امیدوں کی رہگزر 25 جولائی

انتخابات میں امیدوں کی جگہ ناامیدی جلوہ گر رہے گی چونکہ انتخابات 25 جولائی کے دن رکھے گئے ہیں۔


Anis Baqar June 08, 2018
[email protected]

تمام جمہوری ملکوں میں پانچ یا چار برس بعد وہ دن ضرور آتا ہے جب جمہور آزادی سے اپنا حکمران منتخب کرتے ہیں اور یہ حکمران قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں، مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جو ہم پر حکومت کرنے آتے ہیں وہ اپنا پیٹ بھرتے چلے جاتے ہیں۔ اکثر اخباروں میں یہ خبریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں کہ ٹونی بلیئر بس میں سفر کرتے نظر آئے اور ایران کے سابق صدر احمدی نژاد صدارت کے خاتمے کے بعد بکریاں چراتے دکھائی دیے۔

مگر پاکستان کے عام افسران وہ امپورٹڈ گاڑیاں استعمال کرتے نظر آتے ہیں جو غیر ملکی صدور بھی استعمال نہیں کرتے جب کہ ملک کی خستہ حالی یہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائرکمتری کے سفر میں گزشتہ 15 برسوں سے ہیں اور ہر سال حکومتیں عوام کا پیٹ کاٹ کر اور دنیا میں قوم پر ٹیکس لگا کر کشکول گدائی پھیلا کر بجٹ کا خسارہ پورا کرتے ہیں۔ اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی بجلی، پانی اور ٹرانسپورٹ کے شدید مرض میں مبتلا ہے اورکوئی نجات دلانے پر تیار نہیں۔

اس شہر میں ایک علاقہ جس کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب ہے جس کو خدا کی بستی اور سرجانی ٹاؤن کے نام سے جانا جاتا ہے وہ بجلی کی روشنی سے کئی کئی دن محروم رہے اور وہاں غربت کا عالم یہ ہے کہ وہاں کے بیشتر لوگ لیگل کنکشن لینے کی استطاعت نہیں رکھتے اور یہاں کا ایک انتہائی پوش علاقہ ڈی ایچ اے پانی کی لائنوں کی موجودگی اور واٹر ٹیکس دینے کے باوجود سال بھر میں سردیوں کے مہینوںمیں صرف چند دن پانی لائن سے آتا ہے یہاں کے مکین صرف ٹینکر پر گزارا کرتے ہیں جو پانچ ہزار میں آتا ہے، اس کے باوجود لیڈر شپ کوکوئی پرواہ نہیں۔

دنیا بھر میں الیکشن میں نظریات کا بڑا دخل ہوتا ہے، مگر پاکستان کی سیاسی پارٹیاں صرف شخصیات کے گرد گھومتی ہیں کہ ان کے اجداد کیا تھے اور وہ کیا کرتے تھے خواہ وہ کچھ نہ کرسکے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان کی یہ سوچ بارآور بھی ہے اور کوئی کھلاڑی ہے تو وہ کھیل اور سیاست کو قریب لاکر مذہبی شخصیات کو پروموٹ کرنے میں مصروف ہے اور اس کے چاہنے والے صرف شخصیت پرستی کے گرد گھوم رہے ہیں۔ مذہبی جماعتوں نے اپنی ایک پارٹی بنا رکھی ہے جن کا مذہبی پروگرام واضح ہے۔ ایک حکمراں لیگ ہے جو عالمی پیمانے پر کوئی فیصلہ اور معاشی پیمانے پر اصلاح کا کوئی فارمولا پیش کرنے سے قاصر ہے۔

یہ ملک میں معاشی انقلاب کی دعویدار ہے مگر معاشی انقلاب لانے کا کوئی راستہ اپنانے سے قاصر ہے۔ ملک میں دائیں اور بائیں بازو کی کوئی سیاسی تقسیم نہیں اور نہ کوئی پارٹی معاشی انقلاب لانے کی جستجو رکھتی ہے۔ کیونکہ عملی طور پر ملک کی نصف آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے، ان کے لیے کوئی حکومتی پروگرام نہیں۔ خصوصاً جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ان میں سے بھی بمشکل 20 فیصد متحرک ہیں باقی ملکی معاملات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہیں، حالانکہ بعض چیزوں میں ان کی صلاحیت مردوں سے زیادہ ہے۔

صاف لہجہ، مفصل گفتگو پڑھنے لکھنے میں زیادہ دلچسپی اسی لیے میڈیکل کالجوں میں ان کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں پیکنگ اور الیکٹرانک اسمبلنگ میں خواتین کی کارکردگی کا کوئی ثانی نہیں مگر کچھ خواتین رہنما خواتین کو مردوں کے مدمقابل لا رہی ہیں اور ان کو مردانہ لباس پہننے کی ترغیب میں کوشاں ہیں جب کہ علامہ اقبال نے خواتین کو تصویرکائنات کا رنگ و روپ قرار دیا ہے، مگر سیاست کی سرزمین میں پاکستان میں ان کا کوئی رنگ نہیں صرف جنرل مشرف کی ترمیم نے پاکستان کی سیاست میں خواتین کو نمایاں کیا مگر سیاست کا رنگ مزید ترمیم کا تقاضا کر رہا ہے۔

خیرگفتگو اصل موضوع سے بھٹک رہی ہے لہٰذا اس کو موضوع کے اصل رخ پہ لانا ضروری ہے کیونکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پڑھے لکھے اور مخلص حضرات سیاست کی منزل کو اپنا مقصود حیات بنائیں مگر یہاں پڑھے لکھے لوگوں کو سیاست میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔ پاکستان میں ان کے لیے بہت سی رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں اور جو لوگ بھی اس راہ پر چلے ان کو ملک بدری کا سامنا کرنا پڑا یا تو وہ جان سے گئے مثلاً سجاد ظہیر کو ملک چھوڑ کر انڈیا واپس جانا پڑا اور جو دوبارہ پاکستان آیا حیدرآباد دکن کی نواب فیملی کا درویش صفت حسن ناصر جس کی ایک آواز پر تقریباً 50، 60 ہزار مزدور اور مڈل کلاس جمع ہوجاتے تھے۔

اس کو ایوب خان کے دور میں قلعہ لاہور میں قتل کردیا گیا اور ان دو مقتولین کو کون نہیں جانتا جو ضیا الحق کے دور میں قتل کیے گئے نوجوان اسٹوڈنٹس لیڈر نذیر عباسی اور جوڈیشل مرڈر زیڈ اے بھٹو کا۔ مگر ملک کی دولت لوٹنے والے عوام کی تقدیر کو برباد کرنے والے ملک میں آزادی سے گھوم رہے ہیں۔ اس لیے پاکستانی عوام اپنی امیدوں کو بھلا بیٹھے ہیں اور الیکشن جیتنے والوں سے بالکل مایوس ہوچکے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں عوامی مطالبات کا نعرہ لگانے والے لیڈر زمین دوز ہوگئے اور ان کا کوئی مستقبل نہیں۔ نئی عوامی لیڈرشپ کی آمد کے تمام راستے بند ہوگئے۔ اسی لیے مزدور اور طلبا لیڈر شپ کا صرف نشان رہ گیا اور رفتہ رفتہ نشان بھی مٹ جائے گا۔

کیونکہ اب لیڈر شپ ان لوگوں کے پاس ہے جو غیر ملکی اشارے پر پاکستان کو چلانے کے راستے کا یقین دلاتے ہیں اگر کسی کو یقین نہ آئے تو وہ چوہدری شجاعت حسین کی حالیہ یاد داشتوں کا مطالعہ کریں تاکہ سچ سامنے آسکے کہ پاکستان میں حکمرانی کے لیے مغربی ممالک کا کیا کردار ہے اور پاکستان میں مسٹر نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی میں کس ملک نے کیا کردار ادا کیا اور اب میں یہ لکھنے سے قاصر ہوں کہ محترمہ کو کیوں اور کس نے راستے سے ہٹایا؟ اس موضوع پر پاکستان کے عدل و انصاف نے بھی کوئی فیصلہ نہ دیا۔

بس جوں جوں الیکشن کے دن قریب آرہے ہیں صرف ایک شور برپا ہے کہ الیکشن کی تاریخ میں کوئی رد و بدل نہ ہوگی۔ حالانکہ الیکشن میں مجموعی طور پر عوام کو دلچسپی نہیں ہے کیونکہ انھوں نے بہت حد تک نتائج کا اندازہ لگالیا ہے کہ کراچی مجموعی طور پر کسی ایک پارٹی کے پاس نہیں رہے گا مہاجر قومیت کا جو نعرہ لگایا گیا تھا اس کی روحانی قوت میں خاصی کمی واقع ہوگئی ہے اور پی پی نے انتخابات میں اردو اسپیکنگ امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی راہ اختیار کی ہے اور ہوسکتا ہے کہ تمام وہ علاقے بشمول نوابشاہ جو زرداری صاحب کا آبائی علاقہ ہے مگر وہاں اب ایم کیو ایم کی کیا پوزیشن ہے کچھ کہنا مناسب نہیں البتہ اگر زرداری صاحب نے سندھ کی سیاست میں اردو اسپیکنگ کو زیادہ مواقع دیے تو پھر پی پی پی کو اضافی سیٹوں کا امکان ہے۔

رہ گیا کے پی کے اور پنجاب اور بلوچستان میں ان کے اثرات قابل ذکر نہ ہوں گے البتہ سندھ کی مقامی پارٹیاں بھی پی پی کو قابل ذکر نقصان نہ پہنچا سکیں گی اور عمران خان بھی سندھ بشمول کراچی میں بھی کوئی قابل ذکر فتح حاصل نہ کرسکیں گے کیونکہ یہ امرا کی لیڈرشپ کی حامل پارٹی ہے اور مذہبی جماعتوں کی خاصی طرفدار ہے کیونکہ بائیں بازو کی کوئی پارٹی الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی ہے اس لیے الیکشن میں مقابلے بھی قابل ذکر نہ ہوں گے کیونکہ عوام پر ناامیدی کی دھند چھائی ہے اس لیے الیکشن رزلٹ 40 فیصد سے بھی کم ہونے کے امکانات ہیں۔

انتخابات میں امیدوں کی جگہ ناامیدی جلوہ گر رہے گی چونکہ انتخابات 25 جولائی کے دن رکھے گئے ہیں اس لیے تیز دھوپ اور بارش بھی اس دن ایک رکاوٹ بن سکتی ہے۔ مگر جمہور نے پاکستانی جمہوریت کے رنگ ڈھنگ دیکھ رکھے ہیں۔ اس لیے ان کی توقعات بھی کم ہیں حکومت نے عوام کے لیے جو امیدوں کی رہگزر بنائی ہے وہ نہایت خستہ ہے اور اگر نتائج پچاس فیصد ووٹ سے کم رہے تو عالمی پیمانے پر اس حکومت کو وہ مقام نہ حاصل ہوگا جس کی وہ مستحق ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں