکیل؛ (2 شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں اصلاحات کی ترویج؛ (3 پنجاب اور بنگال کی قانون ساز اسمبلیوں میںمسلم اکثریت کی ضمانت؛ اور (4 مرکزی مقننہ میںمسلمانوں کے لیے کم سے کم ایک تہائی نشستیں مختص کرنا۔
مسلم لیگ نے جو14 نکات پیش کیے تھے، ان میں سے بارہویں نکتے میں کہا گیا تھا: ''آئین میں مسلم ثقافت کے تحفظ مسلمانوںکی تعلیم، زبان، مذہب، عائلی قوانین اور مسلم خیراتی اداروں کے تحفظ و فروغ اور ریاست و خود مختار بلدیاتی اداروں کی طرف سے دی جانے والی امدادی رقم میں ان کے جائز حصے کے لیے مناسب حفاظتی طریقہ کار شامل ہونا چاہیے۔'' (قابل غور نکتہ) اس میں صرف حقوق کے تحفظ کے لیے کہا گیا، لوگوں پر اسلام مسلط کرنے کے لیے نہیں کہا گیا۔
1940 کی قرارداد لاہور میں، جسے یہ ملک قائم ہونے کے بعد قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا، اسلامی نظریے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس میں بھی مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کہا گیا ''یہ کہ یونٹوں اور مختلف علاقوں میں رہنے والی اقلیتوںکے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دوسرے حقوق کے تحفظ کے لیے ان کی مشاورت سے، آئین میں خاص طور پر موثر اور لازمی تحفظات فراہم کیے جائیں گے۔ اس طرح ایسے علاقوں میں مسلمانوں کی حفاظت کے لیے انتظامات کیے جانے چاہئیں جہاں وہ اقلیت میں ہیں۔''
1949 کی قرارداد مقاصد کوصدارتی حکم نمبر14 مجریہ 1985 کے ذریعے آئین کا لازمی حصہ بنا دیا گیا اور اب اس کا آئین کے آرٹیکل{ 2 (A)کی حیثیت سے حوالہ دیا جاتا ہے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کا کیا دھرا ہے، اس شخص نے پاکستان کو بری طرح سے نقصان پہنچایا۔ قرارداد مقاصد کے متعلقہ حصے میں کہا گیا ہے ''ریاست اپنے اختیارات اور اتھارٹی کو عوام کے منتخب نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔ جمہوریت، آزادی، مساوات، تحمل اور سماجی انصاف کے اصولوں پر، جیسا کہ اسلام میں کہا گیا ہے، پوری طرح عمل کیا جائے گا؛ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی، اسلامی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق بسر کر سکیں، جیسا کہ قرآن اور سنت میں طے ہے۔'' (یہاں بھی 'اس قابل بنایا جائے گا' استعمال کیا گیا ہے، یہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے کہ 'نافذ' کیا جائے گا)۔
''انڈیا آفس نے مارچ 1946 میں مکمل تقسیم کے متبادل کے طور پر 'کنفیڈرل سسٹم' کی اسکیم تیار کی۔ کیبنٹ مشن نے (16 مئی 1946 کو) تقسیم کے خلاف فیصلہ دیا اور محدود اختیارات کے حامل مرکز کی تجویز پیش کی (اے سی بنر جی1981)۔
آئین کے آرٹیکل 31 کی شق (2) (a) بھی، جس کا حوالہ دیا جاتا ہے، یہ کہتی ہے کہ'' ریاست، پاکستان کے مسلمانوں کو قرآن اور اسلامیات پڑھانے کی لازمی کوشش کرے گی تاکہ عربی زبان پڑھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی اور سہولت ہو...''
شق 2 (b) ''ریاست اتحاد اور اسلام کے اخلاقی معیارات کو فروغ دے گی اس ذیلی شق پر عمل درآمد بھی ناممکن ہے کیونکہ پچھلے 1400 سالوں سے مسلمانوں نے کبھی بھی اسلام کے یکساں اخلاقی معیارات پر عمل نہیں کیا۔ ہر فرقے کے اپنے معیار اور ضابطے ہیں)
آرٹیکل 31 یہ نہیں کہتا کہ مسلمان کے لیے قرآن سیکھنا لازمی ہے۔ ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے تھا کیونکہ مذہب اور اس کی تعلیم ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے، اس بارے میں کسی کو حکم صادر کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ ایسا کرنا عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی۔ اس حق کو دنیا کی تمام مہذب اقوام نے تسلیم کر رکھا ہے۔ یہ حق تمام بڑے مذاہب کی روح کے مطابق ہے جو اپنی تعلیمات کی جبری تعلیم کے مخالف ہیں۔
تاریخ میں کہیں بھی پاکستان کے اسلامی نظریے کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ہر جگہ یہی ذکر ملتا ہے کہ پاکستان، مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق اور اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ نظریہ 1973 کے آئین میں شامل کیا گیا تھا اور اس کے بعد اسے انتخابات 2013 کے کاغذات نامزدگی کا حصہ بنایا گیا۔ تاریخ کا علم رکھنے والے اور سیاسی سائنس دان اس نظریے کو ایک متنازع سیاسی اختراع سمجھتے ہیں۔ پاکستان، مذہب کو ریاست کے ساتھ جوڑنے کے خطرناک رجحان سے نقصان اٹھا رہا ہے۔
موجودہ مذہبی انتہا پسندی، عسکری جنون اور فرقہ واریت، اسی سیاسی کیمیا گری کا منطقی نتیجہ ہے۔ نئی پارلیمنٹ کو اس موضوع پر بحث اور اور ریاست و مذہب کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے میں آزاد ہونا چاہیے، ایسا کرتے ہوئے اس پر یہ دبائو نہیں ڈالا جانا چاہیے کہ وہ پاکستان کے اسلامی نظریے سے اتفاق کرے۔ اگر جہادی جِن کو واپس بوتل میں بند کرنا ہے اور پاکستان کو قائم و دائم رکھنا ہے تو ایسا کرنا انتہائی ضروری ہے؛ ورنہ انتہا پر پہنچا ہوا یہ مذہبی جنون پاکستان کو نگل جائے گا۔ اسرائیل نے بھی، جسے برطانوی سامراج نے صیہونی ریاست کے طور پر قائم کیا تھا، مذہب اور ریاست کے درمیان اس حد درجہ متنازع موضوع کو ایک طرف کردیا ہے۔