کتاب مصنف اور قاری
اپریل کا تیسرا عشرہ ، علامہ اقبال کی برسی اور عالمی یومِ کتاب کے حوالے سے ایک خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔
اپریل کا تیسرا عشرہ ، علامہ اقبال کی برسی اور عالمی یومِ کتاب کے حوالے سے ایک خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔
اس بار اس سے ذرا قبل یعنی 19 اپریل کو سرگودھا یونیورسٹی نے ایک محفلِ مشاعرہ کا اہتمام کر کے اس میں ایک نئے رنگ کا اضافہ بھی کر دیا سو ہوا یوں کہ مشاعرے کی شب بیداری کی وجہ سے میں نیشنل بُک فائونڈیشن کے ''مصنفین اور کتاب خوانی فیسٹیول '' میں اُس وقت پہنچا جب برادرم عقیل رُوبی کا پروگرام چل رہا تھا فائونڈیشن کے ایم ڈی مشہور افسانہ نگار اور میرے چالیس سال پرانے دوست مظہر الاسلام نے اسٹیج سے مجھے جو Lookدی اُس کا آسان اُردو ترجمہ یہ تھا ''کہ اتنی تاخیر سے آنے کے ایک ایک لمحے کا حساب کیا جائے گا بس مجھے ذرا اسٹیج سے اُتر لینے دو''۔
جس مان اور اپنائیت کے ساتھ اس نے یہ Gesture دیا اُس کا صحیح اور اصل لطف صرف پُرانے دوست ہی لے اور سمجھ سکتے ہیں لیکن اس اکٹھ کے حوالے سے مزید بات کرنے سے پہلے ایک دو باتیں سرگودھا یونیورسٹی کے مشاعرے کے بارے میں بھی ۔ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم ہمارے پرانے دوست ہیں اُن کے اپنے شعبے تو عربی اور فلسفہ ہیں لیکن گزشتہ دس گیارہ برس سے (جب سے یہ یونیورسٹی قائم ہوئی ہے)
جس طرح سے وہ اسے ایک جدید ، خوبصورت اور فعّال یونیورسٹی بناتے چلے جا رہے ہیں اُسے ایک قابل تقلید کارنامہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس یونیورسٹی میں اس وقت بیس ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات 150 مضامین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اساتذہ بھی دو سو چالیس کے قریب پی ایچ ڈی اور ایک سو سے زیادہ ایم فل کی ڈگری رکھتے ہیں اور واضح رہے کہ یہ وہ ڈگریاں نہیں ہیں جن کے بارے میں ہمارے ایک مہربان وزیر اعلیٰ نے یہ ارشاد فرمایا تھا۔''کہ ڈگری چاہے جیسی ہو مگر ڈگری تو ہوتی ہے''۔مشاعرہ کے سامعین کی تعداد دس سے بارہ ہزار تک بتائی گئی جو نظر بھی آرہی تھی۔ اس مشاعرے میں سے اگر طوالت کے منفی دس نمبر نکال بھی دیے جائیں تب بھی یہ باقی کے نوے نمبروں میں کم از کم ستر نمبر کا حامل ضرور تھا جس میں ڈسپلن کے دس اضافی نمبر بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔
مظہر الاسلام نے جب سے نیشنل بُک فائونڈیشن کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ سنبھالا ہے اس ادارے میں جیسے جان سی پڑگئی ہے کہ اب یہ ادارہ کتاب سے متعلق سلیقے اور معیار کا ایک سمبل بنتا چلا جا رہا ہے جب کہ اس طرح کے سرکاری محکمے عام طور پر'' ڈنگ ٹپائو '' کاموں سے آگے نہیں بڑھتے اور اپنے کام سے زیادہ ان افسران کے بارے میں ''فکر مند'' رہتے ہیں جن کی جنبشِ ابرو پر اُن کی نوکریوں اور ترقیوں کا دارومدار ہوتا ہے ۔ مظہر کی طبیعت میں ایک خاص طرح کی تیزی ہے(جسے بعض بے عمل لوگ بدلحاضی سے بھی تعبیر کرتے ہیں ) جو ہر فعال اور کام کرنے والے شخص کا ایک فطری خاصہ ہوتی ہے کہ وہ بعض اوقات اپنے ردعمل اور جذبات کو مصلحت اور دنیا داری کے پردے میں ڈھانپ نہیں پاتا اور عام رواج کے خلاف قدرے Blunt اور جارحانہ انداز میں کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرتا ہے ۔
سو یہاں بھی دو دنوں میں تین چار بار اُس کا یہ رُوپ کھل کر سامنے آیا اور اُس نے محفل سے اُٹھ کر جانے والوں یا بار بار آنے جانے والوں کو نہ صرف ٹوکا بلکہ یہ دھمکیاں بھی دیں کہ اگلی بار وہ ان ''غیر ذمے دار'' سامعین کو دعوتی کارڈ نہیں بھجوائے گا اور مثال کے طور پر بار بار اُن سینئر ادیبوں کے نام گنوائے جو سارا سارا دن ہر سیشن اس طرح Attend کرتے ہیںکہ اپنی جگہ سے ہل کر نہیں دیتے ۔ اس مثال کا متعلقہ سامعین پر تو کچھ اثر ہوا ہو یا نہ ہو مگر ان سینئر ادیبوں کی جان مزید مشکل میں پڑ گئی کہ اب انھیں واش رُوم تک جانے کے لیے بھی کسی ایسے وقفے کا انتظار کرنا پڑتا تھا جب کارروائی میں دو چار منٹ کا کوئی اتفاقی وقفہ آجائے ۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا ۔واقعہ یہ ہے کہ اس محفل کے بیشتر سامعین اور مدعو کردہ مصنفین ایسے لوگ تھے جنھیں میرؔ صاحب نے ''روزگار کے منتخب'' کے القاب سے نوازا تھا ۔21 اور 22 اپریل کو صبح دس بجے سے رات نو بجے تک ہر روز تقریباً نو لکھنے والوں نے ایک ایک گھنٹہ اپنی تحریر یں پڑھ کر سنائیں ہر مصنف سے پہلے اس کے متعلقہ فن پارے یعنی کتاب پر ایک مضمون پڑھا جاتا تھا ۔ آخر میں سامعین کے ساتھ سوال جواب کا ایک مختصر وقفہ بھی رکھا گیا تھا تاکہ وہ اپنے محبوب مصنف سے اس کے فن کے بارے میں براہ راست بات چیت کر سکیں مکمل فہرست کچھ اس طرح تھی۔
20 اپریل ۔ اسد محمد خان (جو کہانیاں لکھیں ) ، انتظارحسین (بستی)، احمد عقیل روبی(علم و دانش کے معمار)، نذیر ناجی (ایک مٹھی حُسنِ انسان)، عطا الحق قاسمی (مجموعہ)، محمود شام(منزلیں)، عاصم بٹ (کا فکا کہانیاں)، اصغر ندیم سیّد (چاند گرہن)، امجد اسلام امجد(شام سرائے)۔
21اپریل۔مستنصر حسین تارڑ (اے غزال شب)، فہمیدہ ریاض (دُھوپ) ، مسعود اشعر (اپنا گھر)،زاہدہ حنا (تتلیاںڈھونڈنے والی)، ڈاکٹر وحید احمد(مندری والا)، جاوید جبار(پاکستان انوکھی تشکیل ۔ انوکھی تقدیر)، فرخ جمیل ( پیش کش) (میں اپنے افسانوں میں تمہیں پھر ملوں گا ۔ منشا یاد)، میاں رضا ربانی (A Biography of Pakistan Federalism) ، محمد یونس سیٹھی مترجم (نوائے رُومی) ۔
ان کے علاوہ دونوں روز پروگراموں کے آخر میں بہت سے خواتین و حضرات نے اپنی اپنی پسند کے ادب پارے سامعین کو پڑھ کر سنائے اس فہرست میں بھی بیشتر نام بہت نمایاں احباب کے شامل تھے۔
اس مرکزی پروگرام کے علاوہ بھی کئی پروگرام رکھے گئے تھے لیکن اس بات کا اہتمام کیا گیا تھا کہ اُن سب کا تعلق کتاب سے ہو چاہے وہ بچوں کا ادب ہو ، کہانی خوانی یا ہیر خوانی کی محفل ۔
ملک بھر سے ادب اور کتاب کے حوالے سے لکھنے اور پڑھنے والوں کا اس طرح ایک جگہ پر جمع کرنا اور ایسے خوب صورت اور تعمیری پروگرام کا انعقاد جس سلیقے سے کیا گیا اُس سے ایک بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ جدید ذرایع ابلاغ کی فراوانی ، کتابوں کی مہنگائی اور نئی نسل کی کتاب سے عمومی دوری کے باوجود اب بھی ہمارے معاشرے میں اس روایت کی پاسداری کرنے والے بے شمار لوگ موجود ہیں اور اسے کسی طور بھی ایک ہاری ہوئی جنگ قرار دینا درست نہیں ۔ بات صرف مسئلے کو سمجھنے اور اسے دانش اور سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی ہے ۔ یہ تقریب پاک چائنا فرینڈ شپ کی عمارت میں رکھی گئی تھی جہاں پورے اسلام آباد سے با آسانی لوگ شامل ہوسکتے تھے کہ یہ ایک مرکزی جگہ پر یعنی لوک ورثہ کے قریب واقع ہے اس کے علاوہ نیشنل بُک فائونڈیشن نے اس بات کا بھی اہتمام کیا تھا کہ وہاں مختلف اشاعتی ادارے نہ صرف اپنی مطبوعات کے اسٹال لگائیں بلکہ ہر کتاب کی خریداری پر خریدار کو 50%خصوصی ڈسکائونٹ بھی دیں۔ یہ اپنی جگہ پر ایک بہت احسن عمل تھا کہ اس سے کتابوں کی مہنگائی کے عذر میں خاصی معقول کمی واقع ہوگئی ۔ البتہ یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی کہ غریب اور نچلے متوسط طبقے کے ادب دوستوں کے لیے تو کتابوں کی قیمتوں میں ہونے والا یہ غیر معمولی اضافہ واقعی پریشان کن ہے کہ ان کے بجٹ میں اس کے لیے بہت کم گنجائش نکل پاتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ کسی نہ کسی طرح کتابوں تک پہنچنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں مگر اس وقت افسوس بھی ہوتاہے اور ہنسی بھی آتی ہے جب کچھ لوگ اپنے بچوں کو ایک وقت میں ایک ہزار روپے کے برگر یا پیزا کھلانے یا ہزاروں روپے کے برانڈڈ کپڑے اور جوتے دِلانے کے لیے تو بخوشی تیار ہوجاتے ہیں لیکن جب کتاب کی بات آتی ہے تو مہنگائی کا رونا شروع کر دیتے ہیں۔
مظہر الاسلام نے گزشتہ کچھ عرصے میں ریلوے اسٹیشنوں (جو ہمارے سیاستدانوں کی نذر ہوگئے ) اور ہوائی اڈوں کے بُک اسٹالز پر کتابوں کو کم قیمت میں پہنچانے اور ان کی فراہمی کو آسان اور باقاعدہ کرنے میں بہت عمدہ کام کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے لکھاری دوستوںسے ان کی استعمال شدہ کتابیں حاصل کرکے دور افتادہ اور دیہاتی علاقوں کی مقامی لائبریریوں میں مفت بھی بھجوائی ہیں لیکن ابھی کرنے کے لیے بہت سا کام پڑا ہے ۔ خاص طور پر سرکاری ، نیم سرکاری اور تعلیمی اداروں سے متعلق لائبریریوں کے نظام میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے میں اس بات کو تو تسلیم کرتا ہوں کہ جدید ذرایع ابلاغ کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل میں کتاب (بالخصوص اُردو اور دیگر پاکستانی زبانوں میں لکھی گئی کتابوں) سے دوستی نسبتاً کم ہوگئی ہے لیکن میں اسے اس زوال کی واحد وجہ قرار دینے کے حق میں نہیں ہوں۔ اگر ساری مہذب اور متمدن دنیا میں کمپیوٹر انٹرنیٹ ویب سائٹس اور فیس بُک کے باوجود کتابیں شایع ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھی بھی جارہی ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہمارے متعلقہ محکمے اور لوگ سچ کا سامنا نہیں کر پارہے اس معاملے کو زیادہ سنجیدگی اور تقابلی مطالعے کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ کتاب اور ادب کی صورتِ حال اتنی مایوس کُن ہر گز نہیں ہے جتنی کہ بتائی جاتی ہے ۔
نیشنل بُک فائونڈیشن ، اکادمی ادبیات پاکستان ، مقتدرہ قومی زبان (جس کا نام بدل کر اب کچھ اور کر دیا گیا ہے ) اور اس طرح کے دیگر ادارے اگر صحیح رُخ میں محنت اور تسلسل کے ساتھ کام کرتے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کتاب اور ادیب کو ہمارے معاشرے میں وہ اعلیٰ مقام نہ مل سکے جو ان کا حق بھی ہے اور حصہ بھی۔