لاڑکانہ کی صحافت اور مرحوم عبدالجبار بلوچ

جبار بلوچ سینئر صحافیوں میں ایک الگ مزاج اور طبیعت رکھتے تھے اور خاص طور پر انھیں بولنے کا بہت شوق تھا۔


لیاقت راجپر June 08, 2018

ایک زمانہ تھا کہ لاڑکانہ کی صحافت عروج پر تھی اور اس وقت کے سیاستدان اور بیورو کریٹ بھی اہمیت رکھتے تھے، حکومت، عوام ، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے درمیان صحافیوں نے بڑا اہم رول ادا کیا جس میں خاص طور پر یوسف علی خان، محمد خان شیخ، احمد خان کمال، غلام تقی جعفری، مسلم شمیم، قائم الدین منگی، عبدالجبار بڑے متحرک تھے۔ وقت کے ساتھ ایک ایک کرکے سب اس دنیا کو چھوڑ گئے اور عبدالجبار بلوچ جو سینئر صحافیوں میں اکیلے رہ گئے تھے، وہ بھی 2 جون 2018 کوکچھ دن بیمار رہنے کے بعد دار فانی سے کوچ کرگئے۔

جبار بلوچ سینئر صحافیوں میں ایک الگ مزاج اور طبیعت رکھتے تھے اور خاص طور پر انھیں بولنے کا بہت شوق تھا اور جب بھی صحافیوں میں ان بن ہوجاتی تو وہ ثالثی کا کردار ادا کرتے تھے اور مرنے سے پہلے بھی وہ لاڑکانہ پریس کلب کے سرپرست تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسے ملک کے ہر شعبے میں پیشہ ورانہ کمی آئی ہے اس میں صحافت بھی نہیں بچ سکی کیونکہ پہلے اخباروں میں کام کرنے والے صحافی کم ہوتے تھے، ایمانداری تھی، انسانیت تھی اور عوام کم ہونے کی وجہ سے شہر کے لوگ ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچانتے تھے، محبت اور عزت دینا اور لینا چاہتے تھے اور پیسے سے زیادہ دوستی اور رشتے داری کو لوگ اہمیت دیتے تھے۔

وہ صحافت کے علاوہ سینما سے منسلک تھے اور دن کے 3 بجے سے رات کے 12 بجے تک لاڑکانہ میں نگار سینما میں بطور منیجر بھی کام کرتے اور وہیں سے خبریں ارسال کرتے۔ انھوں نے اپنا صحافتی کردار بڑے زبردست طریقے سے نبھایا اور جو بھی آدمی ان کے پاس آتا تھا وہ ان کا کام ضرور کرواتے تھے جس کی وجہ سے وہ عوام میں مقبول ہوگئے تھے اور دو مرتبہ میونسپلٹی کے الیکشن میں یونین کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ انھوں نے نہ تو کوئی پلاٹ، دکان، گھر یا پیسہ کمایا اور شہر میں اپنے کاموں سے یا پھر سینما اور پریس کلب جانے کے لیے اپنی ہنڈا 50 موٹرسائیکل استعمال کرتے تھے اور جب وہ خراب ہوگئی تو پیدل چل کر منزل پر پہنچتے تھے۔

موجودہ لاڑکانہ پریس کلب کی عمارت کو بنانے میں انھوں نے صحافی دوستوں کے ساتھ مل کر بے نظیر بھٹو کے پاس گئے جس میں اقبال بابو بھی پیش پیش تھے۔ نئی عمارت میں صحافتی ضروریات کی ساری سہولتیں موجود ہیں، جس میں خاص طور پر لیکچر ہال، وی آئی پی ہال، پریس کانفرنس ہال، باہر سے آنے والے مہمان صحافیوں کے ٹھہرانے کے کمرے، نیوز روم، آفس کے کمرے، ایک خوبصورت لائبریری، لاؤنج اورکمپیوٹر چلانے کے کمرے عمدہ بنے ہوئے ہیں ۔ یہاں پر ایک اچھی کینٹین بھی بنائی جا رہی ہے اور اس کے علاوہ ایک بڑا ہال بھی مکمل کیا جا رہا ہے جسے پروگرام کرانے کے لیے لوگوں کو کرائے پہ دیا جائے گا جس کی آمدنی سے صحافیوں نے بھلائی کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جائے۔

