’ہم خیالوں‘ کا المیہ

18 فروری 2008 ء کے بعد عام تاثر یہ تھا کہ اب ق لیگ کا شیرازہ بکھر جائے گا.


Asghar Abdullah April 28, 2013
[email protected]

18 فروری 2008 ء کے بعد عام تاثر یہ تھا کہ اب ق لیگ کا شیرازہ بکھر جائے گا، اور یہ کہ جنرل پرویز مشرف کے بغیر اِس کا دو قدم چلنا بھی مُشکل ہو گا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بیشتر حصہ متعصبانہ حد تک ق لیگ کی قیادت کے خلاف ہو گیا تھا۔ اِس تاثر کو مزید تقویت اس طرح ملی کہ عام انتخابات کے بعد ناکام اُمیدوار تو ایک طرف رہے، ق لیگ کے کامیاب اُمیدوار بھی ڈگمگا گئے۔ حالانکہ بے نظیر بھٹو کی موت کے باعث پید ا ہونے والی مشکل ترین انتخابی صورت ِحال میں کے باوجود، ق لیگ نے قومی اور صوبائی اسمبلی کی معتدبہ سیٹیں حاصل کرلی تھیں۔

بلوچستان اسمبلی میں اُس کی اکثریت تھی۔ خیبر پختون خوا اور سندھ اسمبلیوں میں اس کی نمایندگی موجود تھی ۔ پنجاب اسمبلی میں وہ تیسری بڑی پارٹی تھی، اور اگر آصف علی زرداری، پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت بنوانے پر تل نہ جاتے تو پیپلز پارٹی اور ق لیگ، یہاں بآسانی حکومت بنا سکتی تھیں۔ قومی اسمبلی بھی بھی اس کی 52 سیٹیں تھی۔ غیر معمولی طور پر ابتر صورت حال میں یہ معمولی بات نہیں تھی۔ اس کے باوجود، اگر ق لیگ میں افراتفری نظر آ رہی تھی تو اس کی وجہ صدر پرویز مشرف تھے۔ یہ صدر موصوف تھے، جن کے اشارہ پر بلوچستان میں ق لیگی ارکان ِ اسمبلی نے پیپلز پارٹی کا وزیر ِاعلیٰ' منتخب' کیا تھا۔ پھر ق لیگ کے اندر ایک اور مسئلہ بھی تھا۔

ایک گروپ کو یہ غلط فہمی تھی کہ چوہدری برادران، صدر پرویز مشرف کے بل پر ق لیگ کی قیادت پر مُتمکن ہیں۔18 فروری 2008 ء کے بعد یہ 'ہم خیال گروپ' سمجھنے لگا کہ چوہدری برادران کو قیادت سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ کیونکہ، یہ وہ مرحلہ تھا، جب اس گروپ کو صرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی نہیں، صدر پرویز مشرف کی سرپرستی بھی میسر تھی۔ لیکن، پھر بھی اس گروپ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ سوال یہ ہے کیوں؟ آئیے، یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مسلم لیگ میں 'ہم خیال گروپ' کی اصطلاح پہلی بار1999ء میں سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر او ر ان کے قریبی ساتھیوں کے لیے استعمال کی گئی تھی۔ یہ 'ہم خیال گروپ' شریف برادران کی قیادت سے سخت ناراض تھا اور ہر قیمت پر اُن کو گرانا چاہتا تھا۔ 12 اکتوبر1999ء کے بعد اس 'ہم خیال گروپ' کو جنرل پرویز مشرف کی پُشت پناہی بھی حاصل ہو گئی۔ یہ وہ وقت تھا، جب چوہدری برادران، نواز شریف اور شہباز شریف کی رہائی کی کوششیں کر رہے تھے۔ فوجداری مقدمات کے سینئر ترین وکیل اعجاز حسین بٹالوی، چوہدری شجاعت حسین کی استدعا پر نواز شریف کی پیروی کر رہے تھے۔

لیکن یہ صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی، جب 10 دسمبر 2000ء کو نواز شریف اور شہباز شریف اپنے اہل ِ خانہ کے ہمراہ جدہ چلے گئے۔ قدرتی طور پر اب میاں اظہر گروپ اور چوہدری برادران کے درمیان فاصلے کم ہو گئے، لیکن مسلم لیگ کی اس تعمیر ِ نو میں جنرل پرویز مشرف کا انحصار میاں محمد اظہر پر تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اول اول جنرل پرویز مشرف، چوہدری برادران کی سیاسی طاقت سے قدرے خائف تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے مناسب یہی سمجھا کہ چوہدری برادران کے برعکس وہ میاں محمد اظہر کی حمایت کریں۔

عام انتخابات میں میاں محمد اظہر اپنی دونوں سیٹوں پر ہار گئے۔ ق لیگ پنجاب میں کامیاب ٹھہری تھی، جہاں چوہدری برادران نے اس کی قیادت کی تھی، لہٰذا، جنرل پرویز مشرف کے لیے اب چوہدری برادران کی اہمیت مسلمہ ہو گئی۔ اس تناظر میں چوہدری شجاعت حسین، ق لیگ کی صدارت تک پہنچے۔ میاں اظہر کے برعکس، چوہدری شجاعت حسین نے اپنے بل پر ق لیگ کی صدارت لی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل پرویز مشرف، باوجود کوشش کے، سید مشاہد حسین کی جگہ شیخ رشید احمد کو سیکریٹری جنرل بنوانے میں کامیاب ہو سکے اور، نہ چوہدری شجاعت حسین کی صدارت کو حامد ناصر چٹھہ کی صدارت سے بدلنے کی اُن کی خواہش پوری کر سکے۔

18 فروری 2008ء کے بعد، ق لیگ سے ترک ِ تعلق کرنے والوں میں تین طرح کے لوگ تھے۔۱۔ وہ لوگ جو ہار گئے۔ ان میں نمایاں ترین شیخ رشید احمد اور ہمایوں اختر خان تھے۔ دونوں کو پہلی ہار کا سامنا ہوا تھا۔ دونوں امیدواروں کو غیر معمولی انتخابی صورت حال کا سامنا تھا۔ لیکن، معلوم ہوتا ہے کہ شیخ رشید احمد اور ہمایوں اختر خان ضرورت سے زیادہ پریشان ہو گئے۔ اگر شیخ رشید احمد اور ہمایوں اختر خان گبھرا کر پارٹی کو خیرباد نہ کہتے، تو آج پارٹی کے اندر بھی اُن کی پوزیشن مستحکم ہونا تھی اور پارٹی کے باہر بھی اُن کا قد بہت اونچا ہونا تھا۔

۲، وہ لوگ جو جیت گئے تھے، لیکن پنجاب میں ن لیگ کی حکومت قائم ہو جانے پر انتقامی کارروائیوں کے ڈر سے پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں سر فہرست نام طاہر علی جاوید اور میاں عطا مانیکا ہیں۔ لیکن، باوجود ن لیگ حکومت کی تمام تر سرپرستی کے، یہ فارورڈ بلاک پنجاب میں ق لیگ کے لیے چیلنج نہیں بن سکا۔ ۳، وہ لوگ، جو حالات کے مطابق بدل جاتے ہیں مثلاً، سلیم سیف اللہ، حامد ناصر چٹھہ، امیر مقام، ارباب غلام رحیم، خورشید محمود قصوری، شیخ وقاص اکرم۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ق لیگ سے ان نکلنے والوں میں ایک قدر ِمشترک، جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف بھی ہیں۔ شیخ رشید احمد، امیر مقام، ارباب غلام رحیم، سلیم سیف اللہ، حامد ناصر چٹھہ، طارق عظیم، اور ماروی میمن وغیرہ، یہ سب ق لیگ میں جنرل پرویز مشرف کا گروپ تھے۔

یہی لوگ تھے، جنہوں نے پہلے یہ کوشش کی کہ جنرل پرویز مشرف کے ذریعے چوہدری شجاعت حسین کو ق لیگ کی قیادت سے دست بردار ہونے پر مجبور کر دیں۔ ناکامی پر جنرل پرویز مشرف کو اپنی پارٹی بنانے پر آمادہ کیا، اور آخر ِ کار ن لیگ میں شامل ہو گئے۔ صرف فیصل صالح حیات کا معاملہ مختلف نظر آتا ہے۔11 مئی کو فیصل صالح حیات، اگرچہ بطور آزاد امیدوار انتخاب لڑ رہے ہیں، لیکن اندازہ یہی ہے کہ اس فیصلہ میں بھی چوہدری برادران کی رضامندی شامل ہے۔ کیونکہ پنجاب میں کئی سیٹیں ہیں، جہاں بعض انتخابی الجھنوں کے باعث ق لیگ کے امیدوار، آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے پر مجبور ہیں۔

18 فروری 2008ء کے فوراً بعد ق لیگ اور اُس کی قیادت مشکلات میں گھری ہوئی نظر آتی تھی۔ چوہدری برادران کو ایک طرف فارورڈ بلاک اور ہم خیال گروپ کی صورت میں اندرونی چیلنجوں کا، تو دوسری طرف، 'ن لیگ، پیپلز پارٹی حکومتوں' کی صورت میں بیرونی چیلنجوں کا سامنا تھا۔ لیکن، چوہدری برادران نے راہ ِفرار اختیار نہیں کی اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ نتیجتاً، آخر ِ کار ق لیگ بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو گی۔2011ء ق لیگ کے لیے خوش قسمت سال ثابت ہوا۔ اس سال کے آخر میں حکومت کا اپنی آئینی مدت پوری کرنا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کے بعد ایم کیو ایم بھی حکومت چھوڑ چکی تھی۔

اس مرحلہ پر پیپلز پارٹی نے چوہدری برادران کو اتحاد کی پیشکش کی۔ پیپلز پارٹی سے اتحاد کا فیصلہ، آسان فیصلہ نہیں تھا، لیکن چوہدری برادران آخر ِ کار یہ فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس حکمت ِ عملی کا صرف چوہدری برادران کو نہیں، عمران خان کو بھی فائدہ پہنچا۔ کیونکہ، اس مرحلہ پر اگر پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ ہو جاتا، تو اس کے فوراً بعد مڈٹرم الیکشن میں ن لیگ کا راستہ صاف تھا۔ عمران خان کو فائدہ یہ ہوا کہ اس عرصہ میں عمران خان، تحریک ِ انصاف کو منظم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ چوہدری برادران کو فائدہ یہ ہوا کہ پارٹی کے اندر اور باہر ان کا راستہ ہموار ہو گیا۔ 'پیپلزپارٹی، ق لیگ اتحاد' کے نتیجہ میں، فارورڈ بلاک اور ہم خیال گروپ کے ارکان اپنے حلقوں میں اس حد تک کمزور امید وار قرار پا گئے کہ اُن کو اُن کی اپنی سیٹوں پر ن لیگ کے ٹکٹ کا مستحق نہیں سمجھا گیا۔

رنگ لیڈر طاہر علی جاوید کی انتخابی سیاست کا ضمنی انتخاب میں خاتمہ ہو گیا۔ چیئرمین حامد ناصر چٹھہ اور صدر ارباب غلام رحیم بے یار و مددگار پڑے ہیں۔ سلیم سیف اللہ اور ہمایوں اختر خان بھی خالی ہاتھ ہیں۔ اس کے برعکس، اگر چوہدری برادران نے حوصلہ نہیں ہارا تو اس کا ثمر یہ ہے کہ آج وہ بھرپور طور پر انتخابی میدان میں ہیں۔ ان کی پارٹی، پاور گیم میں واپس آ چُکی، بلکہ 'بادشاہ گر پارٹی' بنتی نظر آ رہی ہے۔ وزیر ِاعلیٰ پنجاب، قومی اسمبلی میں قائد ِ حزب اختلاف اور نائب وزیر ِاعظم کے بعد، چوہدری پرویز الٰہی کا نام اب اتحادی وزیر ِاعظم کے لیے زیرِ بحث ہے۔ زندگی میں خوشی غمی کی طرح، سیاست میں بھی جیت کا مطلب مستقل جیت ہے، اور، نہ ہار کا مطلب مستقل ہار۔ ق لیگ کی قیادت نے یہ راز پا لیا، ہمت نہیں ہاری اور کامیاب رہی۔ 'ہم خیال گروپ' نے یہ راز نہیں سمجھا اور یہی اُس کا المیہ تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں