جمہوری پلیٹ فارم

مستقبل میں ملکی جمہوری نظام اور ملکی ناموس پر خوش آئند اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔



ISLAMABAD: وطن ِ عزیز پاکستان میں 70سالہ عمر کی حامل جمہوریت اب اپنے بچپن کی عمر سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے ۔ گذشتہ ستر سالوں میں ملک میں سب نے جمہوریت کو بچہ سمجھتے ہوئے کبھی سنجیدہ نہیں لیا بلکہ ہمیشہ لالی پوپ پر ہی چلایا ۔کبھی گود بٹھایا گیا تو کبھی آنکھیں دکھائی گئیں ، کبھی کلاس لی گئی تو کبھی گھر بٹھایا گیا۔

یوں جمہوریت سوتیلی ماں کے ہاتھوں پلنے والے ایک یتیم بچے کی مانند لعن و طعن سنتے ، سہتے اپنا بچپن گذار کر جب اپنی جوانی کی دہلیز پر پہنچی ہے تو اسے کم از کم یہ سمجھ آگیا ہے کہ کسی بھی طرح اپنے پلیٹ فارم کو برقرار رکھنا ہے ، باقی گاڑیاں اور مسافربھی آتے جاتے رہتے ہیں اورکبھی کبھی ڈاکو بھی آدھمکتے ہیں لیکن اگر پلیٹ فارم مضبوط ہے تو نظام چلتا رہتا ہے ۔

اسی سوچ کے تحت جمہوریت اور جمہوری قوتوں نے گذشتہ 10برسوں میں تین وزرائے اعظم کی قربانی دیکر بھی جمہوریت کے سب سے بڑے پلیٹ فارم یعنی قومی اسمبلی کو مضبوط بنانے کی ہر ممکن کوششں کی۔ حالانکہ اس پلیٹ فارم کی تباہی کے لیے وہاں کئی غیر جمہوری قوتوں کے نمائندوں کو بھی متعین کیا گیا تو کئی نااندیش گھر کے بھیدی خرید کر انھیں بھی اس پلیٹ فارم کے خلاف استعمال کیا گیا لیکن جمہوری قوتوں کے نمائندوں نے بھی خوب ریسلنگ کھیلی ، کئی گھونسے منہ پر کھائے ، کئی لاتیں پیٹ پر برداشت کیں لیکن ہار نہیں مانی اور رنگ (Ring) میں کھڑے رہے۔

یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملکی تاریخ میں یہ بھی درج ہونے جارہا ہے کہ 2008ء سے 2013ء تک اور 2013ء سے 2018ء تک دو مرتبہ قومی اسمبلی نے مسلسل اپنی مدت پوری کی ہے ۔ پہلے دورانیے میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی اور ن لیگ حزب اختلاف میں تھی اور اس مرتبہ یعنی دوسرے دورانیے میں ن لیگ حکومت میں تھی تو پیپلز پارٹی حزب اختلاف میں بیٹھی تھی ۔

ان کے علاوہ بھی کچھ جماعتیں تھیں جو اس پلیٹ فارم یعنی قومی اسمبلی کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی تھیں لیکن کچھ افراد اور جماعتیں ایسی بھی وہاں براجمان تھیں جو ہمیشہ اس پلیٹ فارم سے باہر شاہراہوں پر میدان سجاکر اپنی حمایت میں فیصلے کے لیے ایمپائر کی جانب صدا ئیں لگاتی رہتی تھیں جیسے 2014اور 2017کے دھرنے وغیرہ ۔ ایمپائر اور دیگر اداروں و نادیدہ قوتوں کے بھرپور تعاون کے باوجود جمہوریت کے سب سے بڑے پلیٹ فارم قومی اسمبلی کو بچانے میں جمہوری قوتیں بمشکل کامیاب ہوئیں اور اس کی بہت بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑگئی۔

پہلے دورانیے میں دو وزرائے اعظم اور اس دورانیے میں ملک کا تیسری باروزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو حسب سابق کی طرح وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے صدارتی فرمان استعمال ہوتا تھا اور اب عدالتی فرمان استعمال میں لایا گیا ہے۔

بہرحال 70سالہ ملکی تاریخ کی عین روایت کے مطابق ان دونوں ادوار میں بھی اس جمہوری ادارے کو اپنے مرکزی کردار یعنی وزیر اعظم کی قربانی دینی پڑی لیکن فی الحال یہی کیا کم ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کی روایت شکنی تو کم از کم ممکن ہوئی ۔ جوکہ اس ملک میں کمزور جمہوریت کی ایک بڑی کامیابی ہے ۔

اگر اسی طرح دو یا تین مزید دورانیے مکمل ہوئے تو قوی امکان ہے کہ پھر شاید جمہوریت بھی اتنی مستحکم ہوجائے کہ نہ صرف وہ اپنے اور اپنے اداروں کے تحفظ کے قابل بن جائے گی بلکہ عالمی سطح پر بطور جمہوری ریاست کے ملک کی شہرت کو عام کرسکے گی۔

2013سے 2018تک پانچ سالہ دورانیے کی حامل یہ 14ویںقومی اسمبلی 31مئی 2018کو اپنی مدت کی تکمیل پر تحلیل ہوگئی ہے ۔ چودہویں قومی اسمبلی کی پوری ہوئی اس مدت والے پانچ سالوں کے دوران کچھ منفی تو کچھ مثبت باتیں ہوئیں۔مثبت باتوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ دوران ِ مدت اسمبلی نے مختلف امور پر قانون سازی کے مجموعی طور پر 189بل پاس کیے جن میں 22ویں آئینی ترمیم ، پاکستان پروٹیکشن ایکٹ ،حقوق اطفال ایکٹ ، فاٹا و پاٹا کا کے پی کے میں انضمام ، گلگت کو دیگر صوبوں کے برابر حقوق و اختیارات کی فراہمی اور انسانی اعضاء کی پیوندکاری سے متعلق قانون میں ترمیم جیسے اہم بل شامل ہیں ۔

منفی باتوں میں سب سے بڑی اور تشویش کی بات یہ تھی کہ اداروں کے ٹکراؤ کی وجہ سے ملک میں گومگو کے ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ بیورو کریسی کام نہیں کرپارہی تھی ، حکومتی اہلکار اس ڈر سے فیصلہ نہیں کرپارہے تھے کہ کل کوئی اسے پکڑ لے گا اور بچانے والا کوئی نہیں ہوگا ۔

ملک پر بیرونی قرضہ جات میں شدید اضافہ ہوا : 2013میں ملک کی جی ڈی پی کا حجم 22000ارب روپے تھا جو اس وقت 34000 ارب روپے ہوگیا ہے ، یہ قرضہ ادائیگی کے حوالے سے بذات خود ایک اژدہا کا روپ دھارچکا ہے۔ ملک میں جاری انتہاپسندی ، دہشت گردی اور بدامنی کی صورتحال پر کوئی ٹھوس و جامع قانونسازی نہ کرنے کی وجہ سے ملک ایشیائی ممالک میں سب سے غیرمحفوظ ترین ملک قرار دیا جارہا ہے ۔

ملک میں عوام کے جان و مال کی حفاظت سے متعلق قوانین پر عمل نہ کرنے پر پارلیمنٹ کی خاموشی سے ملک میں لاپتہ شہریوں کے واقعات کی وجہ سے ملکی و عالمی سطح پر ملکی جمہوری اداروں کی ساکھ کو بڑا نقصان پہنچا ہے ۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے انتظامی اُمور میں غفلت و من مانی پر بھی پارلیمنٹ نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی جس سے ملک میںنہ صرف بیروزگاری اور مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا بلکہ ملک میں شدید لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھتا ہی چلا گیا ۔

اسمبلی فلور پر کھڑے ہوکر حکومت نے ابتدائی دنوں میں جوبجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ کو ختم کرنے کاوعدہ کیا تھا وہ بھی وفا نہ ہوسکا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ بجلی کی پیداوار بڑھانے کو صرف ڈیموں کی تعمیر سے جوڑے رکھنے کی پالیسی کو تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے کوئلے ، گیس اور سولر و ونڈ انرجی سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی مؤثر قانون سازی نہیں ہوسکی ۔ اور حکومت کا انتظامی حال تو یہ تھا کہ کے الیکٹرک جیسے ادارے اسمبلی کے ہاؤس آف لیڈر اور ملک کے وزیر اعظم کو بھی خاطر میں نہیں لائے اور اپنی من مانیاں کرتے رہے ۔

قومی اسمبلی کی بیچارگی اس وقت بھی قابل دید تھی جب 2014اور 2017میں اسلام آباد میں دھرنے دیے جارہے تھے اور دھرنا دینے والے حکومت اور پارلیمنٹ کو خاطر میں ہی نہ لاتے تھے بلکہ ان کا سارا زور اسٹبلشمنٹ کی جانب سے اقدامات اور یقین دہانیوں کی طرف تھا۔ جب کہ حالیہ دورانیے میںسابقہ دورمیں 18ویں اور 20ویں ترمیم جیسے جمہوری اداروں کی مضبوطی کے بنیادی قوانین نہیں بن پائے جو کہ مستقبل میں اسمبلی اور جمہوری نظام کی مضبوطی میں مؤثر کردار ادا کرسکتے تھے ۔

اس کے علاوہ ملکی و عالمی سطح پر پیدا ہونے والے مسائل جیسے نیوز لیکس ، عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس کی ناکامی ، کشن گنگا ڈیم پر خاموشی ، نیلم جہلم پروجیکٹ کی تباہی ، پاک ایران چین گیس پائپ لائن کا تعطل ، پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنا ، پاکستان کی فوجی امدا د بند ہونا ،صوبوں کے مابین وسائل پر کشیدگی ، ملک میں قلت ِ آب و ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہونے والی المناک اموات وغیرہ براہ راست تو حکومت کی نااہلی کا پتہ دیتے ہیں لیکن ان اُمور پر حزب ِ اقتدار و حزب ِ اختلاف دونوں کی جانب سے اسمبلی کے کردار کو محدود رکھنا پارلیمنٹ و جمہوریت کونقصان پہنچانے کے برابر ہے ۔کیونکہ ان ہی معاملات کی وجہ سے یہ ہاؤس کمزور ہوا اور صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ پارلیمنٹ کے کام عدالتیں کرنے لگیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ ہاؤس یعنی قومی اسمبلی نہ صرف اپنا استحقاق برقرار نہ رکھ سکی بلکہ اپنے لیڈر یعنی وزیر اعظم کو بھی نہ بچا سکا ۔

دیکھا جائے تو ماضی میں ہمیشہ یہ ذکر عام ہوتا تھا کہ آئندہ انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ لیکن قومی اسمبلی کے گذشتہ دو ادوار کی تکمیل سے اب یہ بات تو واضح نظر آرہی ہے کہ انتخابات ہوں گے اور وقت پر یعنی جولائی 2018کے آخری ایام میں ہونے کے امکانات ہیں ۔کیونکہ صدر مملکت کی جانب سے انتخابات کی حتمی تاریخ پر مہر ثبت کردی گئی ہے۔

ویسے بھی عالمی سطح پر تیزی سے تبدیل ہوتے حالات اورملکی سطح پر اندرونی علاقائی تضادات سے نبرد آزما ہونے کے لیے پارلیمنٹ سمیت تمام ریاستی اداروں کا مستحکم اور مشترکہ حالت میں کام کرنا لازمی نظر آتا ہے ۔ہاں البتہ کچھ قوتیں انتخابات کی منسوخی کے اشارے بھی دے رہی ہیں جیسے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی قوتیں انتخابات منسوخ کرانا چاہتی ہیں ۔

یہ بات یوں بھی عقل سلیم میں نہیں بیٹھتی کہ یہ بات کرنے والا اس کا مجاز نہیں ہے ، دوسری بات کہ جس طرح جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک کی بطور نگران وزیر اعظم کی نامزدگی کا معاملہ طے پایا ہے اس سے واضح نظر آرہا ہے کہ ریاستی ادارے کسی بھی قیمت پر یہ انتخابات کرانے کا فیصلہ رکھتے ہیں اور مثبت نتائج چاہتے ہیں ،کیونکہ جسٹس ناصرالملک ماضی میں چیف جسٹس ہائی کورٹ پشاور اور سپریم کورٹ کے جسٹس ہونے کے ساتھ ساتھ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر اور دھاندلی کی جانچ پڑتال کرنے والی کمیشن کے سربراہ کے عہدوں پر رہنے کی وجہ سے ملکی انتظامی و انتخابی اُمور کا اچھا تجربہ رکھتے ہیں ۔

متذکرہ بالا تمام خرابیوں کے باوجود یہ بات باعث اطمینان ہے کہ جمہوریت کی گاڑی اب نہ صرف جمہوریت کی پٹڑی پر گامزن ہے بلکہ جمہوری پلیٹ فارم پر ٹھہرنے کا ہنر بھی سیکھ چکی ہے ۔ جس سے مستقبل میں ملکی جمہوری نظام اور ملکی ناموس پر خوش آئند اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں ۔ ہاں لیکن اس وقت وطن ِ عزیز کو طبقوں اور چھوٹے چھوٹے گروپوں میں بٹی سیاسی قوتوں کی نہیں بلکہ مضبوط سیاسی جماعتوں کی سخت ضرورت ہے جو عوامی مسائل کا ادراک رکھتی ہوں اور عوام کی فلاح و بہبود کی نیت کی حامل ہوںاورجو کروٹ بدلتے ملکی حالات کو جمہوری پلیٹ فارم سے بیٹھ کر حل کرنے کی اہلیت و تجربہ رکھتی ہوں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں