ماہ صیام کے بعد ہماری زندگی

رمضان کی طرح تقوی ٰ و پرہیز گاری کوہمیشہ شعار بنائے رکھیں اورحقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد پر بھی سختی سے عمل پیرارہیں


Nighat Farman June 15, 2018
رمضان کی طرح تقوی ٰ و پرہیز گاری کوہمیشہ شعار بنائے رکھیں اورحقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد پر بھی سختی سے عمل پیرارہیں۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: رمضان ہم میں تقوی پیدا کرکے اسے منظم کرتا اور ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی سکھاتا ہے۔

اسلام کی تمام عبادات کا مقصد خشیت الٰہی ہے۔ عبادات سے انسان میں پاکیزگی اور اللہ کی عظمت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یوں تو تمام عبادات اللہ کی خوش نودی کا ذریعے ہیں مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کو نکھار کر کندن بناتا ہے، جسے ہم تقوی کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جو خالصتاً اللہ رب العزت کی رضا کے لیے ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ روزے کا اجر میں خود ہوں۔

رمضان میں عبادات کا شوق بڑھ جاتا ہے، لیکن بدنصیبی اور محرومی ہے کہ رمضان کے بعد ہم ویسے کے ویسے ہوجاتے ہیں۔ کسی کی نیت پر شک تو نہیں کیا جاسکتا لیکن جو رمضان کے بعد کے مظاہر ہیں اس سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے روزے کو ایک دکھاوے کی عبادت بنا دیا ہے۔ ہم پورے رمضان کے روزے رکھتے ہیں مگر نہ تو ہمیں ان روزوں سے کوئی جسمانی فوائد مل رہے ہیں نہ روحانی ترقی ہو رہی ہوتی ہے اور نہ ہی معاشرتی برائیوں اور گھناؤنے اعمال سے نجات مل رہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے ۔۔۔۔۔ ؟

رمضان میں ہم نے یہ سیکھا کہ بہترین روزہ وہ ہے جو احتساب اور ایمان کے ساتھ رکھا جائے۔ خواہشات نفسانی سے رکے رہنا اصل اور واجب ہے کہ ان کا ارتکاب ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح بہت ساری باطنی چیزیں بھی ہیں جن سے باز رہنا انتہائی ضروری ہے مثلاً جھوٹ، غیبت، چوری، بے ایمانی، دھوکا دہی وغیرہ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ تمام باطنی اعمال وہ ہیں جن سے رکے رہنے کی وجہ سے معاشرے میں برائی ختم اور اچھائی کے پھیلنے اور بڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ تمام باطنی اعمال ایک مسلمان کی زندگی میں عام طور سے جاری رہنا چاہیے۔

ہم اگر اپنے رمضان کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہم روزے اور اس کی مقبولیت کے عمل سے بہت دور رہے۔ ہم نے دیکھا کہ ابتدائے رمضان میں مساجد بھی بھری نظر آئیں۔ نوافل کی ادائی اور تلاوت کلام پاک بڑے جوش و خروش سے ہوتی دکھائی دی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ دل چسپی کم ہوتی چلی گئی اور جوش ماند پڑتا گیا۔ رمضان کے بعد پنج گانہ نمازوں میں بھی نمازیوں کی تعداد گھٹ جاتی ہے۔

مگر اس کے ساتھ ہی بازاروں میں گہما گہمی بڑھ جاتی ہے۔ بہت سے لوگ روزے سے ہوتے ہوئے بھی جھوٹ بولتے رہے کیوں کہ ہمیں یہ باور کرایا ہے کہ کاروباری معاملات میں جھوٹ سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ایک سبزی فروش اور پرچون کی دکان پر بیٹھا ہوا شخص حسب عادت کم تولتا دکھائی دیتا ہے۔ دوست احباب کی مجلسوں میں غیبت بالکل ایسے ہی چل رہی ہوتی ہے جیسے کوئی بُری بات ہی نہیں ہے۔ سرکاری دفاتر میں رشوت کا کاروبار ویسا ہی ہے اس لیے کہ سینیر افسروں کو تحائف بھی دینے ہوتے ہیں اور پھر اپنی بیگم صاحبہ کو بھی تو اتنا خرچ دینا ہے جس میں وہ پڑوسن سے زیادہ منہگے کپڑے اور زیور خرید سکیں۔

ہم اخلاقی اور معاشرتی گراوٹ میں انتہائی تیزی سے ڈوبتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ رمضان کے رخصت ہوتے ہی ہم اپنے روز و شب کے تمام معاملات کو الٹ دیتے ہیں۔

اب رمضان شریف کا مہینہ چلا گیا ہے اور ہم پھر سے خرافات میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ کاروبار میں جھوٹ اور بے ایمانی بھی ہوگی، چغلی، رشوت اور دھوکا بازی بھی پورے زور و شور سے چلتی رہے گی۔

ہماری عبادتوں سے اللہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ ہماری عبادات ہماری اپنی تطہیر اور صفائی کے لیے ہوتی ہیں۔ ان عبادات سے جڑے ہوئے ثواب کے جو وعدے ہیں وہ تو آخرت کے لیے ہیں وہ وہاں ملیں گے۔ یہ وہ خزانہ ہے جو ہم دنیا کی کھیتی میں سے کما کر آگے بھیج رہے ہیں، رہی بات دنیاوی فائدے کی تو ہر عبادت ہمارے نفوس میں نفاست پیدا کرتی ہے۔ اللہ کے احکامات پر عمل درآمد سے ہمارے اعمال بہتر ہوتے ہیں اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ ہماری عبادتیں گو کہ انفرادی سطح پر ہماری تطہیر قلب کرتی ہیں اور جو پاکیزگی روح کو ملتی ہے وہ انسان کے اندر بھلائی پیدا کرتی ہے۔

مگر جب معاشرے کے تمام لوگ مل کر یہ پاکیزگی حاصل کرلیتے ہیں تو پورے معاشرہ میں اس کے اثرات پھیل جاتے ہیں۔ اگر معاشرہ کا ہر فرد جھوٹ کو غلط سمجھے اور اس سے اجتناب برتے تو وقت کے ساتھ پورے معاشرے میں اس کے اثرات پہنچنا شروع ہو جائیں گے اور ہمارے اندر سے جھوٹ کی یہ وبا جو آج عام ہے دور ہوجائے گی۔ ہم اسلام کا نام تو ضرور لیتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ ہم اسلام سے کوسوں دور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں تمام برائیاں اپنے عروج پر ہیں۔ کسی بھی معاشرتی برائی کا نام لیں، ہم اس میں ملوث ملیں گے۔ اور اس میں تو کوئی شک نہیں کہ برائیاں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں سے دور لے جاتی ہیں اور اللہ کے غیض و غضب کو آواز دیتی ہیں۔ اللہ بہت مہربان ہیں اور اپنے بندوں کو بہت ڈھیل بھی دیتا ہے۔

رسی دراز ہوتی رہتی ہے اور سرکشی اور بد اعمالیوں میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے اگر غلط راستوں پر چل رہے ہوتے تو یقیناً اللہ کے عذاب کا شکار ہوجاتے۔ اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں تو ہمیں اپنی حالت ان سے مختلف نہیں لگے گی۔ ایسے میں ہماری عبادتیں جو ہمیں اللہ کے قرب کا ذریعہ ہیں، رائیگاں ہوجاتی ہیں۔ نہ ہم اللہ کے نزدیک آتے ہیں نہ اللہ ہماری طرف متوجہ ہوتا ہے۔

نہ ہماری حالت سنورتی ہے نہ ہمارے معاشرہ میں کوئی مثبت تبدیلی آتی ہے بل کہ برائیوں اور اللہ کی نافرمانی میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے اور نہ صرف یہ کہ انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں بل کہ معاشرے میں نہ تو کوئی انصاف باقی رہتا ہے ، نہ شرم و حیا ہوتی ہے، نہ کسی قسم کی پاکیزگی کے ملنے کا امکان رہتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے گندے معاشرے میں بھی ہر وقت موجود ہوتے ہیں اور سدھار کی حتی الامکان کوشش بھی کرتے ہیں مگر یا تو ان کی کوششیں درست راستے پر نہیں ہوتی ہیں یا پھر وہ خود بھی بسا اوقات اپنا دامن بچا کر چلتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر معاشرہ بگڑتا ہی چلا جاتا ہے۔

آج ہم عبادت بھی کرتے ہیں مگر ان میں کوئی روح نہیں ہے۔ نماز پڑھتے ہیں مگر برائیوں سے دور نہیں ہوتے، زکوٰۃ کو تاوان سمجھتے اور اس میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں مگر وہ بھی صرف دکھاوے کے۔ کھانے پینے سے اجتناب کا نام روزہ نہیں۔ اگر اللہ کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل نہ کریں تو یہ روزہ کسی فائدے کو تو راہ نہیں دکھائے گا۔

نہ ہم خود انفرادی طور پر درست ہوں گے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ کسی طور درست ہوگا۔ جو بد اعمالی، نا انصافی اور دیگر سماجی برائیاں ہیں وہ اپنی جگہ پھلتی پھولتی رہیں گی۔ ہم جتنی مرضی دعائیں مانگیں اچھائی ہماری طرف رخ نہیں کرے گی اس لیے کہ ہم اصولی طور پر خود ہی درست نہیں ہونا چاہتے۔ ہم درست ہونے کی کوشش کریں گے تو اللہ کی فتح و نصرت ہمارے ساتھ ہوگی۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اچھی حالت میں تبدیل نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ خود اپنی حالت کو تبدیل نہ کرے۔

ہمیں چاہیے کہ رمضان کی طرح اب بھی تقوی و پرہیز گاری کو شعار بنائے رکھیں اور حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد پر بھی سختی سے عمل پیرا رہیں۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں