تحریک انصاف کی صوبائی حکومت فاٹا  بل منظور کرانے میں کامیاب

خیبرپختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے سلسلے میں بڑے، بڑے نام زیر گردش اور زیر غور تھے


Shahid Hameed May 30, 2018
خیبرپختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے سلسلے میں بڑے، بڑے نام زیر گردش اور زیر غور تھے فوٹو: فائل

پارلیمان سے فاٹا بل کی منظوری کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی سے اس کی منظوری ایک بڑا مرحلہ تھاکیونکہ تحریک انصاف کی حکومت اکثریت سے محروم ہونے کی وجہ سے اسمبلی اجلاس منعقد نہیں کر پا رہی تھی نہ ہی بجٹ پیش کیا جا سکا جس کے باعث یہ ایک امتحان تھا کہ ان حالات میں صوبائی اسمبلی کا اجلاس منعقد کیاجائے۔

تاہم چونکہ صرف تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ جمعیت علماء اسلام(ف)کے علاوہ دیگر پارلیمانی جماعتیں بھی فاٹا بل کے حق میں تھیں اس لیے صوبائی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا اور اس میں بل کی منظوری کے لیے درکار دو تہائی اکثریت سے زائد ووٹ بل کے حق میں پڑے،7 کے مقابلے میں92 ارکان نے فاٹا بل کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کیا جس سے یہ مرحلہ بخوبی طے ہوگیا ہے، بل کی منظوری کے وقت جمیعت علماء اسلام جو کہ بل کی واحد مخالف جماعت تھی اس کے آٹھ ارکان ایوان سے غیر حاضر رہے جس کے باعث بل کی مخالفت میں صرف7ووٹ پڑے جس سے جمعیت کی اپنی پوزیشن کمزور ثابت ہوئی ہے۔

ایک جانب تو ایوان کے اندر جے یوآئی کے ارکان کی اکثریت ایوان سے غیر حاضر رہی تو دوسری جانب جمعیت نے یقینی طور پر پارلیمان اور پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے کے باوجود بل کی منظوری کو روکنے کے لیے احتجاج کا جو راستہ اپنایا وہ کسی بھی طور مناسب نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ سے خود جمیعت کی پوزیشن خراب ہوئی ہے کیونکہ جمعیت کے کارکنوں نے اسمبلی کے دونوں داخلہ گیٹوں پر قبضہ کرتے ہوئے ایم پی ایز کو روکنے کی کوشش کی جو کسی بھی طور مناسب نہیں تھی کیونکہ یہ اقدام پارلیمان کو قانون سازی جیسے بنیادی کام سے روکنے کے مترادف تھا۔

تاہم جے یو آئی جو مرکز میں اپنے غصے کا اظہار نہ کرسکی اس نے خیبرپختونخوا میں اپنا غصہ اتار دیا مگر جے یو آئی کے ورکر پولیس کی لاٹھی اور آنسوگیس شیلنگ کی تاب نہ لاسکے اور شیلنگ کا آغاز ہوتے ہی میدان سے غائب ہوگئے جس کے بعد اراکین اسمبلی کے لیے راستہ کھل گیا جنہوںنے ایوان میں آ کر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا اور فاٹا بل کی توثیق بھی کردی جس سے فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کا راستہ صاف ہوگیا۔

تاہم فاٹا بل کی منظوری کے ساتھ جہاں فاٹا کا سٹیٹس تبدیل ہوگا وہیں صوبہ کے زیر انتظام قبائلی علاقہ یعنی پاٹا کا سٹیٹس بھی تبدیل ہوگیا لیکن حیرت کی بات ہے کہ جب یہ بل قومی اسمبلی اور سینٹ میں منظور کیا جا رہا تھا اس وقت خیبرپختونخوا کے نمائندوں نے اس بارے میں آواز نہیں اٹھائی حالانکہ اگر قومی اسمبلی میں ہی بل کی منظوری کے وقت یہ معاملہ اٹھا لیا جاتا تو پاٹا کے حوالے سے جو اعتراضات فاٹا بل کی توثیق کے وقت خیبرپختونخوا اسمبلی میں اٹھائے گئے ان کا حل قومی اسمبلی ہی میں نکل آتا اور وہیں پر ترمیم کے ذریعے پاٹا کا سٹیٹس برقرار رکھا جاتا لیکن قومی اسمبلی اور سینٹ سے یہ بل منظور ہوگیا، تاہم صوبائی اسمبلی میں توثیق کے موقع پر ملاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ارکان نے بل کی توثیق سے ہاتھ اٹھا لیے اور ان کا مطالبہ تھا کہ نہ صرف یہ کہ پاٹا کو ٹیکسوں سے دس سال کے لیے مستثنیٰ رکھا جائے اوراس میں مستقبل میں بھی توسیع کے لیے گنجائش چھوڑی جائے بلکہ ساتھ ہی شرعی نظام عدل کو بھی ملاکنڈ ڈویژن کے لیے برقرار رکھا جائے جو مذکورہ بل کی منظوری سے ختم ہو رہا ہے۔

مسلے کا حل وزیراعطم اور وزیراعلیٰ نے مل کر تلاش کرلیا، وزیراعظم نے پاٹا کوپانچ سالوں کے لیے ٹیکسوں سے مستثنیٰ رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔ تاہم صوبائی اسمبلی نے اس سلسلے میں قرارداد کے ذریعے یہ مدت بڑھا کر دس سال کرنے کا مطالبہ کیا جو فوری طور پر وزیراعظم آفس کو ارسال بھی کردی گئی ہے تاکہ اس پرعمل درآمد ہوسکے اور شرعی نظام عدل کو ملاکنڈ ڈویژن میں برقراررکھنے کے لیے وزیراعلیٰ نے آرڈیننس جاری کرنے کا اعلان کردیا۔

جس سے یہ مسلہ حل ہوجائے گا ، صوبائی اسمبلی میں منظور کی جانے والی قرارداد کے ذریعے یہ مطالبہ بھی کیا گیا جس طرح فاٹا کے لیے سالانہ100ارب کا پیکج دیاجائیگا اسی طرز پر ملاکنڈڈویژن کے لیے بھی سو ارب کا پیکج دیا جائے اور انھیں بجلی بھی سستے نرخوں پر فراہم کی جائے،مذکورہ دونوں مطالبات ایسے ہیں کہ جن پر عمل درآمد مشکل نظر آتا ہے کیونکہ فاٹا کی محرومیاں تو سب کے سامنے ہیں تاہم جہاں تک پاٹا کا تعلق ہے تو پاٹا میں اس حد تک محرومیاں نہیں ہیں اور اگردہشت گردی کی بنیاد پر پاٹا کے لیے کسی پیکج کا اعلان کیا جاتا ہے تو پھر دیگر علاقے بھی اس کے لیے آواز اٹھائیں گے۔

اور ان آواز اٹھانے والے علاقوں میں سب سے اگلی صف میں صوبائی دارالحکومت پشاور کھڑا نظر آئے گا کیونکہ دہشت گردی کے عروج کے زمانے میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پشاورکو ہوا اس لیے اگر دہشت گردی کے حوالے سے کوئی پیکج ملنا چاہیے تو وہ پشاور کو ملنا چاہیے تاکہ صوبائی دارالحکومت پشاور حقیقی معنوںمیں اپنے پائوں پر کھڑا بھی ہوسکے اور جو نقصانات اس نے اٹھائے ہیں ان کا ازالہ بھی ہوسکے۔

ان سطور کی اشاعت تک صوبائی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرتے ہوئے تحلیل ہوچکی ہوگی جس کے ساتھ ہی صوبائی کابینہ کی تحلیل بھی ہوچکی ہوگی جبکہ دوسری جانب مرکزی حکومت کے پاس بھی اب چند گھنٹے ہی باقی ہیں ا س لیے مرکزی حکومت نے ان مطالبات کے حوالے سے جو بھی فیصلے لینے ہیں ان کے لیے انتہائی کم وقت ہے اور مرکز کو اس معاملے میں سرعت سے فیصلے لینے ہونگے کیونکہ اگر مرکزی حکومت یہ فیصلے نہیں لیتی تو اس صورت میں یہ فیصلے نگران یا پھر اگلی منتخب حکومت تک لٹک جائیں گے۔

خیبرپختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے سلسلے میں بڑے، بڑے نام زیر گردش اور زیر غور تھے جن میں ریٹائرڈ جج بھی شامل تھے اور ریٹائرڈبیوروکریٹس بھی اورساتھ ہی ریٹائرجرنیلوں کے نام بھی زیرغور آئے لیکن حیران کن طور پر اتفاق رائے ایک ایسی شخصیت کے نام پر کیا گیا جو نہ تو ریٹائرڈ جج ہیں اورنہ ہی بیوروکریٹ اور نہ جرنیل بلکہ ایک کاروباری شخصیت ہیں اور وہ بھی ایسی شخصیت جن کے خاندان کے تعلقات مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام (ف) تینوں کے ساتھ ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مذکورہ شخصیت یعنی منظور آفریدی کا نام وزیراعلیٰ پرویزخٹک کی جانب سے نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر مولانا لطف الرحمٰن کی جانب سے تجویز کیا گیا جس پر وزیراعلیٰ نے بھی اتفاق کیا، تاہم مذکورہ نام وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کے باقاعدہ اعلان سے قبل ہی پھسل کر مارکیٹ میں آگیا جس پر دیگر جماعتوں نے نہ صرف احتجاج کرنا شروع کردیا ہے بلکہ اے این پی نے تومذکورہ شخصیت سے پیسہ لے کر انھیں نگران وزیراعلیٰ کے طور پر نامزد کرنے کا الزام بھی عائد کردیا ہے۔

حالانکہ منظور آفریدی کا نام منظر عام پر آنے کے بعد ان کی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی تصویر بھی سرکاری طور پر جاری کی گئی تاہم جب دیگر پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے منظور آفریدی کے نام پر اعتراضات سامنے آئے تو اس سلسلے میں وزیراعلیٰ کی جانب سے ایک مرتبہ پھر مشاورت کا اعلان کیا گیا۔ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپوزیشن لیڈر مولانا لطف الرحمٰن کے بقول ان کے رابطوں اور نام مانگنے کے باوجود اے این پی اور قومی وطن پارٹی نے نگران وزیراعلیٰ کے لیے کوئی نام تجویز نہیں کیا جبکہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی جانب سے نام تجویز کیے گئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