ایک زمانہ تھا کہ لاڑکانہ پریس کلب میں بڑی بڑی سیاسی، سماجی اور ثقافتی شخصیات اکثر آیا کرتی تھیں اور پھر صحافیوں کو بھی ملک کے مختلف حصوں میں لے جایا کرتے تھے جس سے صحافیوں کی دوسرے شہر کے لوگوں اور صحافیوں سے ذہنی ہم آہنگی بڑھتی تھی مگر اب یہ سلسلہ تقریبا نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے کیونکہ اب سیاسی ہلچل زیادہ بڑھ گئی ہے، الیکٹرانک میڈیا کے آجانے سے ذمے داریاں تیز ہوگئی ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ میڈیا سے کالی بھیڑوں کو نکال دینا چاہیے اور پیشہ ورانہ، پڑھے لکھے، ایماندار اور محنتی نوجوانوں کو موقع دینا چاہیے جو اس پیشے کی ضرورت ہے۔

وہ کہنہ مشق صحافی کامریڈ جمال الدین بخاری سے متاثر تھے ۔ لاڑکانہ کی سیاست پر ذوالفقار علی بھٹو چھائے ہوئے تھے اور وہ لاڑکانہ کے صحافیوں کو اکثر باہر سے آنے والی شخصیات سے ملواتے تھے جس میں صدر محمد ایوب خان خاص طور پر شامل تھے جن سے جبار نے کئی مرتبہ ملاقاتیں کی تھیں، ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں اور محنت دیکھ کر انھیں کئی مرتبہ اچھے سرکاری عہدوں کی آفر ہوئی لیکن انھوں نے صحافت سے محبت کی وجہ سے انکارکردیا۔ انھوں نے صحافت کے ذریعے عوام کی خدمت اور شہر کے مسائل کو حل کرنے کو ترجیح دی۔

جبار بلوچ نے جب صحافت میں قدم رکھا تو اس وقت لاڑکانہ شہر میں کوئی پریس کلب نہیں تھا اور یونین آف جرنلسٹس تھی اور صحافی محمد یوسف کی بیٹھک میں آکر بیٹھتے تھے اور وہیں خبریں لکھتے تھے۔ دو مہینے کے اندر انھیں یونین آف جرنلسٹس کا نائب صدر بنایا گیا۔ اس دور میں اخبار پڑھنے کا رجحان کم تھا ، صحافی اچھے کردار کے ہوتے تھے اور لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اس وقت خبریں لفافے میں ڈال کر ادارے کو پوسٹ کی جاتی تھیں یا پھر اہم خبر لکھوانے کے لیے فون کی کال بک کروائی جاتی تھی جس کے لیے کافی انتظار کرنا پڑتا تھا مگر صحافیوں کو کال جلد مل جاتی تھی۔ اس کے علاوہ خبریں ٹیلی گرام اور ٹیلی پرنٹر کے ذریعے بھی بھیجی جاتی تھیں۔

جب خبر اخبار میں آجاتی تھی تو اس کی اطلاع متعلقہ ادارے یا بندے کو ٹیلی فون پر دی جاتی تھی اور وہ جاکر اخبار خرید کر لاتے تھے، کبھی اگر متعلقہ ادارے سے رابطہ نہیں ہوتا تو اپنے چپڑاسی کو سائیکل پر بھیجتے تھے ۔ اس وقت صحافیوں کی عزت اس لیے بھی زیادہ ہوتی تھی کہ وہ عوام کے مسائل خود ہی رپورٹ کرتے تھے اور اس کے حل کے لیے بھاگ دوڑ بھی کرتے تھے۔

جب آہستہ آہستہ صحافت ترقی کرتی گئی اور صحافیوں میں اور اخباروں میں اضافہ ہوتا گیا تو پریس کلب کی ضرورت محسوس ہوئی جس کے لیے ایک پریس کلب جناح باغ میں ایک کمرے پر مشتمل میونسپل کمیٹی لاڑکانہ نے عارضی طور پر صحافیوں کے حوالے کیا۔ اس وقت جو پریس کلب کی عمارت ہے وہ کبھی میونسپل کمیٹی کا ریسٹ ہاؤس تھا جہاں پر پریس کلب کو شفٹ کیاگیا۔ صحافیوں کی کاوشوں کی بدولت یہ عمارت پریس کلب کے لیے میونسپل کی انتظامیہ نے الاٹ کردی۔ اس جدوجہد میں انفارمیشن آفیسر محمد لائق حسین سومرو اور دوسرے افسران کی مدد شامل ہے۔

اس پریس کلب کے اس وقت جبار بلوچ یونین آف جرنلسٹس کے صدر تھے جنہوں نے اس کلب کو رجسٹرڈ کروایا اور کلب کا جو منشور بنایا گیا اس پر بھی انھی کے دستخط ہیں۔ اس زمانے میں لوگ خبر کی اشاعت پر پیسے کی آفر کرتے تھے مگر صحافی کہتا تھا کہ ان کا ادارہ انھیں اس کام کی تنخواہ اور خرچہ دیتا ہے اور شہرکے مسائل حل کروانے کے لیے خبریں دینا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ جب بھٹو وزیر خارجہ تھے اورکوئی باہرکی شخصیت لاڑکانہ آتی تو بھٹو صحافیوں کو بھی اس دعوت میں بھی شمولیت کرواتے تھے۔ جبار بلوچ اس وقت شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے ساتھ مل چکے تھے اور اس کے علاوہ بھی مڈل ایسٹ کے بادشاہوں اور یاسر عرفات سمیت اسلامی ملکوں کے کئی سربراہوں سے پروگراموں میں مل چکے تھے۔

جب جبار بلوچ گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ کے اسٹوڈنٹ یونین کے صدر تھے تو وہ اکثر بھٹو کو کالج کے پروگراموں میں بحیثیت مہمان خاص مدعو کرتے تھے ۔ بھٹو نے کالج میں نئے روڈ بنا کر دیے، سائنس ہال بنوائے اور اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لیے کام کیا۔ وہ بھٹو کے ساتھ طالب علمی کے زمانے سے لے کر حکومت میں صدر اور وزیر اعظم کے دور میں بھی صحافی کی حیثیت میں ان سے ملتے رہے۔ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کئی مرتبہ لاڑکانہ پریس کلب آتے رہے اور پریس کلب کے لیے مالی مدد بھی کی۔ جبار بلوچ کی سب سے زیادہ Working Relationship مرحوم احمد خان کمال کے ساتھ اچھی رہی جس کے ساتھ مل کر انھوں نے کئی کام سرانجام دیے۔

پریس کلب میں عورتوں کے لیے اور جناح باغ میں کئی مینا بازار کا پریس کلب کی طرف سے انعقاد کروایا جس کی آمدنی سے پریس کلب کو مالی فائدہ ہوا اور عورتوں کو تفریح کے مواقعے ملے۔ اس کے علاوہ قومی مشاعرے، سندھی اردو ڈرامے اور کئی سماجی اور ثقافتی پروگرام کروائے۔ جب بھی اس طرح کے پروگرام منعقد ہوتے تو ان کی کوریج تمام اخباروں میں چھپتی تھی۔ اس کے علاوہ جناح باغ کے احاطے میں ایک گومی لیڈیز کلب تھا جس میں بھی صحافیوں کے تعاون سے کئی تفریحی پروگرام ہوتے رہتے تھے۔ بعد میں یہ کلب بند ہوگیا اور اب دوبارہ بڑے عرصے کے بعد بحال ہوگیا ہے۔

اپنی 78 سالہ میں زندگی کے بڑے اتار چڑھاؤ دیکھے، کئی حکومتیں بنی، ختم ہوگئیں،کتنے لوگ بڑی بڑی کرسیوں تک پہنچے اور پھر آخر میں ان کے ساتھ کیا ہوا ۔ ان کے دور میں بیوروکریٹس بڑے پڑھے لکھے اور رعب والے ہوتے تھے۔

وہ لاڑکانہ شہر میں یکم جنوری 1940 کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اور سیکنڈری تعلیم اور پھر گریجویشن لاڑکانہ سے پاس کیا جب کہ ایم اے سندھی مضمون میں 1967 میں ڈگری حاصل کی۔ وہ اسپورٹس کمیٹی کے سیکریٹری اور بیڈمنٹن کے چیمپئن بھی رہ چکے تھے ۔ ان کی وفات سے لاڑکانہ کی صحافت میں جو روشن باب چل رہا تھا، وہ اب بند ہوگیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں